Corrected
آرٹیکل عبدالرافع
2k13/mc/03
Un-edited
سرکاری زمینوں پر قبضے
پاکستان کے بنے کے بعد جو عوام یہاں ہجرت کرکے آئے تھے تو حکومتِ پاکستان نے انہیں جو جگہیں الاٹ کی تھی اس کے علاوہ بھی بہت بڑی تعداد میں عوام کو جہاں جگہ ملی انھوں نے وہاں ہی اپنی رہائش کرنے میں آفیت جانی اسی میں حیدرآباد شہر بھی شامل تھا ۔یہ حقیقت ہے کہ ہر معاشرے میں اچھائیاں اور برائیاں دونوں موجود ہوتی ہیں مگر کچھ اس طرح کی برائیاں بھی ہوتی ہیں جو کہ اچھے کام کے نام پر ناجائز اور غیر قانونی کام ہوتے ہیں اس حوالے سے اگر حیدرآباد کا رخ کیا جائے تو بہت سے ایسے عمل اور سرگرمیاں ہیں جو کہ با ظاہر ناجائز ہیں اور غیر قانون ہیں لیکن ان کو اچھے کام کی طرح کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد میں بہت سی جگہ جہاں پر اچھے کام کے نام پر غیر قانون کام ہورہے ہیں جس میں سے ایک غیر قانونی کام سرکاری زمینو ں پر قبضہ بھی جس میں حیدرآباد کی نرسریاں غیر قانونی زمین میں سے ریلوے کالونی ،مہر علی کالونی،نیا پل ،لیبر کالونی زیرفہرست ہے جہاں لوگ قبضہ کر رہے ہیں جبکہ مارکیٹوں کا رخ کیا جائے تو شاہی بزار،کلاتھ مارکیٹ،چھوٹکی گھٹی،سرے گھاٹ چوک،میمن اسپتال چوک پر بھی دوکان داروں نے مین روڈ اور فٹ پاتھوں پر جگہ کو گھیرا ہوا ہے اور اپنی دوکانوں کو بڑھانے کے لئے روڈ اور فٹ پاتھوں کو ناجائز طریقے سے استعمال کر رہے ہیں جس سے پیدل چلنے والے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور پھر انہی لوگوں کوجب روڈ پر چلنا پڑتا ہے تو دوسری جانب ٹریفک کو بھی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے عوام میں بے چینی اور چڑچڑا پن آجاتاہے۔ اس کے علاوہ بھی لطیف آباد آٹھ نمبرمارکیٹ میں بھی دوکان داروں کا یہ ہی حال ہے اور قاسم آباد میں بھی یہ ہی حال ہے جبکہ کینٹومینٹ بورڈ کے احاطے میں آنے والی نرسریاں جو کہ پٹھان کالونی سے لے راجپوتانہ اسپتال تک غیر قانونی نرسریاں قائم کی ہوئی ہیں اور اس میں شک نہیں کہ نرسریاں ہمارے معاشرے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ماحول خوشگوار بنانے کاواحد ذریعہ ہیں مگر سرکاری زمینوں پر اچھے کام کے نام پر نرسریاں بنانا ناجائز ہے جس سے شہر سے جانے اور آنے والے ٹریفک کو مثائل درپیش ہیں۔
اس کے علاوہ ٹاور مارکیٹ میں تقریبا 1000 سے زائد داکانداروں نے ناجائزقبضہ کیا ہوا ہے۔جبکہ بات کی جائے کلاتھ مارکیٹ اور فقیر کے پڑِ اور شاہی بزار اور اسی طرح کے کاروبار کرنے والے علاقوں میں بھی ہزاوں کی تعداد مین لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے ۔اور اسی طرح بات کی جائے گھروں کی تو اس پر بھی لوگوں نے کئی کئی فٹ جگہاؤں پر قبضہ کر کے اپنے گھروں کو گلی میں نکال رکھے ہیں۔
اس طرح اگر دوسرے غیر قانونی قبضہ پر بات کی جا ے تواس میں لکڑیوں کی ٹالیں او رغیر قانونی پارکینگ بھی تجاوزات کے ذمرے میں ہی آتی ہیں حیدرآباد میں کل لکڑیوں کی ٹالوں کی تعداد 50 سے زائد ہیں جس میں 15سے زائدلطیف آباد میں واقع ہیں جو کہ ایک بڑے رقپے پرمبنی ہے اسوراسی طرح کی چاندنی موبائل مارکیٹ،کوہنور چوک اور لطیف آبادمیں بھی کئی جگہوں پر غیر قانونی پارکنگ ہیں جو کہ بڑے بڑے نامور شخصیات کے نام سے چل رہی ہیں اور ان زمینوں کی قیمتیں کروڑوں میں ہیں ناجائز تجاوزات کے خلاف حیدرآباد کے( ڈی۔آئی ۔جی )ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی نے تمام 9 ضلع کے ایس۔ایس۔پیز کو ہدایت کی ہے کہ سرکاری زمینوں پر بنے والے ناجائز پارکنگ ،چھوٹے بڑے مختلف ٹھیئے اور روڈ پر لگنے والی غیر قانونی چیزوں کو ہٹایا جائے اور قبضہ خالی کروایا جائے کے اور ان کو 15 دن کی مہلت دی جائے کہ وہ اپنے غیر قانونی تجاوزات کو کہیں جائز مقام پر منتقل کریں۔
ان ناجائز تجاوزات میں بلدیہ کا بھی اہم کردار ہے۔ بلدیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر قانونی اور ناجائز تجاوزات ختم کریں مگر وہ اس کے برعکس کام کر رہے ہیں۔
مگر HDA،CBH اور بلدیہ نے چند روپے کی خاطر یہ زمینیں عوام کے حوالے کر رکھی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان زمینوں کو معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے استعمال کرے تاکہ ہمارا معاشرہ اور بہتری کی طرف گامزن ہوسکے۔اور سڑکوں کو کشادہ کر کے لوگوں کے مثائل کو کم کیا جاسکے۔
Abdul Rafay BS-III Second semester
August 2015
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
----------------------------
سرکاری زمینوں پر قبضہ آرٹیکل
عبدالرافع 2k13/mc/03 شہر کے اندر اولڈ سٹی ایریا میں جو قبضے اور ناجائز تجاوزات ہیں؟
نرسریاں میونسپل لیڈ پر ہیں یا ہائی وے لینڈ پہ یا کینٹونمنٹ کی زمین پہ؟
اس حوالے سے سرکاری سروے وغیرہ کیا ہے؟ اور غیر سرکاری اعداد وشمار کیا ہیں۔
ویسے میونسپل اور کینٹونمنٹ بورڈ کے پاس اینٹی انکروچمنٹ محکمے ہیں۔ اور حکومت سندھ نے بھی اینٹی انکروچمنٹ ڈپارٹمنٹ بنیا ہے۔ ان کی کیا رپورٹس ہیں۔
کم از کم 600 تو ہوں کہ ایڈیٹنگ کے بعد ایک سو الفاظ کم ہوں تو کوئی مسئلہ جو الفاظ اس کلر میں ہیں وہ وجاحت چاہتے ہیں۔
یہ آخری سمیسٹر ہے اس میں کوئی چالو قسم کے تحریریں نہیں چلیں ۔
اور ہاں اس کے اوپر لکھو تو صحیح کیہ آرٹیکل ہے، فیچر یا اور کچھ
آرٹیکل عبدالرافع
2k13/mc/03
Un-edited
سرکاری زمینوں پر قبضے
پاکستان کے بنے کے بعد جو عوام یہاں ہجرت کرکے آئے تھے تو حکومتِ پاکستان نے انہیں جو جگہیں الاٹ کی تھی اس کے علاوہ بھی بہت بڑی تعداد میں عوام کو جہاں جگہ ملی انھوں نے وہاں ہی اپنی رہائش کرنے میں آفیت جانی اسی میں حیدرآباد شہر بھی شامل تھا ۔یہ حقیقت ہے کہ ہر معاشرے میں اچھائیاں اور برائیاں دونوں موجود ہوتی ہیں مگر کچھ اس طرح کی برائیاں بھی ہوتی ہیں جو کہ اچھے کام کے نام پر ناجائز اور غیر قانونی کام ہوتے ہیں اس حوالے سے اگر حیدرآباد کا رخ کیا جائے تو بہت سے ایسے عمل اور سرگرمیاں ہیں جو کہ با ظاہر ناجائز ہیں اور غیر قانون ہیں لیکن ان کو اچھے کام کی طرح کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد میں بہت سی جگہ جہاں پر اچھے کام کے نام پر غیر قانون کام ہورہے ہیں جس میں سے ایک غیر قانونی کام سرکاری زمینو ں پر قبضہ بھی جس میں حیدرآباد کی نرسریاں غیر قانونی زمین میں سے ریلوے کالونی ،مہر علی کالونی،نیا پل ،لیبر کالونی زیرفہرست ہے جہاں لوگ قبضہ کر رہے ہیں جبکہ مارکیٹوں کا رخ کیا جائے تو شاہی بزار،کلاتھ مارکیٹ،چھوٹکی گھٹی،سرے گھاٹ چوک،میمن اسپتال چوک پر بھی دوکان داروں نے مین روڈ اور فٹ پاتھوں پر جگہ کو گھیرا ہوا ہے اور اپنی دوکانوں کو بڑھانے کے لئے روڈ اور فٹ پاتھوں کو ناجائز طریقے سے استعمال کر رہے ہیں جس سے پیدل چلنے والے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور پھر انہی لوگوں کوجب روڈ پر چلنا پڑتا ہے تو دوسری جانب ٹریفک کو بھی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے عوام میں بے چینی اور چڑچڑا پن آجاتاہے۔ اس کے علاوہ بھی لطیف آباد آٹھ نمبرمارکیٹ میں بھی دوکان داروں کا یہ ہی حال ہے اور قاسم آباد میں بھی یہ ہی حال ہے جبکہ کینٹومینٹ بورڈ کے احاطے میں آنے والی نرسریاں جو کہ پٹھان کالونی سے لے راجپوتانہ اسپتال تک غیر قانونی نرسریاں قائم کی ہوئی ہیں اور اس میں شک نہیں کہ نرسریاں ہمارے معاشرے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ماحول خوشگوار بنانے کاواحد ذریعہ ہیں مگر سرکاری زمینوں پر اچھے کام کے نام پر نرسریاں بنانا ناجائز ہے جس سے شہر سے جانے اور آنے والے ٹریفک کو مثائل درپیش ہیں۔
اس کے علاوہ ٹاور مارکیٹ میں تقریبا 1000 سے زائد داکانداروں نے ناجائزقبضہ کیا ہوا ہے۔جبکہ بات کی جائے کلاتھ مارکیٹ اور فقیر کے پڑِ اور شاہی بزار اور اسی طرح کے کاروبار کرنے والے علاقوں میں بھی ہزاوں کی تعداد مین لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے ۔اور اسی طرح بات کی جائے گھروں کی تو اس پر بھی لوگوں نے کئی کئی فٹ جگہاؤں پر قبضہ کر کے اپنے گھروں کو گلی میں نکال رکھے ہیں۔
اس طرح اگر دوسرے غیر قانونی قبضہ پر بات کی جا ے تواس میں لکڑیوں کی ٹالیں او رغیر قانونی پارکینگ بھی تجاوزات کے ذمرے میں ہی آتی ہیں حیدرآباد میں کل لکڑیوں کی ٹالوں کی تعداد 50 سے زائد ہیں جس میں 15سے زائدلطیف آباد میں واقع ہیں جو کہ ایک بڑے رقپے پرمبنی ہے اسوراسی طرح کی چاندنی موبائل مارکیٹ،کوہنور چوک اور لطیف آبادمیں بھی کئی جگہوں پر غیر قانونی پارکنگ ہیں جو کہ بڑے بڑے نامور شخصیات کے نام سے چل رہی ہیں اور ان زمینوں کی قیمتیں کروڑوں میں ہیں ناجائز تجاوزات کے خلاف حیدرآباد کے( ڈی۔آئی ۔جی )ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی نے تمام 9 ضلع کے ایس۔ایس۔پیز کو ہدایت کی ہے کہ سرکاری زمینوں پر بنے والے ناجائز پارکنگ ،چھوٹے بڑے مختلف ٹھیئے اور روڈ پر لگنے والی غیر قانونی چیزوں کو ہٹایا جائے اور قبضہ خالی کروایا جائے کے اور ان کو 15 دن کی مہلت دی جائے کہ وہ اپنے غیر قانونی تجاوزات کو کہیں جائز مقام پر منتقل کریں۔
ان ناجائز تجاوزات میں بلدیہ کا بھی اہم کردار ہے۔ بلدیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر قانونی اور ناجائز تجاوزات ختم کریں مگر وہ اس کے برعکس کام کر رہے ہیں۔
مگر HDA،CBH اور بلدیہ نے چند روپے کی خاطر یہ زمینیں عوام کے حوالے کر رکھی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان زمینوں کو معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے استعمال کرے تاکہ ہمارا معاشرہ اور بہتری کی طرف گامزن ہوسکے۔اور سڑکوں کو کشادہ کر کے لوگوں کے مثائل کو کم کیا جاسکے۔
Abdul Rafay BS-III Second semester
August 2015
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
----------------------------
سرکاری زمینوں پر قبضہ آرٹیکل
عبدالرافع 2k13/mc/03 شہر کے اندر اولڈ سٹی ایریا میں جو قبضے اور ناجائز تجاوزات ہیں؟
نرسریاں میونسپل لیڈ پر ہیں یا ہائی وے لینڈ پہ یا کینٹونمنٹ کی زمین پہ؟
اس حوالے سے سرکاری سروے وغیرہ کیا ہے؟ اور غیر سرکاری اعداد وشمار کیا ہیں۔
ویسے میونسپل اور کینٹونمنٹ بورڈ کے پاس اینٹی انکروچمنٹ محکمے ہیں۔ اور حکومت سندھ نے بھی اینٹی انکروچمنٹ ڈپارٹمنٹ بنیا ہے۔ ان کی کیا رپورٹس ہیں۔
کم از کم 600 تو ہوں کہ ایڈیٹنگ کے بعد ایک سو الفاظ کم ہوں تو کوئی مسئلہ جو الفاظ اس کلر میں ہیں وہ وجاحت چاہتے ہیں۔
یہ آخری سمیسٹر ہے اس میں کوئی چالو قسم کے تحریریں نہیں چلیں ۔
اور ہاں اس کے اوپر لکھو تو صحیح کیہ آرٹیکل ہے، فیچر یا اور کچھ
سرکاری زمینوں پر قبضہ
Unedited
ہر معاشرے میں اچھائیاں اور برائیاں دونوں موجود ہوتی ہیں مگر کچھ اس طرح کی برائیاں بھی ہوتی ہیں جو کہ اچھے کام کے نام پر ناجائز اور غیر قانونی کام ہوتے ہیں اس حوالے سے اگر حیدرآباد کا رخ کیا جائے تو بہت سے ایسے عمل اور سرگرمیاں ہیں جو کہ با ظاہر ناجائز ہیں اور غیر قانون ہیں لیکن ان کو اچھے کام کی طرح کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد میں بہت سی جگہ جہاں پر اچھے کام کے نام پر غیر قانون کام ہورہے ہیں جس میں سے ایک غیر قانونی کام سرکاری زمینو ں پر قبضہ بھی جس میں حیدرآباد کی نرسریاں بھی شامل ہیں جو کہ مختلف جگہوں پر واقع ہیں جن میں لطیف آباد، قاسم آباد، ڈیپولائے کالونی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ نرسریاں ہمارے معاشرے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ماحول خوشگوار بنانے کاواحد ذریعہ ہیں مگر سرکاری زمینوں پر اچھے کام کے نام پر نرسریاں بنانا ناجائز کام ہے۔
حیدرآباد میں کل نرسریوں کی جس میں سے 5 لطیف آباد ، 3 قاسم آباد اور 2ڈپلائے کالونی اور دیگر جگہوں پر واقع ہیں حیدرآباد میں واحد ایک سرکاری نرسری ہے جوکہ لطیف آباد 2 نمبر میں واقع ہے جو فوریسٹ نرسری کے نام سے مشہور ہے اور باقی تمام غیر سرکاری اور ناجائز ہیں۔
( اور جو قاسم چوک سے
لیکر راجپوتانا تک بنائی ہوئی ہیں وہ کس کھاتے میں جائیں گی؟)
اس طرح اگر دوسرے غیر قانونی قبضہ پر بات کی جا ے تواس میں لکڑیوں کی ٹالیں اور تجاوزات شامل ہیں حیدرآباد میں کل لکڑیوں کی ٹالوں کی تعداد 50 سے زائد ہیں جس میں 15سے زائدلطیف آباد ا ور 25 سے زائدڈپلائے کالونی میں واقع ہیں جو کہ ایک بڑے
رقپے پرمبنی ہے اور ان زمینوں کی قیمتیں کروڑوں میں ہیں مگر HDA اور بلدیہ نے چند روپے کی خاطر یہ زمینیں عوام کے حوالے کر رکھی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان زمینوں کو معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے استعمال کرے تاکہ ہمارا معاشرہ اور بہتری کی طرف گامزن ہوسکے۔
اس طرح اگر دوسرے غیر قانونی قبضہ پر بات کی جا ے تواس میں لکڑیوں کی ٹالیں اور تجاوزات شامل ہیں حیدرآباد میں کل لکڑیوں کی ٹالوں کی تعداد 50 سے زائد ہیں جس میں 15سے زائدلطیف آباد ا ور 25 سے زائدڈپلائے کالونی میں واقع ہیں جو کہ ایک بڑے
رقپے پرمبنی ہے اور ان زمینوں کی قیمتیں کروڑوں میں ہیں مگر HDA اور بلدیہ نے چند روپے کی خاطر یہ زمینیں عوام کے حوالے کر رکھی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان زمینوں کو معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے استعمال کرے تاکہ ہمارا معاشرہ اور بہتری کی طرف گامزن ہوسکے۔
No comments:
Post a Comment