Monday, October 3, 2016

حیدرآباد کے بازاروں کی تاریخ

Investigative Journalism 
اسائمنٹ تحقیقاتی رپورٹنگ
حیدرآباد کے بازاروں کی تاریخ
حرا شیخ
حیدرآباد شہر میاں نور محمد کلہوڑو نے آباد کیا تھا جو کہ سندھ کے حکمران تھے۔ اس کے بعد تالپوروں کا دور حکومت آیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حیدرآباد کے بازار تب سے بننے شروع ہوئے تھے۔ لیکن ان بازاروں کو باقاعدہ شکل انگریز دور میں یعنی 1843 کے بعد ملی جب انگریزوں نے تالپوروں کو شکست دے کر سندھ پر قبضہ کرلیا۔ انگریز بنیادی طور پر تاجر قوم تھے لہٰذا انہوں نے تجارت کو پروان چڑھایا اور اس کو باقاعدہ شکل دی ۔
شاہی بازار
حیدرآباد کے بازار قدیم ہیں۔شاہی بازار جو کہ بہت پرانہ اور قدیم ہے جسے ایشیا کا سب سے بڑا بازار سمجھا جاتا ہے۔ ۱۸۹۰ میں اس بازار کی تعمیر ہوئی اس بازار کو ہندوؤں نے آباد کیا پہلے یہاں بہت کم دکانیں تھیں اس کے بعد مکمل طور پر بازار کی شکل اختیار کرگیا۔شاہی بازار پکے قلعہ سے سرے گھاٹ تک پورا ایک ہی بازار ہے جس کو مختلف قسم کے نام دے دئے گئے اس میں کئی قسم کے اور بازار بھی بنے ہوئے ہیں ۔صرافہ بازار ۔کلاتھ بازار ۔کراکری بازار وغیرہ وغیرہ۔
فقیر جو پڑ
فقیر جوپڑ جو کہ پاکستان بننے سے پہلے بنا اس بازار میں تیل بازار ،مچھلی مارکٹ،اور سبزی بازار ہے اس میں بہت ساری پرچون کی دکانیں بھی آباد ہیں فائربریگیڈیئر کا دفتر بھی اس علاقے میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ گلیوں میں پتاشہ بازار، کھلونوں کا بزار، سونار گلی وغیرہ بھی اب کھل چکے ہیں۔
اناج منڈی
آناج منڈی بھی پاکستان بننے سے پہلے بنی اس منڈی میں چاول،آناج اور دالیں ملتی ہیں یہ ہول سیل منڈی ہے۔ اس میں لاتعداد گھی اور تیل کی دکانیں بھی نبی ہیں اس منڈی میں پہلے ہندو آباد تھے اس کے بعد مسلمان آکر آباد ہوگئے جو کہ میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
میانی روڈ
اسی طرح میانی روڈ بھی پاکستان بننے سے پہلے آباد ہوااس بازار میں لوہاروں کی دکانیں بہت زیادہ تعداد میں ہیں اس بازار میں لوہے کے برتن لوہے کے دروازے بنتے ہیں اور بکتے ہیں۔
کلاتھ مارکٹ
کلاتھ مارکٹ ۱۹۵۰ میں آباد ہوئی اس مارکٹ میں ایک اور مارکٹ ہے جس کو چوڑی بازار کہا جاتا ہے
چوڑی بازار پاکستان کی سب سے بڑی مارکٹ ہے جس میں چوڑیاں بنتی ہیں اس مارکٹ کو صدیقی فیملی نے آباد کیا اس کو زیادہ تر صدیقی چلاتے ہیں۔چوڑی گلی اس کے ساتھ ہی ہے۔
کلاتھ مارکٹ میں ایک بازار اور بھی ہے جس کو لنڈہ بازار کہتے ہیں ۔
جس کو پٹھانوں نے آباد کیا اس بازار میں پرانی چیزوں کی پیوند کاری کر کے اسے نیا بنا کر اپنے نئے داموں کے سات فروخت کرتے ہیں یہ بازار زیادہ تر پٹھان لوگ چلاتے ہیں۔
ٹاور مارکٹ
ٹاور مارکٹ بھی پاکستان بننے سے پہلے ہی آباد ہوئی تھی اس مارکٹ کو تقریبا۱۰۰ سال ہوگئے ہیں اس مارکٹ کو ایک انگریز نے آکر آباد کیا۔ٹاور مارکٹ میں پنسار کی دکانیں ہیں اس بازار میں تھوک کا سامان ملتا ہے جیسے کہ فروٹ، سبزیاں،مرغی اور نسواراس بازار میں یہ سب ملتا ہے اور زیادہ تر لوگ چھوٹی دکانوں والے یہاں سے ہی خریداری کرتے ہیں۔
سرے گھاٹ بازار
سرے گھاٹ بازار جو کہ تقریبا ۶۰ سال ہے اس بازار میں الگ الگ بازار ہیں ۔جوتوں کا بازار ،برتنوں کا بازار،اور ڈینٹس بازار یعنی دانت بنانے والے اس بازار میں موجود ہیں جو کہ دانت بناتے ہیں اس بازار میں دانت بازار بہت مشہور ہے جو کہ پاکستان بننے سے پہلے آباد ہوا اس بازار میں چائنا سے لوگ آکر آباد ہوئے جو ہیاں دنت بنا نے کا کام کرتے ہیں ۔
تلک چاڑھی
تلک چاڑہی کا بازار بھی پاکستان بننے سے پہلے بنا تھا۔یہ پہلے پہاڑ کی شکل میں موجود تھا اس کو کاٹ کر آنے جانے کا راستہ بنا دیا گیا پھر اسے بازار کی شکل میںآبا د کیا گیا ۔اس کو انگریزوں نے آباد کیا۔اس بازار میں چشمے کا بازار اور گھڑی کا بازار ہے زیادہ تر اس کے اندر گھڑیوں اور چشموں کی دکانیں موجود ہیں تلک چاوڑی میں گرجا گھر اور امریکن سینٹر لائبریری ہے ۱۹۶۷ میں امریکن سینٹر آباد ہوا اس میں گرجا گھر بھی ہے ۔قیام پاکستان سے پہلے بنا ۔اسی سال لائف انشورنس کے دفتر بھی آباد ہوئے تلک چاوڑی میں ایک بہت مشہور ھسپتا ل ہے لیڈی گراہم اس میں بہت سارے اسکول بھی بنے ہیں تلک چاوڑی میں ٹی سی ایس پارسل رنے کے دفتر بھی موجود ہیں۔ تلک چاڑہی کا بازار اب زیادہ پھیل چکا ہے۔ ورنہ پہلے یہ بازار صرف پوش خاندانوں کی خریداری کا مرکز تھا۔
چھوٹکی گھٹی
چھوٹکی گٹی تقریبا قیام پاکستان سے پہلے بنی اس میں برتنوں کی دکانیں کتابوں کی دکانیں میک اپ کی دکانیں موجود ہیں اس بازار میں ہر چیز ہول سیل میں ملتی ہے لوگ اس بازار سے خرید کر اپنی اپنی دکانوں میں بیچتے ہیں اس بازار کا مال حیدآباد کے سب بازاروں سپلائی ہوتا ہے۔
چاندنی بازار
چاندنی بازار جو کہ ۲ ۱۹۹ میں بنایا گیا اس کو بازار میں بعد میں بنایا گیا پہلے اس کی جگہ چاندنی سینما تھا ۔ اس بازار میں موبائل مارکٹ بھی ہے ۔ یہاں کنٹومنٹ کا مارکٹ بھی موجود ہے ۔کنٹومنٹ میں کپڑوں اور جوتوں کی دکانیں اور بہت سی لوگوں کی ضرورت کی چیزیں بھی ملتی ہیں۔ یہ بازار 80 کے عشرے میں شہر میں لسانی فسادات کے بعد قائم ہوئے۔ یہ بازار بھی پوش خاندانوں کی خریداری کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
گل سینٹر
گل سینٹر بھی ۱۹۸۲ میں آباد ہوا اس میں بجلی کی دکانیں کپڑوں کی دکانیں جولری کی دکانیں بنی ہیں۔۔۔۔
حیدرآباد میں مارکٹ تو بہت ہیں جسے جسے آبادی میں اضافہ ہوا سات ہی مزید ترقی بھی ہوئی آبادی کے لحاظ سے مارکٹوں کو عوام کی سہولت کے لئے بڑھادیا گیا تنگ گلیاں اور چھوٹے روڈ کی وجہ سے بازاروں میں دن رات رش رہنے لگا خاص طور پر عید بقر عید یا شادی کی تقریب میں ان مارکٹوں میں ایک محفل کا سما ہوتا ہے جو رات دیر تک رہتا ہے مارکٹ کے سات سات حیدرآباد میں بہت سے شاپنگ مال بننے لگے جس میں ہر وہ چیز دستیاب ہے جسے عوام کی ضرورت ہوتی ہے ان ما ل میں بہت سی ایسی چیزیں بھی موجود ہیں جو عام کارکٹ میں بہت زیادہ قیمتوں میں ملتی ہیں مال اور بچت بازاروں میں وہی چیزیں بہت کم قیمت میں ملتی ہیں ۔
یوٹیلیٹی اسٹورز
حیدرآباد میں بہت سے سرکاری شعبے میں یوٹیلیٹی اسٹور ہیں جس میں عوام کے لئے سارا گھریلو سامان گھر کا راشن دستیاب ہے جو کہ انتیہائی کم قیمت میں ملتا ہے۔
شاپنگ مال
حیدرآباد میں ایسے بہت سارے مال ہیں جو کہ حیدرآباد کے لوگوں کے لئے بنائے گئے ہیں جسے وہ باآسانی خریداری کرسکتا ہے۔
طیب کامپلیکس کینٹونمنٹ ایریا، ایس آرٹی کمپلیکس، نسیم شاپنگ مال، شاھین آرکیڈ، بسم اللہ مارکٹ ، الرحیم سینٹر نزد پولیس لائن، عائشہ مارکٹ، ڈیلٹن سپر مارکٹ، مکس بچت سپر مارکٹ ۔،حسین مارکٹ، ڈکلٹن سپر مارکٹ، بیگ مارٹ، داؤد مارکٹ وغیرہ۔
شاپنگ مال
بولیورڈ مال، شیلٹر مال وغیرہ۔ جبکہ کچھ مال ابھی زیر تعمیر ہیں۔
نوٹ: اسٹیشن روڈ، ریشم گلی، فوجداری روڈ، رسالہ روڈ، پنجرہ پور وغیرہ کے علاقے رہ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ لطیف آباد نمبر اٹھ،آٹو بھان روڈ، قاسم آباد کے بازار کا بھی ذکر ہونا چاہئے ۔ تاہم ابتدائی طور پرایک اچھی کوشش ہے۔
دسمبر 2014


This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment