Monday, October 3, 2016

نول رائے اکیڈمی: سادھو نول رائے شوکی رام ایڈوانی



 تبدیلی تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے : نول رائے

دیوان خاندان کے دو ارکان جناب سادھو نول رائے شوکی رام ایڈوانی (۱۸۶۳۔۱۸۹۳) اور سادھو ہرانند شوکی رام ایڈوانی (۱۸۶۳۔۱۸۹۳) نے مل کر ۱۸۹۲ میں نول رائے اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔
آج بھی وہی اسکول بڑے ہیں جو کہ علیحدگی سے پہلے سے تھے۔ اب تعلیمی اداروں کی زمینوں کو بھینسوں کے باڑے اور اوطاق بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ نصف صدی پہلے کی ہی بات ہے کہ لوگ اپنی جائیداد بیچ کر اسکول تعمیر کرواتے تھے۔ آج کے دور میں منتخب اراکین کمیشن لیتے ہیں اسکول کی تعمیر کے لیے جو کہ دس سل میں ہی گر جاتے ہیں جبکہ پرانے دور میں لوگوں نے اپنی حلال کی سے اسکول تعمیر کیے جو ۷۰۔۶۰ سال سے اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ وہ ایک سندھی محقق، لیکھک، صحافی، تعلیمی طور پر  ایکٹو اور سماجی کارکن تھے۔ وہ سادھو ہرانند کے نام ہے اور نول رائے ایڈوانی کے چھوٹے بھائی تھے۔
۱۹۴۸ میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد نول رائے اکیڈمی پاکستانی حتومت کے حوالے ہوگئی۔ یکم اپریل ۱۹۴۸ میں پاکستانی حکومت نے اسکا نام تبدیل کر دیا اور گورنمنٹ ہائی اسکول رکھ دیا۔ ۵۳ سال بعد اسکا نام دوبارہ تبدیل کیا گیا اور ۲۰۰۱ میں گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر ۱ رکھ دیا گیا۔ مگر پچھلی حکومت کے وزیر تعلیم سندھ پیر مظہر الحق جو کہ خود نول رائے اسکول سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں انہوں نے ۲۰۰۹ میں اسکا نام ایک بار پھر تبدیل کر دیا اور اس دفعہ اسے پرانے نام سے ہی تسکیں بخشی جسکی وجہ یہ تھی کہ ماضی میں اسکے بانیوں نے یہ اسکول نول رائے کے نام پر شروع کیا تھا اس کو اسکی پرانی حیثیت سے پہچان ملنی چاہیے اور اسکا نام گورنمنٹ نول رائے ہرانند ہائی اسکول رکھ دیا گیا جو کہ اب تک قائم ہے۔
سندھ کی مشہور و معروف رتعلیمی شخصیات نے اس ادارے کو اپنی خدمات سے نوازا ، یہ ادارہ ۱۹۴۸ میں جناب جی ایم شاوانی کی زیر نگرانی چلتا رہا اور بھی مذید قدآور شخصیات کی خدمات سی سرشاری ملی اور اس وقت نول رائے میں جناب احمد اریسر (۱۰۔۴۔۲۰۱۳) سے بطور پرنسپل اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ اسکول بائیولوجی لیب، کمپیوٹر لیب، ڈراءنگ روم، اوڈیٹوریم اور لاءبرری پر مشتمل ہے۔ یہاں ساءنس گروپ کو بھی پڑھایا جاتا ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ساءنس لیب کو دعوت خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے نمونے کر کے دکھائی جانے والی میز ڈاءنگ ٹیبل کا کردار ادا کر رہی تھی۔ مگر شاید یہ دعوتیں بھی فنڈز کے نہ ملنے کی وجہ سے تھیں۔
اسی اسکول کی بلڈنگ میں ایک بے نام اور بے سہارا گرلز پراءمری اسکول بھی موجود ہے جسکی ظاہری طور پر کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہے نہ ہی اپنا کہلایا جانے والا نام ہے مگر پھر بھی یہ اسکول جاری و ساری ہے اور ابھی فلھال نول رائے کی بلڈنگ میں پناہ گذیر ہے، یہ اسکول ادھار پر چل رہا ہے جب کہ پڑوس میں ہی موجود دو گورنمنٹ گرلز کے ساتھ اسے چلایا نہیں جا سکتا اسکی وجہ وہ اسکول ایریہ کے حساب سے بچیاں لیتے ہیں، نول رائے میں اسکے چلنے کی وجہ یہ انکے ایریہ میں لگتا ہے۔ اس وقت نول رائے کیمپس میں چار اسکولز چل رہے ہیں
۱) پراءمری اسکول گرلز
۲) ہائی اسکول گرلز
۳) ایلیمینٹری اسکول ۴)نول رائے اسکول مین اسکول فور بوائز
جو کہ بہت جلد اپنی اپنی حیثیت کے ساتھ ہونگے پروگرام یہ ہے کہ سب کو ایک ساتھ کر کے ایک ہی بائونڈری وال  میں  کے آئیں گے نرسری تا میٹرک جنکا ایڈمنسٹریٹو نظام نول رائے مین آفس سے ہی ہوگا۔
اس اسکول کے اساتذہ کو کوئی ٹیچرز اوارڈ بھی نہیں ملتا ہے جسکی وجہ پوچھنے پر یہ پتہ چلی کہ یہ نظام فراڈ ہے جنکو ملنا چاہیے انکو نہیں ملتا ہے اپنے چنندہ بندوں کو دے دیا جاتا ہے ہمیں نہیں ملتے ہیں اور نہ ہی طالب علموں کو وظیفے دیے جاتے ہیں اسکی وجہ حد سے ذیادہ بڑھتی ہوئی غربت ہے اب ۹۰فیصد بچے غریب ہیں بلکہ اب تو گورنمنٹ اسکولز کا تصور ہی غریب بچوں کے اسکول سے لیا جاتا ہے کسی کی اگر ذرہ بھی حیثیت ہے تو وہ پرائیوٹ اسکول کو ترجیح دیتا ہے حالانکہ پرائیوٹ اداروں سے ذیادہ گورنمنٹ اداروں کے اساتذہ تعلیم یافتہ اور کوالیفائیڈ ہیں مگر سوچ بدل گئی ہے۔ یہاں کے زیر تعلیم بچوں کی پہننے کو یونیفارم تک خریدنے کی حیثیت نہیں ہے، کسی کے پاس ٹائی نہیں تو کسی کے پاس موزے اور کسی کے پاس جوتے تک میسر نہیں ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اسکول کے با حیثیت لوگ مل کر ۲،۳،۵۰۰۰ روپے جمع کر کے ضروریات کو پورا کرنے کا بندوبست کت دیتے ہیں کیوں کہ گورنمنٹ کی طرف یونیفارم نہیں ملتا بس کتابیں ملتی ہیں اور فیس معاف ہے۔ جب کہ گورنمنٹ کی طرف سے فراہم کیے جانے والے کتابوں میں انگلش میڈیم میں کتابوں کی کمی ہوتی ہے کتابیں آتی تو ہیں مگر ۱۰۰ بچوں میں سے ۲۰ کے لیے۔۔
اس اسکول کے مسائل میں شامل ایک سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسکول کو مختلف پروگرامز اور ریلیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ پولیو، کرپشن، خواندگی، سگریٹ نوشی کے عالمی دنوں کے لیے اسکی وجہ اسکول کا میں جگہ پر ہونا ہے اور پریس کلب سے چند دوری کا فاصلہ ہے۔ تعلیم کو برباد کرنے میں سول سوسائٹی، بیوروکریٹ، سیاسی کلچر کا بہت بڑا ہاتھ ہے اگر تمام پاورز ہیڑ ماسٹرز، ڈائریکٹرز کو دے دیں تو تعلیمی نظام بہتر کیا جا ساکتا ہے۔
ایک لاکھ پچپن ہزار چھ سو اسکوائر میٹر کے عریض رقبے پر پھیلا ہوئے اس اسکول میں کیمیسٹری اور فزکس کی مشترکہ لیب ہے جو کہ سینکڑوں کی تعداد میں موجود سامان سے لیس ہے مگر افسوس یہ ہے کہ یہ سامان استعمال کے قابل نہیں ہے یہ چیزیں ہندو اور انگریزوں کے دور کی ہیں جو کہ آج کے دور میں بے کار ہیں۔ الماریاں سامانوں سے بھری ہوئی ہیں بیکر، فننل، پپٹ وغیرہ سب موجود ہیں مگر کیمیکلز نہیں ہیں بوتلیں ظاہری طور پر بھری ہوئی ہیں مگر کیمیکلز ایکسپائر ہیں۔ تجرباتی اوزار جیسے کہ vernier calliper, screw guage, prism, weightning balance etc. سب موجود ہیں مگر ناکارہ حالت میں ہر آگے پریکٹیکل کام کروانے کاے لیے کوئی سامان میسر نہیں ہے گورنمنٹ سے کئی دفعہ درخواست کے با وجود کوئی شنوائی نہیں ہے بچوں کو expeiment ایک دو اوزاروں سے کروا دیا جاتا ہے یا یوں کہیں کہ صرف دکھا دیا جاتا ہے وہ بھی جوگاڑی طور پر کیوں کہ کیمیکل کو گرم کرنے والے بنسن برنر کو جلانے کے لیے گیس تک میسر نہیں ہے حالانکہ نول رائے میں موجوچ لیبارٹری اب تک کے تمام گورنمنٹ اسکولز کی لیبارٹریز سے بڑی ہے مگرلاپرواہی اور عدم توجگی کا شکار ہے۔ اسکول میں کتب خانہ بھی ہے جو کہ حیدرآباد کا سب سے پرانہ کتب خانہ ہے انگریزوں کے دور سے لے کر اب تک کی تمام کتابیں موجود ہیں مگر لائبرری کے نام سے پکارے جانے والے اس کمرے کی حالت کو دیکھ کر انداذہ ہوا کہ یہ کمرہ اور یہاں رکھی ہوئی کتابیں کافی عرصہ سے استعمال نہیں ہوئی ہیں کیوں کہ گورنمنٹ اسکول میں کتابیں پڑھائے جانے کا کوئی رجحان نہیں پایا جاتا ہے۔
نول رائے اسکول کی بلڈنگ کی حالت بہترین ہے اب تک کنسٹرکشن کی ضرورت نہیں پڑی ہے البتہ ریپیرئنگ کا کام ہوتا بھی رہا ہے اور جاری بھی ہے ۲۰۰۸ سے لے کر اب تک جس میں ماربل، ٹائل ورک، گلاس ورک، پلاسٹر پورے اسکول کی سوائے پرنسپل آفس کے جسے antique اور یادگار رکھنے کے لیے تبدیل نہیں کیا گیا ہے وہ ۱۸۹۲ سے اب تک جوں کا توں ہی ہے۔
نول رائے اسکول کے بچے کھیلوں میں کرکٹ میںن بھی حصہ لیتے ہیں باقی اس سے بڑے کھیلوں میں حصہ لینے کے نہ تو میدان ہیں نہ ہی تربیت دینے کے لیے فنڈز کہ بچوں میں کھیل کو فروغ دیا جائے انہیں تربیت دے کر آگے مقابلاجات کے لیے بھیجا جائے ان ڈور کھیلوں کے لیے بھی ذرائع نہیں ہیں۔
اگر اس بات کو ایک طرف رکھ دیا جائے کی گورنمنت اسکولز کو فنڈز میسر نہیں اور یہی وجہ ہے کہ تباہ ہالی کا شکار ہیں تو غلط ہوگا اسکے علاوہ وہ تفرقہ جو اسٹاف ممبرز کے بیچ دیکھا گیا اور غیرذمہ داری اساتذہ کی بچوں کی تعلیم سے کوئی سنجیدگی نہیں دیکھنے کو ملی بلکہ یہ تک جاننے کا موقع ملا کے یہاں کا ذیادہ تر سٹاف پشتوں سے امراؤں میں سے ہیں جنکے لیے پیسہ انکے گھر کی لونڈی ہے اور معصوم بچوں کے مستقبل سے کھیلنا شوق۔ انکے نزدیک تعلیم سے ذیادہ اہم اپنا گریڈ بڑھانا ہے۔

ٹیکنیکل ونگ
نول رائے اسکول کا ایک بہت اہم حصہ ٹیکنیکل ونگ ہے جہاں پر لاکھوں روپوں کی مالیت کی مشینریز ۱۹۵۰سے موجود ہیں مگر عدم توجگی، فنڈز کی کمی اور عرصہ دراز سے استعمال نا ہونے کی وجہ سے بے کار پڑی ہیں۔ سب  مشینریز اچھی حالت میں موجود ہیں مگر اوور آلینگ کی سخت ضرورت ہے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے کئی کئی گھنٹے یہاں کی ورکشاپس میں بیٹھ کر گزارے ہیں اس سوچ اور خوشی میں کہ ایک وقت تھا جب وہ خود یہاں سیکھا کرتے تھے اور انہیں اس جگہ سے بہت پیار تھا اور اکثر یہاں آیا کرتے تھے لیکن اب یہ مشین بے کار پڑی ہیں کیوں کہ انکی اوور آیلنگ، را مٹیریل کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ۳ فیز بجلی کی انہیں چلانے کے لیے، جہاں بجلی ہی میسر نہ ہو وہاں ۳ فعز بجلی خواب ہی ہے۔۔ ۱۹۵۰سے چلنے والے اس  ٹیکنیکل ونگ کو بند ہوئے ۲ سال ہو چکے ہیں جسکی وجہ بلڈنگ کی بدترین صورتحال ہے جو کہ کسی وقت بھی گر سکتی ہے مگر ۲ سال پہلے تک یھاں باقاعدہ پریکٹیکل کام کروایا جاتا تھا یہ  ٹیکنیکل ونگ حیدرآباد کی سب سے بڑی ٹیکنیکل ونگ تھی اور یہاں اوزار بنانا سکھائے جاتے تھے اور TSC ٹیکنیکل اسکول سرٹیفکٹ بھی دیا جاتا تھا جہ کے میٹرک کے بعد روزگار کے لیے ایک اہم سند تھا۔ اس ٹیکنیکل ونگ میں الیکٹیکل، ووڈ اور میٹل کی ورکشاپس ہیں یہ یوں کہیے کہ تھیں۔۔

This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment