Monday, October 3, 2016

حیدرآباد پریس کلب کی تاریخ Hyderabad Press Club



نام : فرقان الحق ڈار


ولدیت : اعجاز الحق


جماعت : بی ایس-سال سوئم


شعبہ : ذرائع ابلاغِ عامہ


رول نمبر : 2k12 / MC / 33


عنوانِ تفویض : حیدرآباد پریس کلب کی تاریخ


تاریخ : 19 / 05 / 2014


استادِ محترم : سہیل سانگی

تحریر و تحقیق: فرقان الحق ڈار
تاریخِ پریس کلب، حیدرآباد

پریس کلب صحافت اور میڈیا سے وابستہ افراد کی ایسی تنظیم ہوتی ہے جہاں صحافی حضرات ادارتی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اچھے روابط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پریس کلب صحافیوں پر ریاستی ظلم و جبر، ان کے حقوق کی پامالی اور پرتشدد واقعات کیخلاف آواز اٹھانے کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ نہ صرف صحافیوں بلکہ بجلی، پانی، گیس اور بھوک سے پریشان حال عوام، کسی مقتول کے لواحقین، تنخواہوں سے محروم مزدور طبقہ اور سیاسی مظاہرین سب ہی اپنی فریاد لیے پریس کلب کا رخ کرتے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سندھ کے دارالخلافہ حیدرآبادمیں صحافت کے گِنے چُنے نام تھے جن میں اختر علی شاہ کا نام سرِفہرست آتا ہے۔ اختر علی شاہ اور ان کے ساتھیوں کی کاوشوں سے 1954ء میں ’’اکھاڑۂ پہلوانی‘‘ کی جگہ حیدرآباد پریس کلب قائم ہوا۔ 1965ء میں شیخ محمد مبین پریس کلب کے صدر بنے اور بلدیہ حیدرآباد سے کلب کی آراضی میں اضافہ کرایا۔ 1976ء میں حاصل شدہ اراضی پر اُس وقت کے صدر نثار چنہ، سیکریٹری ظہیر احمداور خازن علی حسن نے عمارت کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا اور اقبال حامد کو تعمیراتی کمیٹی کا چےئرمین مقرر کیا گیا جو کہ 1961ء میں حیدرآباد پریس کلب کے صدر رہ چکے تھے۔ ضیا الحق کے مارشل لاء کے زمانے میں پورے ملک میں صحافیوں کو سختیوں اور زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی تشدد کے واقعات بھی منظرِ عام پر آئے جبکہ کئی صحافیوں کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ اس اثناء میں حیدرآباد کے صحافی بھی اس کٹھن مرحلے کا شکار رہے جس کے باعث پریس کلب کا تعمیراتی کام جُوں کا تُوں رہا۔ 87ء میں وزیرِ اعلیٰ غوث علی شاہ نے حیدرآباد پریس کلب کی سنگِ بنیاد رکھی جس کے بعد 88ء میں صدرِ پریس کلب سہیل سانگی صاحب نے نقشہ مکمل کرانے کے بعد عمارت کی تعمیر کا اجازت نامہ حاصل کرلیا۔ سینئر صحافی سہیل سانگی صاحب کے دورِ صدارت میں ہی ایک پالیسی وضع کی گئی جس کے تحت خفیہ اداروں اور ایجنسیوں کے ستائے ہوئے افراد کو بلا معاوضہ پریس کانفرنس کی اجازت دی گئی، یہ واقعہ پریس کلب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ جانا جاتا ہے۔ حیدرآباد پریس کلب کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 29 جولائی 1991ء کو ہوا جو دسمبر 1992ء میں مکمل ہوئی۔
پریس کلب کی تزئین و آرائش نہایت خوبصورت انداز سے کی گئی۔ اس کے اندر ایک خوبصورت باغیچہ بنا ہوا ہے جہاں صحافی سردی کے موسم میں سورج کی گرمی کے ساتھ چائے نوش فرماتے نظر آتے ہیں۔ گراؤنڈ فلور پر واقع ہال نمائشِ کتب کیلئے کرایہ پر دیا ہوا ہے جس سے کلب کے اخراجات پورے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ پہلی منزل پر ایک ہال پریس کانفرنس کیلئے مختص کر رکھا ہے جبکہ اسی منزل پر کینٹین بھی ہے جہاں صحافیوں کیلئے بارعایت کھانا دستیاب ہے جبکہ پورے شہر میں اس سے سستی اور معیاری چائے ملنا نامناسب ہے۔
دوسری منزل پر واقع کانفرنس ہال میں سیمینار، لیکچرز اور بعض اوقات شادی بیاہ کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔ اسی منزل پر بہت سے کمرے صحافیوں کی تفریح کیلئے قائم ہیں جن میں ایک کمرہ تاش کھیلنے کیلئے، ایک کمرہ جمنازیم کیلئے، ایک کمرہ کمپیوٹر روم اور ایک کمرہ بطور لائبریری صحافیوں کو سہولیات مہیا کر رہا ہے۔
پریس کلب کی تاریخ میں کئی انوکھے اور دردناک واقعات بھی دیکھنے میں آئے، کبھی کئی گھنٹے طویل بھوک ہڑتال کی صورت میں اور کبھی ظلم کے شکار لوگوں کی خود سوزی کی شکل میں۔ منو بھیل نامی شخص نے کئی مہینے پریس کلب پر بھوک ہڑتال کا مظاہرہ کیا۔ ایک دفعہ سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ملازم بھورو چھلگری نے یہاں خودسوزی کی کوشش کی۔
حیدرآباد پریس کلب میں سالانہ انتخابات کے ذریعے عہدیدار منتخب کیے جاتے ہیں۔ سال 2013-14 کے انتخابات میں آج ٹی وی کے بیورو چیف حمیدالرحمٰن صدر، روزنامہ عبرت کے صحافی جے پرکاش جنرل سیکریٹری، اسحاق منگریو نائب صدر، منصور مری جوائنٹ سیکریٹری جبکہ یوسف ناگوری مالیاتی سیکریٹری منتخب ہوئے۔ جلد ہی موجودہ مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ الیکشن کا دور چلے گا پھر نئے منتظمین اور عہدیدار منتخب ہو کر آئیں گے مگر سب کا مقصد یہی ہوگا کہ اپنے صحافی بھائیوں کے حقوق اور انہیں درپیش مسائل کیلئے آواز بلند کی جائے۔


This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi

حیدرآبادی مٹھائیاں - تحقیق و تحریر: انیقہ فاروق


حیدرآبادی مٹھائیاں
تحقیق و تحریر: انیقہ فاروق
لب مہران کے مختلف شہروں کی اپنی روایات ہیں۔یہاں کی تہذیب و ثقافت اور سوغاتیں بھی ملک وبیرون ممالک بڑی شہرت کی حامل ہیں جس طرح ہالا کاشی کے کام اور نہایت ہی اعلیٰ قسم کی دستکاری کی وجہ سے مشہور ہے تو بالکل اسی طرح خوشگوار اور دلفریب شاموں سے معروف شہر حیدرآباد اپنی خوش ذائقہ،لذیز اور منفرد مٹھائیوں اورحلوہ جات کی وجہ سے پورے علاقے میں ایک خاص اہمیت کاحامل ہے ۔
حافظ سوئیٹس:اسی شہر کی حافظ سوئیٹس اپنی کوش ذائقہ ربڑی،گلاب جامن اور ماوے کی وجہ سے سندھ بھر میں مشہور ہے۔یہاں کی ربڑی بڑی خوش ذائقہ اور لذیذ ہوتی ہے اور حیدرآباد کے رہائشی اپنے مہمانوں و دوست احباب کو بطور تحفہ بھیجتے رہتے ہیں اور اکثر بے تکلف دوست و احباب تو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے باقاعدہ فرمائش کرکے ربڑی منگواتے ہیں اور یہ فرمائشیں نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک سے بھی آتی رہتی ہیں۔
حافظ سوئیٹس کو ربڑی بنات ہوئے تقریباً چالیس سال ہوگئے ہیں اور دکان کے مالک محمد عارف نے بتایا کہ یہ کام ان کے دادا جان نے شروع کیا تھا اور ربری اور دیگر مٹھائیوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا بالکل آسان ہے کہ یہ دکان انشاء اللہ آئندہ کئی صدیاں اسی طرح عوام الناس کو قدرت کی ان بے مثال نعمتوں کو جوہری کی طرح قدیم اور جدید امتزاج کے ساتھ نت نیت ذائقوں میں پیش کرتے رہیں گے۔
حافظ سوئیٹس کے ربڑی،گلاب جامن کے علاوہ بھی بڑے مشہور زعفرانی آئٹم ہیں جن میں کاجو،برفی،زعفرانی کٹلس،اور انڈین مٹھائیں بھی اپنے ذائقے اور لذت کی وجہ سے خاص مقام رکھتی ہیں۔یہ مٹھائیاں دیسی گھی سے تیار کی جاتی ہیں۔اپنی ربڑی اور خاص مٹھائیوں کی وجہ سے حیدرآباد اور ملک بھر سے دلچسپی اور مانگ کی وجہ سے حیدرآباد صدر،پنڈی اور اسلام آباد میں بھی ایک ایک برانچ کھول دی ہے جس کی وجہ سے عوام باآسانی اپنے علاقوں میں اپنے من پسند ذائقے حاصل کرسکتے ہیں۔حافظ سوئیٹس نے اپنے کرم فرماؤں کو مٹھاس کے ساتھ اپنے لذیذ سموسوں اور صبح کے ناشتے سے بھی نمکین ذائقہ فراہم کیا ہے۔
سوغات شیریں: اس کے علاوہ اگر ہم حیدرآباد میں مٹھائی کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو یہ بڑی ناانصافی ہوگی کہ اگر ہم سوغات شیریں سوئیٹ شاپ کا ذکر نہ کریں کیونکہ یہ دکان اپنے نام کے مطابق مختلف حلوہ جات کی سوغات تیار کرنے میں اپنی مثال آپ ہے ان کا ذائقہ دل موہ لینے والا ہے۔سوغات شیریں اس کے علاوہ مختلف انواع و اقسام کی لذیذ وخوش ذائقہ مٹھائیاں بنا کر عوام الناس کولذیذ اور صحت بخش ماحول فراہم کررہے ہیں۔
موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سوغات شیریں کی مشہور سوغاتیں لوکی کا حلوہ،پستہ حلوہ،گاجر کا حلوہ اور زعفرانی حلوے کی مانگ میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ خشک میوہ جات ور دیسی گھی میں تیار کردہ یہ حلوہ جات موسم سرما میں کھانے سے جسم کو حرارت اور تونائی فراہم کرتے ہیں اور عوام بڑے ذوق وشوق سے یہ حلوہ جات اپنے اہل خانہ،رشتہ داروں اور دوست و احباب کو کھلاتے ہیں۔سوغات شیریں کے حلوہ جات اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے ہر طبقہ فکر میں بہت پسند کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ عوام الناس اپنی پسند کی کوئی خاص مٹھائی بھی آرڈر دیکر کثیر تعداد میں بنوا سکتے ہیں۔
اپنی سوغات کی بے پناہ مقبولیت کے باعث انتظامیہ سوغات شیریں نے عوام الناس کی آسانی کے لئے راولپنڈی میں بھی ایک برانچ قائم کردی ہے۔
پاک سوئیٹس: حیدرآباد کی مٹھائیوں کی ایک اورپہچان پاک سوئٹ ہاؤس بھی ہے جو کہ مختلف قسم کے تیس آئٹم تیار کرتا ہے جو کہ منفرد اور لذیذ ذائقوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔یہ سوئٹ شاپ تقریباً45سال سے عوام الناس کو منفرد ذائقے دار مٹھائیاں پیش کررہا ہے۔
پاک سوئیٹس کی پنجیری،گوندے کے لڈو اور گاجر کا حلوہ بہت ہی عمدہ اور لذیذ ہوتا ہے لوگ شوق سے کھاتے ہیں اور دوست واحباب کو تھٖے کے طور پر دیتے ہیں۔

( بی ایس ماس کام پارٹ تھری سیکنڈ سیمسٹر 2014)


This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi

حیدرآباد کے بازاروں کی تاریخ

Investigative Journalism 
اسائمنٹ تحقیقاتی رپورٹنگ
حیدرآباد کے بازاروں کی تاریخ
حرا شیخ
حیدرآباد شہر میاں نور محمد کلہوڑو نے آباد کیا تھا جو کہ سندھ کے حکمران تھے۔ اس کے بعد تالپوروں کا دور حکومت آیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حیدرآباد کے بازار تب سے بننے شروع ہوئے تھے۔ لیکن ان بازاروں کو باقاعدہ شکل انگریز دور میں یعنی 1843 کے بعد ملی جب انگریزوں نے تالپوروں کو شکست دے کر سندھ پر قبضہ کرلیا۔ انگریز بنیادی طور پر تاجر قوم تھے لہٰذا انہوں نے تجارت کو پروان چڑھایا اور اس کو باقاعدہ شکل دی ۔
شاہی بازار
حیدرآباد کے بازار قدیم ہیں۔شاہی بازار جو کہ بہت پرانہ اور قدیم ہے جسے ایشیا کا سب سے بڑا بازار سمجھا جاتا ہے۔ ۱۸۹۰ میں اس بازار کی تعمیر ہوئی اس بازار کو ہندوؤں نے آباد کیا پہلے یہاں بہت کم دکانیں تھیں اس کے بعد مکمل طور پر بازار کی شکل اختیار کرگیا۔شاہی بازار پکے قلعہ سے سرے گھاٹ تک پورا ایک ہی بازار ہے جس کو مختلف قسم کے نام دے دئے گئے اس میں کئی قسم کے اور بازار بھی بنے ہوئے ہیں ۔صرافہ بازار ۔کلاتھ بازار ۔کراکری بازار وغیرہ وغیرہ۔
فقیر جو پڑ
فقیر جوپڑ جو کہ پاکستان بننے سے پہلے بنا اس بازار میں تیل بازار ،مچھلی مارکٹ،اور سبزی بازار ہے اس میں بہت ساری پرچون کی دکانیں بھی آباد ہیں فائربریگیڈیئر کا دفتر بھی اس علاقے میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ گلیوں میں پتاشہ بازار، کھلونوں کا بزار، سونار گلی وغیرہ بھی اب کھل چکے ہیں۔
اناج منڈی
آناج منڈی بھی پاکستان بننے سے پہلے بنی اس منڈی میں چاول،آناج اور دالیں ملتی ہیں یہ ہول سیل منڈی ہے۔ اس میں لاتعداد گھی اور تیل کی دکانیں بھی نبی ہیں اس منڈی میں پہلے ہندو آباد تھے اس کے بعد مسلمان آکر آباد ہوگئے جو کہ میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
میانی روڈ
اسی طرح میانی روڈ بھی پاکستان بننے سے پہلے آباد ہوااس بازار میں لوہاروں کی دکانیں بہت زیادہ تعداد میں ہیں اس بازار میں لوہے کے برتن لوہے کے دروازے بنتے ہیں اور بکتے ہیں۔
کلاتھ مارکٹ
کلاتھ مارکٹ ۱۹۵۰ میں آباد ہوئی اس مارکٹ میں ایک اور مارکٹ ہے جس کو چوڑی بازار کہا جاتا ہے
چوڑی بازار پاکستان کی سب سے بڑی مارکٹ ہے جس میں چوڑیاں بنتی ہیں اس مارکٹ کو صدیقی فیملی نے آباد کیا اس کو زیادہ تر صدیقی چلاتے ہیں۔چوڑی گلی اس کے ساتھ ہی ہے۔
کلاتھ مارکٹ میں ایک بازار اور بھی ہے جس کو لنڈہ بازار کہتے ہیں ۔
جس کو پٹھانوں نے آباد کیا اس بازار میں پرانی چیزوں کی پیوند کاری کر کے اسے نیا بنا کر اپنے نئے داموں کے سات فروخت کرتے ہیں یہ بازار زیادہ تر پٹھان لوگ چلاتے ہیں۔
ٹاور مارکٹ
ٹاور مارکٹ بھی پاکستان بننے سے پہلے ہی آباد ہوئی تھی اس مارکٹ کو تقریبا۱۰۰ سال ہوگئے ہیں اس مارکٹ کو ایک انگریز نے آکر آباد کیا۔ٹاور مارکٹ میں پنسار کی دکانیں ہیں اس بازار میں تھوک کا سامان ملتا ہے جیسے کہ فروٹ، سبزیاں،مرغی اور نسواراس بازار میں یہ سب ملتا ہے اور زیادہ تر لوگ چھوٹی دکانوں والے یہاں سے ہی خریداری کرتے ہیں۔
سرے گھاٹ بازار
سرے گھاٹ بازار جو کہ تقریبا ۶۰ سال ہے اس بازار میں الگ الگ بازار ہیں ۔جوتوں کا بازار ،برتنوں کا بازار،اور ڈینٹس بازار یعنی دانت بنانے والے اس بازار میں موجود ہیں جو کہ دانت بناتے ہیں اس بازار میں دانت بازار بہت مشہور ہے جو کہ پاکستان بننے سے پہلے آباد ہوا اس بازار میں چائنا سے لوگ آکر آباد ہوئے جو ہیاں دنت بنا نے کا کام کرتے ہیں ۔
تلک چاڑھی
تلک چاڑہی کا بازار بھی پاکستان بننے سے پہلے بنا تھا۔یہ پہلے پہاڑ کی شکل میں موجود تھا اس کو کاٹ کر آنے جانے کا راستہ بنا دیا گیا پھر اسے بازار کی شکل میںآبا د کیا گیا ۔اس کو انگریزوں نے آباد کیا۔اس بازار میں چشمے کا بازار اور گھڑی کا بازار ہے زیادہ تر اس کے اندر گھڑیوں اور چشموں کی دکانیں موجود ہیں تلک چاوڑی میں گرجا گھر اور امریکن سینٹر لائبریری ہے ۱۹۶۷ میں امریکن سینٹر آباد ہوا اس میں گرجا گھر بھی ہے ۔قیام پاکستان سے پہلے بنا ۔اسی سال لائف انشورنس کے دفتر بھی آباد ہوئے تلک چاوڑی میں ایک بہت مشہور ھسپتا ل ہے لیڈی گراہم اس میں بہت سارے اسکول بھی بنے ہیں تلک چاوڑی میں ٹی سی ایس پارسل رنے کے دفتر بھی موجود ہیں۔ تلک چاڑہی کا بازار اب زیادہ پھیل چکا ہے۔ ورنہ پہلے یہ بازار صرف پوش خاندانوں کی خریداری کا مرکز تھا۔
چھوٹکی گھٹی
چھوٹکی گٹی تقریبا قیام پاکستان سے پہلے بنی اس میں برتنوں کی دکانیں کتابوں کی دکانیں میک اپ کی دکانیں موجود ہیں اس بازار میں ہر چیز ہول سیل میں ملتی ہے لوگ اس بازار سے خرید کر اپنی اپنی دکانوں میں بیچتے ہیں اس بازار کا مال حیدآباد کے سب بازاروں سپلائی ہوتا ہے۔
چاندنی بازار
چاندنی بازار جو کہ ۲ ۱۹۹ میں بنایا گیا اس کو بازار میں بعد میں بنایا گیا پہلے اس کی جگہ چاندنی سینما تھا ۔ اس بازار میں موبائل مارکٹ بھی ہے ۔ یہاں کنٹومنٹ کا مارکٹ بھی موجود ہے ۔کنٹومنٹ میں کپڑوں اور جوتوں کی دکانیں اور بہت سی لوگوں کی ضرورت کی چیزیں بھی ملتی ہیں۔ یہ بازار 80 کے عشرے میں شہر میں لسانی فسادات کے بعد قائم ہوئے۔ یہ بازار بھی پوش خاندانوں کی خریداری کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
گل سینٹر
گل سینٹر بھی ۱۹۸۲ میں آباد ہوا اس میں بجلی کی دکانیں کپڑوں کی دکانیں جولری کی دکانیں بنی ہیں۔۔۔۔
حیدرآباد میں مارکٹ تو بہت ہیں جسے جسے آبادی میں اضافہ ہوا سات ہی مزید ترقی بھی ہوئی آبادی کے لحاظ سے مارکٹوں کو عوام کی سہولت کے لئے بڑھادیا گیا تنگ گلیاں اور چھوٹے روڈ کی وجہ سے بازاروں میں دن رات رش رہنے لگا خاص طور پر عید بقر عید یا شادی کی تقریب میں ان مارکٹوں میں ایک محفل کا سما ہوتا ہے جو رات دیر تک رہتا ہے مارکٹ کے سات سات حیدرآباد میں بہت سے شاپنگ مال بننے لگے جس میں ہر وہ چیز دستیاب ہے جسے عوام کی ضرورت ہوتی ہے ان ما ل میں بہت سی ایسی چیزیں بھی موجود ہیں جو عام کارکٹ میں بہت زیادہ قیمتوں میں ملتی ہیں مال اور بچت بازاروں میں وہی چیزیں بہت کم قیمت میں ملتی ہیں ۔
یوٹیلیٹی اسٹورز
حیدرآباد میں بہت سے سرکاری شعبے میں یوٹیلیٹی اسٹور ہیں جس میں عوام کے لئے سارا گھریلو سامان گھر کا راشن دستیاب ہے جو کہ انتیہائی کم قیمت میں ملتا ہے۔
شاپنگ مال
حیدرآباد میں ایسے بہت سارے مال ہیں جو کہ حیدرآباد کے لوگوں کے لئے بنائے گئے ہیں جسے وہ باآسانی خریداری کرسکتا ہے۔
طیب کامپلیکس کینٹونمنٹ ایریا، ایس آرٹی کمپلیکس، نسیم شاپنگ مال، شاھین آرکیڈ، بسم اللہ مارکٹ ، الرحیم سینٹر نزد پولیس لائن، عائشہ مارکٹ، ڈیلٹن سپر مارکٹ، مکس بچت سپر مارکٹ ۔،حسین مارکٹ، ڈکلٹن سپر مارکٹ، بیگ مارٹ، داؤد مارکٹ وغیرہ۔
شاپنگ مال
بولیورڈ مال، شیلٹر مال وغیرہ۔ جبکہ کچھ مال ابھی زیر تعمیر ہیں۔
نوٹ: اسٹیشن روڈ، ریشم گلی، فوجداری روڈ، رسالہ روڈ، پنجرہ پور وغیرہ کے علاقے رہ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ لطیف آباد نمبر اٹھ،آٹو بھان روڈ، قاسم آباد کے بازار کا بھی ذکر ہونا چاہئے ۔ تاہم ابتدائی طور پرایک اچھی کوشش ہے۔
دسمبر 2014


This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi

حیدرآباد کے کوچنگ سینٹرز Shaharyar Shaikh

Investigative Report

Shaharyar Shaikh
2K12 / MC / 99
حیدرآباد کے کوچنگ سینٹرز کی موجودہ اور گزشتہ صورتحال

بے شک ہر دور میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کئی شخصیات نے حیدرآباد سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ملکی سطح پر خو د کو ثابت کر دکھایاجبکہ وہ سہولیات اور آسائشات کا نام ونشان وجود میں نہ تھا جو آج ہر عام فہم طالبعلم کی زندگی میں موجودہے۔ایک طرف تعلیمی نظام کو بہتر سے بہترین بنانے کی غرض سے ہر دور میں مثبت اور ممکن کوشش کی گئی تو دوسری جانب اپنے کاروبار کو پروان چڑھانے کیلئے کوچنگ سینٹرز کو بھی فروغ دیا گیا ۔آج کے کسی بھی ایک کوچنگ سینٹر کا ماضی کے تمام سینٹرز سے موازنہ کرلیا جائے تو خاصا فرق دکھائی دے گا۔ اکیسوی صدی کے آغاز میں حیدرآباد شہر میں چند سینٹرز موجود تھے لیکن ۲۰۰۹ء میں جس برق رفتار سے یہ شہر عالیشان کوچنگ سینٹرز کی زینت بنا ہے وہ تبدیلی ہماری سوچ سے بالا تر ہے۔

حیدرآباد میں کچھ سال قبل تک سینٹرز کا قیام مختصر اور اراضی پر ممکن ہوتا تھا چونکہ انگلش ،کمپیوٹرکورسز اوردیگر ہنر کی فراہمی ہی اس کا ہدف تھی اور نہ ہی LUMHS جیسی کئی یونیورسٹیز کاانٹری ٹیسٹ لیا جاتاتھااس کے علاوہ اسکولز اور کالجز میں تعلیمی معیار ازحد بہتر تھا جس کے پیشِ نظر نہ ہی کسی طالبعلم کو ضرورت پیش آئی کہ وہ اپنے نصاب کو بہتر سمجھنے اور پڑھنے کیلئے سینٹرز کے دھکے کھاتا رہے۔ علاوہ ازیں تعلیم کے فروغ کاروبار کے بجائے عبادت سمجھا جاتا تھا ۔لیکن جس وقت میں ہمارے سرکاری اسکولز اور کالجز میں تعلیم کا نظام پستی کی جانب گامزن ہو ا اُسی لمحے سے ان سینٹرز نے اپنی کمر کسنی شروع کی چونکہ ان تمام سینٹرز کا قیام سرکاری اساتذہ کے قیام سے ہی وجود میں ہے۔۲۰۰۹ء تک حیدرآباد میں چند سینٹرزموجود تھے لیکن ۲۰۱۱ء میں کئی نامور سینٹرز وجود میںآئے جن میں AneesHasan, PremierAcademy, LEEDS, Student's Innاورs Kin سرِفہرست ہیں جہاں شروع میں طالبعلم کو متوجہ کرنے کیلئے کئی ایڈورٹاسمنٹ کی گئی اور زیادہ سے زیادہ ایڈمیشن کا حصول ممکن بنایا گیا لیکن موجودہ صورتحال کے مطابق اب ان سینٹرز میں تعلیم حاصل کرنا پہلے آیئے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر ممکن ہے۔Premierاور Leeds Academy جو کہ پہلے لینگویچ اور شورٹ کورسز کرواتے تھے لیکن ۲۰۱۱ء سے دونوں اعلیٰ ثانوی کی تعلیم بھی مہیا کر رہے ہیں اس کے برعکس ANEES HASSANاور دوسرے بڑے سینٹرز میں BBAاور MBAکی تعلیم بھی دی جارہی ہے۔

اگر غورو فکر کیا جائے تو پچھلے کچھ سالوں تک استقبالیہ مرد اورخواتین دونوں کا انتخاب کیا جاتا تھالیکن حیدرآباد کے تمام موجودہ سینٹرز میں استقبالیہ صرف او رصرف خواتین کو رکھا جاتا تھا ۔علاوہ ازیں دن بہ دن سینٹرز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ہر چھوٹے بڑے سینٹر کے لئے مشکلات کھڑی کردی ہیں جس کی بنا پر حیدرآباد کے تمام سینٹرز میں مینجمنٹ،مارکیٹینگ اور ٹیچنگ فیکلٹی کا انتخاب بے حد اطمینان بخش اور مثبت قدم ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوچنگ سینٹر ز موجودہ دور کی ضرورت بھی ہے اور کامیابی کا سبب بھی ۔یہی وجہ کہ حیدرآباد کے ہر چھوٹے بڑے ،مڈل کلاس ،اپر کلاس تمام علاقوں میں موجود کوچنگ سینٹرز میں طالبعلم کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے سبب اندرون سندھ سے آنے والے طلبہ و طالبات کو کوچنگ کلاسز اور دیگر شورٹ کورسز کرنے میں بے حد آسانی ہوئی ہے۔اس علاوہ کوچنگ سینٹرز کی طرف طالبعلم کا بڑھتا ہوا رجحان حیران کُن ہے بلکہ صورتحال ایسی ہے کہ کالج کی طرف رکُھ نہ کرنے والے اسٹوڈنٹس بھی سینٹرز کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے ANEES HASSAN کے ایڈمین منظور جمال کا کہنا تھا کہ اسٹوڈنٹس کا سینٹرز کو زیادہ ترجیح دینا اوتمام سینٹر ز کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کے باوجود ہر سینٹر میں ایڈمیشن کا فقدان نہیں جس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ تعلیم کہ ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات نے سینٹرز کو فیشن پوائنٹ بھی تصور کر لیا ہے جس کی بنا پر ہماری سوسائیٹیز میں کافی شعور آتا جارہا ہے۔علاوہ ازیں آجکل ہر کوچنگ سینٹر میں اسٹودنٹس کو اچھے سے اچھا ماحول دیاجارہا ہے۔

کوچنگ سینٹرز کی کارکردگی میں نمایاں تبدیلی ہر عام وفہم کے لئے کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی لوگ ان سے اختلاف کرتے ہیں چونکہ ہر سینٹر خو د کو منوانے کیلئے طالبعلم کے مستقبل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے رہا ہے جس کے سبب ہر سال اسٹوڈنٹس مختلف یونیورسٹیز میں میرٹ پر کامیاب ہوئے ہیں اس کے علاوہ پہلے کسی بھی سینٹر میں کیریئر کونسلنگ کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اب حیدرآباد کے کئی سینٹرز میں کیریئر کونسلنگ کی جاتی ہے جو کہ نوجوانوں کے مستقبل کیلئے مثبت پہلو ہے۔










P.T.O
Waqas Arain
2K12 / MC / 120
کوچنگ سینٹرز کھولنے سے پہلے اور بعد کے مسائل:۔



حیدآباد میں اس وقت بے شمار کوچنگ سینٹرز موجود ہیں ۔جن میں زیادہ تر لطیف آباد، ہیرآباد،آٹوبھان روڈ،صدر کے علاقوں میں ہیں۔ مجموئی طور پر اس وقت شہر میں ۸۰ کے قریب نامور کوچنگ سینٹرز موجود ہیں۔
کوچنگ سینٹرز کھولنے کے لیے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پرتا ہے۔جن میں صف اول
۱۔مقصد(Motives)
۲۔اسٹریکچر
۳۔فنانس
۴۔پبلسٹی(مشہوری)
۴۔ فیکلٹی اسٹاف
۵۔تجربہ کار صلاحیت

۱۔مقصد(Motives)
ابتداء میں کسی بھی کوچنگ سینٹرکو کھولنے کے لیے اس بات کا تعین کتنا لازم ہے کہ آپ کس طرز کا سینٹر کھولنا چارہے ہیں ۔ جس کے لیے Target of students ،فیکلٹی پہلا مقصد رکھا جاتا ہے۔اس حساب سے پھر ایک مائنڈ سیٹ بنایا جاتا ہے۔جسکے بعد جگہ کا تعین اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے۔

۲۔اسٹریکچر:۔
motives کے بعد اسٹریکچر دوسرا اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے۔جس میں جگہ کا تعین اور اس کی بناوت اہم ہوتی ہے۔اگر ایک معیاری قسم کا سینٹر کھولنا چا رہے ہیں اس کے لیے ایک اچھی جگہ کا تعین لازمی درکار ہوتا ہے،جیسے کہ حیدرآباد کا علاقہ آٹوبھان روڈ جو کہ ایک کمرشل علاقہ ہے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ایسی جگہ پر سینٹر کھولنے سے ایک ادارے کی پہچان بنتی ہے۔اس وقت آٹو بھان روڈ پر کوئی 10 سے15 ایسے نامور کوچنگ ادارے موجود ہیں۔کسی بھی سینٹر کی بنیا د رکھنے کے لیے اسڑیکچر بیحد اہمیت رکھتا ہے۔اسٹریکچر کے اچھے ہونے کے ساتھ فیکلٹی بھی اچھی (قابلیت)کی حامل ہونا لازمی ہے۔کیوں کہ اگر بلڈنگ اچھی ہو اور فیکلٹی بیکار ،یا اگر بلڈنگ بیکار اور فیکلٹی اچھی ہے تو شاگرد بہت کم ایسے سینٹرز میں داخلہ لیتے ہیں ۔

۳۔فنانس(پیسہ):۔یہ ایک نہایت ہی اہم چیزہے ۔motives اور structure کے بعد فنانس ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔آپ کے پاس کتنا پیسہ موجود ہے اور کتنی investment کرنا چارہے ہیں۔اگر عمارت کرائے پر لی جارہی ہے یا خریدی جارہی ہے اور وہ ایک کمرشل علاقے میں موجودہے تو اس کا کرایہ ۲لاکھ روپے ماہانہ ہے۔جیسے کے آٹوبھان روڈ پر واقع کوچنگ سینٹرز کا رنٹ ماہانہ ۲ لاکھ روپے ہے۔اس کے علاوہ ہیرآباد،صدر میں واقع کوچنگ سینٹرز کا کرایہ خاطر خواہ کم ہے۔اس کے بعد فرنیچر ،ملٹی میڈیا کلاسس کے انعقاد کے لیے بھی ٹھیک ٹھاک رقم درقار ہوتی ہے۔
۴۔فیکلٹی اسٹاف:۔
اچھی بلڈنگ کے ساتھ اب کوچنگ سینٹر کے لیے اچھی فیکلٹی رکھنا درکار ہوتی ہے۔کیوں کہ اگر آپ کے پاس اچھا اسٹریچر تو موجود ہے لیکن اچھی فیکلٹی موجود نہیں تو ساری محنت کرنا بے قار میں گئی۔شاگرد آج کل اچھی فیکلٹی سے متاثر ہوکر ہی سینٹر میں داخلہ لیتا ہے۔ اچھی فیکلٹی جوکہ شہر کے نامور یا سینئر ٹیچرز پر مشتمل ہو ،کوچنگ سینٹرز کی اولین کوشش ایسے نامور ٹیچرز پر مرکوز ہوتی ہے،جنہیں بعذ سینٹر مالکان اچھی آفر دے کر ہائر کرتے ہیں ۔جس طرح حیدرآباد کے بیشتر کوچنگ سینٹرز جن میں ،کنس اکیڈمی،انیس حسن،لیڈز اکیڈمی،اسٹیوڈنٹس ان،سی۔ٹی۔ایس،سامرہ کوچنگ سینٹر ز وغیرہ شامل ہیں ۔

۵۔پبلسٹی(مشہوری):۔مقصد،اسٹریکچر،فنانس،فیکلٹی اسٹاف کے بعد اب پبلسٹی اگلا اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے۔کس طرح سے کوچنگ سینٹر کی مشہوری کی جائے۔جس کے لیے پمفلٹس چھاپے جاتے ہیں،بینرز بنائے جاتے ہیں اور انہیں مختلف علاقوں میں لگا دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ انٹرینٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب ساء ٹس کے ذریعے بھی پبلیسٹی کی جاتی ہے۔بعذ اوقات کیبل چینلز کے ذریعے بھی اشتہارچلائے جاتے ہیں۔ جن سے شاگرد زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ان سب طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوچنگ سینٹرز کی پبلسٹی کی جاتی ہے۔
کوچنگ سینٹرز کو کھولنا ہی صرف ایک اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے بعد اس کو کس طرح ہے چلاناہے یہ ایک اور اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے ۔جس کے تجربہ کار مینجمنٹ کا ہونا لازمی ہوتا ہے جن کے پاس اس کام کا تجربہ ہو۔کوچنگ سینٹرز کھولنے کے بعد جن مسائل کا سامنہ کرنا پرتا ہے ان میں ،
منیجمنٹ ،صاف ماحول،رینٹ،یوٹلٹی بلزاور سیلری جیسے اہم مسائل درکار ہوتے ہیں

۱۔مینجمنٹ:۔
مینجمنٹ کا تجربہ کار ہونا بے حد ضروری ہے۔اگر منیجمنٹ اچھی نا ہو گی تو صاف ماحول سینٹر کے لیے قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔منیجمنٹ کو مثلا:۔شاگرد وں کو کس طرح ڈیل کرنا ہے،ہر کلاس میں کتنے شاگرد بٹھانے ہیں ،فیس میں کمی کے مسائل کس طرح حل کرنے ہیں ،ان کی حاضری لینا،کون ٹائم پر آرہا ہے اور کون لیٹ ،ہفتہ وار اور مہینہ وار ٹیسٹ کا باقاعدگی سے لینا ۔اس کے علا وہ انیس حسن کے ایڈمن منیجر (رضوان مجتباع)کے مطابق بعذ اوقات political interference کا سامنا کرنا پرتا ہے۔اکژر پارٹی کے لوگ فیس کنسیشن کے لیے آتے ہیں اور پارٹی کی بیس پر لڑائی جھگڑے پر بھی اتر آتے ہیں ۔جسے منجمنٹ کو ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پرتا ہے۔اور ایسے لوگوں کے لیے سیکیورٹی رکھنا پرتی ہے۔

۲۔ رینٹ(کرایہ):۔اگر بلڈنگ کرائے پر ہے تو اس کا کرایہ نکالنا ایک اہم مسئلہ ہے ۔جس کے لیے شروع کے چند سا ل سینٹر انتظامیہ کو نقصان برداشت کرنا پرتا ہے اور دو تین سال بعد جاکر منافع ہونا شروع ہوتا ہے۔

۳۔تنخواہ:۔ فیکلٹی ممبران،کلرکس،پٹے والے ،اسٹاف ان سب کی تنخواہ بر وقت ادا کرنا ہوتی ہے جو کہ اہم سنگین مسئلہ درکار ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ سینٹرز میں روزانہ کی بنیاد پر 500 روپے کے قریب چائے ،منرل واٹر کے الگ خرچے ہوتے ہیں جنہیں انتظامیہ کو یہ الگ سے برداشت کرنا ہوتا ہے۔

۳۔یوٹلٹی بلز:۔کوچنگ سینٹرز جوکہ عمومآ بڑی بڑی عمارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں دو سے تین منزلہ،جن کے ماہانہ لاکھوں روپوں میں بلز آجاتے ہیں جسے کہ لیڈز الیڈمی،استیوڈنٹس ان،سامرہ کوچنگ سینٹر یہ ایک نامور سینٹرز ہیں اور یوٹلٹی بلز ان کے لیے ایک اہم مسئلہ ہو تا ہے۔
در حقیقت کوچنگ سینٹرز کو کھولنا ہی صرف مشکل کام نہیں بلکہ اس کے بعد اور بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پرتا ہے۔

P.T.O
Furqaan-ul-Haq
2K12 / MC / 33
کوچنگ سینٹرز کے انتخاب میں طلباء اور اساتذہ کی ترجیحات
حیدرآباد میں گزشتہ 10 سالوں میں کوچنگ سینٹرز کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ لوگوں کی اس بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ تعلیمی اداروں میں خراب نظامِ تعلیم کوچنگ سینٹرز کے بڑھتے ہوئے رجحان کا سبب ہے جبکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ معیاری تعلیمی ادارے موجود ہونے کے باوجود طلبہ شوقیہ اور تفریح کیلئے کوچنگ سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں جب ہم نے طلباء اور اساتذہ کے تاثرات معلوم کیے کہ کوچنگ سینٹرز کے انتخاب میں ان کی کیا ترجیحات ہوتی ہیں ؟ تو ملے جلے تاثرات سامنے آئے۔
سرکاری تعلیمی اداروں اور نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ کی کوچنگ سینٹرمنتخب کرنے کی ترجیحات میں زمین اور آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔

ترجیحاتِ طلبۂ سرکاری ادارۂ تعلیم:
سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے سکول یا کالج میں تعلیمی نظام کا معیار زبوں حالی کا شکار ہے اسلئے بحالتِ مجبوری انہیں کوچنگ سینٹرز جانا پڑتا ہے۔
ان میں سے کچھ کی جانب سے کوچنگ سینٹر کی فیس کو مدنظر رکھا جاتا ہے کیونکہ بیشتر طلبہ کی مالی حیثیت فیس کی زیادتی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتی جسکی وجہ سے وہ گلی کوچوں میں کھلے کوچنگ سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں کے کئی طلبہ معیارِ تعلیم کو بھی ترجیح دیتے ہیں جو کہ انہیں سکول یا کالج میں میسر نہیں ہوتا اور وہ اپنی مالی حیثیت کی مخالفت کے باوجود کسی بڑے، نامور اور معیاری کوچنگ سینٹر میں داخلہ لیتے ہیں۔

ترجیحاتِ طلبۂ نجی ادارۂ تعلیم :
نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ زیادہ تر شغل کو ترجیح دیتے ہیں اور اُس کوچنگ سینٹر میں جاتے ہیں جہاں سب دوست داخلہ لیں۔
طلبہ کی ایک مخصوص تعداد لڑکیوں کے چکر میں بھی کوچنگ سینٹرز کا چناؤکرتی ہے۔اسی لئے اب تقریباً تمام کوچنگ سینٹرز میں خاتون استقبال کنندہ رکھنا کوچنگ سینٹرز کی اول حکمتِ عملی ہوتی ہے۔
کئی طالبِ علم تو صرف کوچنگ سینٹرز کے بڑھتے ہوئے رواج کو زندہ رکھنے اور اسے تقویت دینے کی غرض سے کوچنگ سینٹرز میں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
بہت سے طلباء کے مطابق کوچنگ سینٹر کے انتخاب کا حق اُن کے پاس نہیں بلکہ یہ فیصلہ اُن کے والدین کے ہاتھ میں ہے۔ والدین اپنی جانچ پڑتال اور تسلّی کے بعد کسی کوچنگ سینٹر میں اپنے بچوں کو داخلہ دلواتے ہیں۔

ترجیحاتِ طالبات :
طالبات کی اکثریت کے مطابق وہ نامور اور مشہور کوچنگ سینٹر کو ترجیح دیتی ہیں۔ جسکی وجہ اپنی دیگر ساتھیوں پر فوقیت حاصل کرنا ہوتا ہے۔
طالبات کی ایک خاص تعداد کا تعلق اسی طبقے سے ہے جن میں والدین کی مرضی سے کوچنگ سینٹر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔


This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi

گورنمنٹ گرلز پائلٹ ہائی اسکول حیدرآباد

This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi
Investigative Report
2k12

گورنمنٹ گرلز پائلٹ ہائی اسکول حیدرآباد
امبرین فیاض
تعلیم اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ حیدرآباد کے تعلیمی اداروں میں کچھ تعلیمی ادارے بہت اہمیت کے حامل ہیں اور وہ ایک تاریخی پس منظر بھی رکھتے ہیں ۔ گورنمنٹ گرلز پائلٹ ہائی اسکول حیدرآباد بھی انہیں میں شامل ہے جو کہ میرا ہائی اسکول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ اس اسکول کی بنیادی ایک ہندو مفکر اور اسکالر سادھو واسوانی نے رکھی ۔
سادھو واسوانی 25 نومبر1879 حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں ہی حاصل کی ۔ بی اے 1899 میں بمبئی یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ بی ۔ اے کی تعلیم کے بعد انہوں نے اٹلس اسکالر شپ حاصل کی اور ڈی ۔ جی سندھ کا لج کراچی میں دکشنہ فیلو کے فرائض سر انجام دئیے اور ساتھ ہی ایم ۔ اے کی تعلیم بھی جاری رکھی ۔ سادھو واسوانی نے اپنی پوری زندگی تعلیم کے لیے وقف کر دی تھی ۔ ایم ۔اے کی تعلیم کے بعد 1903 میں انہوں نے بمبئی کالج کلکتہ میں ہسٹری اور فلسفی کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔1908 میں کراچی آگئے اور ڈی۔ جی سائنس کالج سے منسلک ہوگئے ۔1908 میں وہ 86 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔ انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں ۔ 2011 میں پونہ میں درشن میوزیم کو ان کے نام سے مختص کر دیاگیا ۔یہ ان کی تعلیم کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیاگیا تھا ۔

سادھو واسوانی نے لندن ، امریکہ ، اور انڈیا جیسے بڑے شہروں میں بھی اسکول بنائے ۔ میرا ہائی اسکول بھی انہیں کا وشوں کا نتیجہ ہے ان کو اس کو ششوں کو ہندو برادری نے بہت سراہا ۔ اسکول کی پہلی ہیڈ مسٹریس ہیرا بائی تھی انہوں نے انگلش میں ایم۔ اے کیا ہوا تھا وہ سا دھو واسوانی کی بھابھی تھیں ۔ انہوں نے 1942 سے 1947 تک اسکول کا چارج سنبھالا ۔ شروعات میں اسکول کی 5 کلاسیں تھی اور 7 اساتذہ پڑھاتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اسکول کے مالک سادھو واسوانی نے گورنمنٹ سے درخوست کی کہ اس اسکول کو National کر دیاجائے۔ اکتوبر 1948 میں اس وقت کے ڈی۔ پی ۔ آئی علامہ عمر بن محمد نے تولا رام ہائی اسکول کی بلڈنگ کے ساتھ میرا ہائی اسکول کی بلڈنگ متصل کر دی ۔ گورنمنٹ نے جب اسکول کا چارج لیا تو اسکول کا نام گرلز پائلیٹ ہائی اسکول کر دیاگیا۔ بہت سے لوگ آج بھی اے میرا ہائی اسکول کے نام سے ہی جانتے ہیں دراصل یہ نام سادھو واسوانی نے میرابائی جو کہ مندروں میں بھجن گاتی تھی ان سے عقیدت میں رکھا تھا ۔
1952 میں آپا شمس النساء عباسی اسکول کی ہیڈمسٹریس بنی ۔ وہ تعلیم عام کر نے کا جذبہ دل میں رکھتی تھی۔ اس وقت کچھ ہی گھرانے ہوتے تھے جو لڑکیوں کو پڑھنے کے لیے بھیجتے تھے ۔ 1953 میں آپا شمس عباسی نے اپنے بھائی محمد اکبر قاضی جوکہ وزیر تعلیم تھے ان کی مدد سے اسکول کو مکمل تعمیر کروایا اور ایک ہوسٹل بھی تعمیرکروایا جہاں دور دراز علاقوں سے آئی لڑکیوں کو رہنے کی سہولت دی گئی ۔یہ ایک ہائی اسکول تھا آپا شمس عباسی چاہتی تھی کہ لڑکیاں مزید پڑھے تو انہوں نے ایک کالج کے مقام کے لیے جدو جہد شروع کر دی ۔ کافی مشکلات کے بعد انہوں نے شام کی شفٹ میں لڑکیوں کے لیے کالج کی شروعات کی ۔ علم ایک روشنی ہے وہ اپنی راہیں خود تلاش کرنا جانتا ہے ۔ کالج میں جب طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا تو کالج کو دوسری بلڈنگ میں منتقل کردیا گیا۔ اور اس کالج کو گورنمنٹ گرلز زبیدہ کالج کا نام دیاگیا آج حیدرآباد کے بڑے کالجز میں شمار کیاجاتا ہے ۔ وہ بھی اسی اسکول کی بدولت وجود میں آیا تھا ۔
وقت کے ساتھ تعلیم عام ہوتی گئی ہاسٹل جس وجوہات پر بنا یاگیا تھا کہ لڑکیاں دور دراز سے آتی تھی جب تعداد کم ہوئی تو اسے 1982 میں بند کردیاگیا آج اس ہاسٹل کی جگہ پرائمر ی سیکشن کی کلاسسز ہوتی ہیں ۔
اس اسکول نے بہت سے بڑے نام پیدا کئے ہیں جن میں سے میڈم آفتا ب ، مہتاب چنا شامل ہیں یہیں سے پڑھی ہوئی طالبات آج مہرا ن یونیورسٹی اور لمس یونیورسٹی میں پروفیسر کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ۔ جب مجھے اس اسکول میں جانے کاموقع ملا اور میں گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو اسکول کی عمارت دیکھ کر یہ سو چے بغیر نہ رہ سکی اتنی پرانی عمارت لیکن آج بھی اتنی پر وقار حالات میں موجود ہے ۔ اسکول کی اس وقت ہیڈ مسٹریس آپا شاہدہ عزیزقریشی ہیں بہت ہی نرم خواور اچھے مزاج کی خاتو ن ہیں اوران کی باتون سے اندازہ ہوا کہ وہ تعلیم کو مزید بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے کا تعلیمی معیار اچھا تھا لیکن تعلیمی رحجان نہیں تھا جبکہ آج تعلیم عام ہوچکی ہے لیکن اب وہ معیار نہیں رہا ۔ اسکول میں بائیو لوجی ، فزکس اور کیمسٹری کی لیبارٹری کے ساتھ ،ڈ رائنگ ہال اور لائبر یری بھی موجود ہے ۔ سندھی ، اردواور انگلش تینوں میڈیم ہے اس کیساتھ طلبات کو سالانہ 2500 روپے وظیفہ بھی ملتاہے جوکہ حاضری کی بنا پر دیاجاتا ہے ۔ کتابیں گورنمنٹ کی جانب سے مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور سیلبس سندھ ٹیکسٹ بک پڑھا یاجاتاہے ۔
اسکول کاتعمیراتی کام کافی حد تک رہتا ہے جب میں نے اسکول کاجائزہ لیاتو دیکھا ایک بلکل نئی عمارت بنی ہوئی لیکن اس کو ابھی تک استعمال میں لایاگیا ۔ ہیڈ مسٹریس سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اسکا چارج ابھی تک ہمارے ہاتھ میں نہیں دیا گیا ، بہت جلد ہمیں مل جائے گا توپرائمر ی ، سکیشن کو اس بلڈنگ میں منتقل کر دیاجائیگا ۔ اور پرائمری سیکشن کو کینٹین بنا دیاجائیگا۔ جہاں پر طلبات آرام سے بیٹھ کر کھایاپیا کریں گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ اسکول میں زیادہ تر غریب ماں باپ کے بچے آتے ہیں انہیں بھی وہی سہولیات میسر ہونی چاہیے جوان کا حق بھی اور اس سے انہیں اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ بھی آئیگا۔
ایسے اسکول ہمارے ملک کے لیے قیمتی اثاثوں سے کم نہیں ہیں ۔


دی ہوپ فل اسکول
تاریخی اسکولوں کی معلومات اکھٹا کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ تولگا ہی چکی تھی کہ جہاں تعلیم کو فروغ دینے والے لوگ مو جود ہیں وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ وقت گذاری کے لیے اور اپنے مفاد کی خاطر بڑے عہدوں پر فائز ہیں ۔
دی ہوپ فل اسکول 1883 میں ان بچوں کے لیے تعمیر کروایاگیا تھا جو کہ غریب تھے اورتعلمے حاسل کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں تھاان کے پاس دوسو طالبات تھے ۔ اس وقت جو کہ تعلیم حاصل کررہے تھے اسی اسکول سے متصل ہاسٹل بھی تھا کیونکہ دور دراز سے آئے بچے اسکول پڑھنے کے ساتھ ہاسٹل میں رہائش کرسکے ۔ The Poor Asylum کے نام سے وہ ہاسٹل بنایاگیا تھا لیکن آج اس ہاسٹل کو ناجائز طریقے سے ضبط کر لیاگیا ہے اردو میڈیم اسکول ہے اس اسکول کو پاکستان بننے کے بعد گورنمنٹ اسکول بنا دیاگیا ۔ 1975 تک یہ بوائز اسکول تھا لیکن ذوالفقار بھٹو کو دور حکومت میں انہوں نے اسے گر لز اسکول بنا دیا اورانہوں نے یہ اقدام اٹھایا کہ دوپہر کی شفٹ تعلیم بالغان کو فروغ دیا تاکہ تعلیم مزید عام ہوسکے ۔آج کل جہاں صبح میں لڑکوں کی کلاسیں لگتی ہیں ساتھ میں لڑکیوں کا پرائمری سیکشن جبکہ دوپہر کی شفٹ میں لڑکیوں کا ہائی اسکول ہے ۔
اسوقت یہاں کی ہیڈ مسٹریس دلشاد بلو چ ہیں پہلے کے مقابلے اب یہاں طالبات کی تعداد میں بہت کمی آچکی ہے ۔ اس اسکول میں ایک بہت بڑی لائبر یری موجود تھی لیکن وہ اب ختم ہوچکی ہے ۔ سائنس کی لیبارٹری موجود ہے جہاں طالبات اپنا کام و غیرہ کرتے ہیں جن طالبات کی حاضیر 85%تک ہوا نہیں سالانہ وظیفہ ملتاہے ۔
اگر دیکھا جائے تو جتنا پرانا یہ اسکول ہے اس لحاظ سے اس کی تاریخ بھی اتنی ہی وسیع ہوگی ۔ لیکن یہاں کی انتظامیہ کی لاپرواہی کی یہ انتہا دیکھنے کو ملی کہ ان کے پاس بتانے کو ہی کچھ ہی نہیں تھا سوائے اس بات کے پہلے جب الاؤنسز نہیں ملتے ۔ اسکول کی عمارت کی بات کی جائے تو عمارت کی حالت کچھ خاطر خواہ نہیں گراؤنڈ فلور پر کلاسیں ہوتی ہیں اوپر ی منزل پوری طرح سے بند کر دی گئی ہے وہاں کلاسیں نہیں ہوتی ، اتنے بڑے رقبے پر بنا یہ اسکول اکثر سیاسی پارٹیوں کے پروگراموں کے لیے استعمال کیاجاتا ہے ۔

Women’s fashion in Hyderabad




                      Women’s fashion in Hyderabad

                                     
                                      Contents

                                               
1-     Women’s fashion in Hyderabad
2- Women attires in Hyderabad
3- Introduction
     4- History of clothing in Hyderabad
     5- Unstitched fabrics in Hyderabad
     6- Stories and people
     7- Problems and Issues
8- Tailors in Hyderabad
9- Male tailor Vs Female tailor
    10- Stories and People
    11-Problems and Issues
    12-Embroidery in Hyderabad
    13-Stories and people
    14-Problems and issues
    15-Designer Boutiques trend in Hyderabad & its popularity
    16- Readymade dresses Vs Unstitched (Hyderabad)          
    17-Contribution
    18-Conclusion






            Women’s fashion in Hyderabad


               Women’s fashion changes with time and new trend introduces in the society. Every woman wished to be up to date in following fashion because women have to maintain their status and personality in front of her colleagues and friends by following latest trend. Pakistani women are very keen towards fashion and without the interest of these women our fashion industry would not be able to make progress. 
                 In Hyderabad city where every fashion adopted at its end time, women are very fond of fashion here. Now new developments in Hyderabad regarding fashion are seen in the last two or four years ago. New trend in clothing as were in Karachi introduces in Hyderabad. Modifications notices in the jewelry designs, moreover many branded beauty salons and designer boutiques are now introduces. Women of Hyderabad adopted specific trend according to their necessity and financial statement.

Women attires in Hyderabad

Introduction:

Attires and dresses are the heart of women throughout the time. New designs and varieties with emerges of time introduces in the market and women prefer to buy the finest outfit which enhances their personality as well. Dressing remained an imperative part of describing the personality and shows the worth of an individual.
              In Hyderabad there are so many markets which offer new designs and varieties to a great extend. But as compared to cities like Karachi and Islamabad, Hyderabad is very much backward in introducing new trends of clothing. The new fashion in clothing which we see in Karachi will be followed in Hyderabad after a year ago. Fabrics, designing and styles changes with time but women would never stop to buy the latest attires. The people who play vital role in the clothing are fabric seller, tailor and embroiderer. In Hyderabad we can see huge coward of women’s on these shops in the festive seasons.

History of clothing in Hyderabad:

In the ancient times in Hyderabad, women used to sew and embroider their clothes at home. Sewing and embroider the clothes considered an important art in past for women at which they must be skilled. If any woman was not skilled at this art then she stitched her clothes by other woman who took small amount of money to stitch her dress and that woman usually known as “Darzan” or female tailor. The concept of female tailor was very much common in past. Later, the shops of male tailors who stitched women clothes introduced at many places in Hyderabad and the trend of female tailors decreases at large level.
   Apart from tailors, susi cloth was famous in past and people used cut pieces shirt along with it. Embroidery was very much common in the past and there were also catalogues of new designs in embroidery. Markets and shopping centers were full with embroidery shops in Hyderabad. But the time chances everything and new trends introduces in attires and people of Hyderabad also adopted the trends in clothing.

Unstitched fabrics in Hyderabad:

Unstitched clothes are always remained in demand of people in Hyderabad. Ready made dresses are not in access of everybody and due to high range of readymade dresses women mostly prefer to buy unstitched.
 According to investigation in Resham Bazaar, Cloth market and Chandni Bazaar, Mostly customers prefer unstitched because they can design it according to their own wishes.
With the increase in boutiques and designer shops in Hyderabad, somehow the business of unstitched dresses affected but middle class people still prefer unstitched because it has no fixed price. Also the Sindhi culture cut work dresses are liked by all the people.
                  In Hyderabad mostly the summer season remained for a long time therefore unstitched lawn are common here. In winter female prefers to buy cotton clothes and mostly customers demanded according to their range. Shopkeepers told that their customers of high standard are now moving day by day towards the other side of shopping at Autobahn road Hyderabad where the designer shops and branded boutiques are present and it’s a major threat to them.







Stories and people:

A shopkeeper in Resham Bazar named Muhammd Aslam who opened clothes shop near around 13 years ago told a very interesting story of his customer that 2years ago during bargaining with a female he angrily said that he doesn’t want money, take it without money then she really took the clothes without any payment.

Another shopkeeper Saleemuddin of National handicraft worked in Resham Bazar since 40 years. Dressed in white clothes and white bearded Saleemuddin told that his shop was the only shop of Sindh handicrafts and was very famous. Different designs of cut work dresses, Ralli and Ajraks are available over there. He also told a fascinating story that the cut designs on suits done by villagers’ women. Once there was an old lady who can make every type of design on paper. I saw a design on the wall and she noticed that design and copied it on the paper. Though she was uneducated but was very skilled.

In Cloth Market, shopkeeper named Faizan Siddiqui told that one female customer get the suit from his shop and bring it to return but he refused to take it back then she drop it outside the shop.

Problems and Issues:

Mostly the shopkeepers who sell unstitched clothes faced the following problems.
1-     Return or exchange is common in this business so mostly females after buying the dresses comes to return or exchange it which is a bone of intention between the customer and shopkeeper. Sometimes that turns into a quarrel and results in the loss of shopkeeper’s customer.
2-     Selling of old fashion and out seasoned clothes is a great mess. It causes a serious loss in business because the prints which turned old fashioned are difficult to sell and have to display it into sale at low cost.
3-     Mostly the cloth shops in Hyderabad are on rent and the rent of shops is too much enough. Shopkeepers didn’t get much profit to earn their livelihood.



Tailors in Hyderabad:

In Hyderabad, we can see many shops of tailors not even in markets and shopping centers but nearly in the every street. Every tailor demanded different rates depend on the designing of the clothes and his dexterity. Initially the concept of female tailors who used to stitched clothes at homes were very common but with the change of time, shops of male tailors introduces in Hyderabad which provides quality service to the female customers as compared to female tailors whom we usually called Darzan in urdu. Gradually the male tailors put back the female tailors and trend of male tailor increases. We still find some female tailors in Hyderabad working in their homes and very low cost.
             Day by day tailors’ shops increases in Hyderabad and with this their rates also boost instead of lessen. Some tailors are now deceive their customers by taking high amount of cost and giving their dresses to the female tailors who stitched it at home at very low prices and are not as expert in sewing. Boutiques and designer dresses shops has a major impact on the business of tailors. Workers are less and if they are on hand then they demanded high salary which is impossible for tailors.

Male tailor Vs Female tailor:

After investigating from customers, people and tailors in different markets we concluded few major distinctions on the male and female tailors in Hyderabad 
1-     Male tailors give the stitched dresses on time whereas female tailors although not gives on time because they also have to manage and gave time to their house.
2-     After the hard labor of female tailors their earning is 1/4th as compared to male tailors.
3-     Still some fault remained in the clothes stitched by female tailors as compared to male.


Stories and People:

In Saddar, a tailor’s shop named Hasnain Collection’s tailor told that with the advent boutiques and readymade clothes or designer shops, their business loses 50%. Customers are decreases day by day and moving towards the boutiques/readymade dresses. He told a story that a customer gave him a design which was not possible in that type of cloth and he designed it bit different, when she saw it she shouted on him and paid him half money.

A ladies tailor Abdul Qadir in Saddar Bazaar told that boutiques or readymade dresses trend doesn’t have any major impact on his business but still people comes to the tailor’s shop because the readymade dresses are not fitted to everyone and for perfect fitting people prefer tailors. He told an interesting incident of his customer that a lady bought a readymade dress from an expensive designer shop but after wearing it first time she brought it to I for perfect fitting and I re-sewed it two times.
Problems and Issues:

1-        Measurement and size of clothes if not perfect then customer blame the tailors whether they give him a right size or not.
2-        Electricity or load shedding caused their business slow and delay in deliverance of clothes on time to the customer.
3-        Competition with the other tailors increase day by day also the boutiques are hurdling in their ways.
4-        Workers are less and if any then demand high salary.

Embroidery in Hyderabad:

Embroidery fashion was very famous in the past but with the modernization in Hyderabad it lessens with times. Today we can’t see embroidery shops as much as it were in past. Now these are limited to particular areas in the market. The major loss because of opening of boutiques is faced by embroidery profession. Resham bazaar once was famous for its embroidery shops. Nearly their work is vanishing and suffered a lot with the trend of boutiques and readymade dresses. According to shopkeepers, customers decreases as compared to past.




Stories and people:

In an embroidery shop in Resham Bazaar a child named Abdul Wahab, 13 helped his father in embroidery. By inquired him we know that he is a student of a government school and also helped his father in the evening at the shop. His father’s shop is on rent and their livelihood totally depends on this work.

Problems and issues:

1-     Their work is very hard but earning is not much.
2-     Quiet difficult to handle the customers, to fulfill their demand and designs which they brought. If any mistake would do then they cut its cost or pay fewer amounts.  
3-     Due to this hard labor there is a danger of weakening of eyesight.
4-     Without electricity they are unable to work and have to wait for hours.

Designer Boutiques trend in Hyderabad & their popularity:


Nearly a year ago, many designer boutiques are introduced in Hyderabad like Junaid Jamshed, Khaadi, Ego, Rang Ja and Warda etc on Autobahan road Hyderabad which offers great variety of new designs to their customers. The customers of shopkeepers in Saddar Bazaar are now turned towards it. This is the major complain of Saddar Bazaar shopkeepers that their customers of high class decreases day by day. Hyderabad is now at its turning peak and would soon turned into city of big shopping malls where more designers would open their setup and would provides great varieties to the customers of Hyderabad as they do it in Karachi. These designer boutiques offering range from low to high and it’s accessible to all types of people. These Designer boutiques have fixed price and there is no concept of bargaining. But other boutiques may have bargaining system in Hyderabad like in Saddar Bazaar. These designer boutiques are the major threat and competitors to the tailors, embroiderers and unstitched fabric sellers.

Readymade dresses Vs Unstitched (Hyderabad):

Unstitched fabrics are now sold at high prices in Hyderabad and mostly there is no warranty of it. If a person buy an unstitched fabric of almost Rs.2000 and give it to the tailor and then embroiderer so it would cost him a lot, nearly total cost of dress would be Rs.3500. Instead of this entire headache, many people nowadays prefer to buy readymade dresses. In Latifabad Market and in other bazaar many boutiques are opened which are in everyone’s range. A female customer at a Latifabad boutique told that she preferred to buy readymade dress because it is easily available to buy in urgent.

 

Contribution:

The embroiderers, tailors and shopkeepers are very crucial in Hyderabad from the women’s fashion point of view. Due to increase in cost of price their business suffers a lot which affected their livelihood. In Hyderabad, here we found different sect and cultures where these people also take an active part in the contribution of clothing stuff and its selling. On all the festive seasons, not only in Muslims festivals; women turned towards the shops of embroiderers, tailors and unstitched clothes. So they all provide the facilities of clothing, style and designing according to other cultures also, to fulfill the needs of different sect people. These businesses have a lot of scope not only in Hyderabad but in everywhere and it somehow take part in making the economy strong.

Conclusion:

After this entire investigation in the markets and shops of Hyderabad, one key point that comes in the sight is that by the introduced of the designer shops in Hyderabad, the customers’ shifts from unstitched to the designers’ one and this max change observed since one and half year ago, which caused severe loss not to the unstitched fabric sellers but also to the tailors and embroiderer.

This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi

Book Industry of Hyderabad




Book Industry of Hyderabad





HINA’S PORTION
TOPICS:
1.                        ISSUES AND PROBLEMS OF BOOK INDUSTRY
2.                        PROBLEMS CREATED BY BOOK INDUSTRY
3.                        CLOSED BOOK DEPOTS

NAME OF DIFFERENT BOOK DEPOTS IN HYDERABAD
Ø     Universal Book Depot (Al-Rahim Road, Hyderabad, Pakistan)
Ø     Naseem Book Depot Stationery Shop (Foujdari Rd)
Ø     Shiekh Book Depot (Latifabad )
Ø     Niazi Book Depot Book Store (Hospital Road, Hyderabad)
Ø     Al-Khair Communication & Book Depot & Mobile Shop (Masan Rd, TandoWali Mohammad)
Ø     Rashid Book Depot & Stationery Shop (T.M Khan Rd, SITE, Hyderabad)
Ø     Ismail Stationers & Book Depot & Stationery Shop (Latifabad)
Ø     Pak Muslim Book Depot & Stationery Shop (City Cloth Market)
Ø     Younas Book Depot & Stationery Shop (City Cloth Market)
Ø      Al-Farooq Book Depot( FOUJDARI ROAD)
Ø      Karimi Book House (4/A, Cantt: Shopping Centre, Saddar)
Ø      Mehran Kitab Ghar Book Seller (E 28-2358 SHAHI BAZAR HYDERABAD)
Ø      National Book (COUNCIL OF PAKISTAN, REGIONAL CENTRE)
Ø     Niazi Book Depot (NEAR NOOR MUHAMMAD HIGH SCHOOL)
Ø     Al-Kitab (Latifabad)
Ø     Faran Book Depot (Latifabad)
Ø     Dawn Book Depot (Latifabad)
Ø     Shahbaz Book depot (Latifabad)
Ø     Friends Book Depot ( Latifabad)
Ø     Azam Book depot
Ø     Rahber Book Depot
Ø     Ayaz Book Depot


INTRODUCTION:
“If darkness of ignorance is dominating any area, a candle of pure ethical and moral publication can spread the rays of unprecedented knowledge”
 From last few decades, publishing industry has been steadily growing in Hyderabad despite many hurdles like the low purchasing power of the public and the lack of facilities. If we talk about overall Book industry in Pakistan then Lahore stands out with its numerous publishing houses and has been the hub of the book industry. But Hyderabad has its exclusive position in this industry.
ISSUES AND PROBLEMS OF BOOK INDUSTRY
NEW TREND: A new trend starts that school courses are now being sold in schools which is one of their cause of loss in business. So trend of purchasing courses from book depots is now gradually going to vanish.
Along with this there are some other factors which influence on their sale:
SOCIAL FACTORS:  sewage, parking, security, stricks and the most awful is electricity. Because during survey, a countable number of shopkeepers have complaints about such things that due to stricks delivery of books and other item becomes late,due to parking and sewage problem on the roads customers avoid to come on their shops, as it destroys the beautification of shop.
PIRATED BOOKS: Another problem which generally people knows is “ pirated books”, which is very much common in our society. Famous writers spend their time and money for a perfect piece of writing   and then some publishers copies it on low quality paper and sells it at their own rates. Some publishers, who just recopy material from some international author and make money by claiming it as their own, as they have 100% profit on pirated books.
DECLINE IN READING HABBITS: There has been a visible decline in reading habits from last 8 to 10 years. This can be attributed to a number of factors like television, internet and other means of entertainment. During  survey shopkeepers told us that before  8 years when our education system was not corrupt we had large number of customers even teenagers who purchase books on weekly and even sometimes on daily bases but now our education is totally a black business and secondly emergence of technology divert minds of our students towards other things which removes reading habits from their life According to shopkeepers “we have much variety of books but not readers”.
PUBLISHERS: The business of book depots is badly influenced due to publishers as their late delivery of books and due to shortage of books it decreases the reputation of shop. If customer is time to time coming on any book depot and having excuse from shopkeeper then next time reader will avoid to visit that shop so this is basically the fault of publishers but impacts on the reputation of shop. This practice is mostly done by STB (Sindh Text Book Board). Many times it happens that by new year publishers wrote new prices on book and not cut old one so due to double rates customers thought that it’s written by sellers so they often parents fight on such things.
Example: If a text book having price 200 rup in 2013 then in 2014 publishers increase the rate upto 220 rup. Both are written on that book so customers thought that new rate is written by sellers not by publisher, so this thing influence on the sale of shop.
Law breakers should be punished strictly at each level and dealt with an iron hand. Every citizen of Pakistan irrespective of their age and occupation starts to realize their own duties. It is possible when people get consciousness and make a distinction between good and awful.
UNIQUENESS: A book depot in Latifabad name “Shahbaz Book Depot” has donation system in their shops. Parents donate their books here then those who can’t afford new books use these books.
α       YADGAR BOOK DEPOT:  The shop Yadgar was owned by Mohammad Yousif Dehalavi. This shop was located near Urdu Bazar and inaugurated in1960s. Initially they started from journals and copies, then published own guides, stationary and later on converted into book depot.

NEWS: From survey we come to know that about 20% students go to government schools and remaining 80% students go to private schools, and only 5%  book depots having both government and private courses while remaining have only private school cources.
Another thing is that in the in the business of sailing and purchasing sellers normally have 15% profit on each item and then due to black business they earn 20-30% profit on general books, 50% on guides and 100% on pirated books.
ISSUES AND PROBLEMS CREATED BY BOOK INDUSTRY
In spite of providing with bundles of good, informative & inspiring books, Book industry in Hyderabad also creating some problems which have direct impact & influence on our young generations. We can say that latest technologies tracking us on wrong path although this statement is correct but along with this some statues of our society de_tracking our teenagers and BOOK INDUSTRY is one of them.
                           Publishing and sailing of guides, solved papers, reference books are the most powerful way to de trackteenagers. Students know that if they don’t go to schools and colleges throughout the year, they would have no loss because they can purchase solved papers, guides, reference books and othersuch type of things at the end of session, in which all solved material related to their course outline is available and by using such things they can easily pass examination. Guides of Ali series are very common in use. Students know that if they don’t study, do not attend lectures whole year, they have no worries as they have such material in which all question are available in solved pattern. These sort of things makes the mind of students “worry free” and they often use of catch words like “don’t worry friends paper hojaiga” , “boring lecture sabahtar ha ka hum paper saphlasolved papers la lan”, “yar solved papers hnnatuparhnakekyazarorat ha” ………
             According to survey most of the corruption increases due to the funds given by World Bank and IMF because they ply fund for publishing, and here situation is that publishers take funds by showing their list of publishing books but after receiving they just have black paper business. Another thing is that government give a particular amount of subside on each printing paper.Again book sellers and publishers start up their yellow business in this case also, suppose there is need of 1000 papers publishers purchase 500 only and the remaining will purchase from market which is of low quality in this way publishers are earning black money.
Another problem face by our society is that shopkeepers increases their rates on their own demand during the season like in the month of March and August which is the season of purchasing courses and stationaries so public purchase a book of 200 rup in 300 rup because of their need and reputation in society. Just like a Book depot named Ayaz Book Depot have their own rates.


CLOSED BOOKS DEPOTS OF HYDERABAD
α       AZAD BOOK DEPOT: This was situated in Saddar area. Honor of shop was Azad. Their business was come to its end as there was no one to continue this family business. This was most ancient among all book depots. Now they have started their own Travelling agency.
α       QUOMI BOOK DEPOT:This was positioned on Faujdari Road. The famous journalist of Hyderabad Sohail Sangi was the founder of this shop in 1968 and owner was Abdul Sattar. They mostly had general books and progressive literature. Intellectuals of that time often that there are two universities in Hyderabad one is Sindh University and other is Quomi Book Depot.
α       ADBIYAT BOOK DEPOT: The name of honor of shop was Saleem Memon. It was positioned on Tilak Incline near American centre. He was the well-mannered, educated and respectable citizen of that time. But unfortunately his business faced a disastrous moment of downfall approximately 7 to 8 years ago as no one was there to continue family business.
α       DEEN AND DUNIYA BOOK DEPOT: This shop was situated near in Shahi Bazar. Name of honor was( Jamal)Aijazi, one of the well-mannered and respectable shopkeepers of that time. They have many famous and still incomparable books like for Nursery “ Globe English Preimer” and  soe others like “Zameerkaqaidi by NisarAalia”, “Paak Qaida”, “Rangeen Qaida” etc.
α       R.M. FATEH BROTHERS: It was inaugurated in late 1950s or 1960s in Hirabad. During those days it was trend that Director of information purchase books for school libraries. He published such type of books which director often purchased.
α      R.H Ahmed Brothers:The shop was owned by Haji Rahmat-ullah and his brothers. It was their family business but later on they face era of downfall because they were unable to hold stable their business. Shop was located in Shahi Bazar. Pre partation
α      Rama Pak Book Depot:It was the shop of pre-partation in market area. The honor was hindu and become closed at the time of partition.
α      Eductional Book Depot :This was the shop of 1950s near Piggot School.









By TOOBA:
Topic: Back ground of book industry in Hyderabad & Contribution in society economically:

v  Background of Book Industry in Hyderabad
Old book depots of Hyderabad are:
Educational Book Depot, Aazad Book Depot, Yusuf Book House, R.H.M.N located in Shahi Bazaar, Naseem Book Depot, Universal Book Depot established in 1953 and old name of Universal Book Depot was Royal Book Depot, Ajaib store, Qaumi Kitaab Ghar’s foundation established by SohailSangiSahab.
Retired Book sellers are:
Aijaz Baig, Haji Rehmatullah Ahmed, Raheel Baig, MirzaRafiq Baig, Humayun and IftekharSahab.
Some of 1980s books were:
Zameer k Qaidi wrote by Nisar Ahmed. The owner of Abdiyat was Saleem. Nursery class books Globe English Primer and Rangeen Qaida published by Jamal Aijazi. Inqilaab-e-Iran, Sabt-e-Hasan, Jam-e-Saaqi these books are not published yet.
Shopkeeper Hanif sahib said: Pirated books published by Yaadgaar publishers. Mostly shopkeepers closed their book depots because of no one in their family to continue the business of book depot. The owner of Yaadgaar was YousufDehelvi. He further said that 30 to 40 years old books are remain same like High School English Grammar Book’s text & color are remain same and now today those books are also sell at some of the Book Depots. He further said that before 10 years ago the students knock our home’s gate and said to us that please give me a guide for solving the paper and the students were came to our home before 1 day of exam.
Pirated Books:
In Rehbar Book Depot all books are pirated except 2 shelfs. Pirated books are only for customers. The makers of pirated books gain 30% profit on selling of 1 book. In pirated books they use lower quality paper.
e.g :The original price of “Creative Writing” book is UK Ł6.99 and when it became pirated it is sell only in Rs 200/-
UK Ł10.99 is equal to Pakistani Rs 1600/-

Subsidy: They purchase paper from Govt. & use lower quality paper in publishing material like 100 ream or 1000 rim. Book sets are private. Rehbar publisher gives 30% discount to the customers.

General overview by retired shopkeepers:
The shopkeepers gain too much profit from all of these:
Ø     On selling and printing of guides they gain 50% profit.
Ø     On general books they gain 30% profit.
Ø     Salesman got 15% profit
Ø     On printing & selling of pirated books they gain 50% profit.
Ø     All shop’s profit are their own.



v                        Contribution in society economically

1)    Al-Kitaab Stationers
Faisal Karimi is the owner of Al-Kitab stationers. He started their shop in 1994. They have different books in their shop like Schools, Colleges, University and General books.
Most expensive book of their shop is between Rs/=1800 to Rs/=5000
Less expensive book of their shop is between Rs/=1800 to Rs/=3000
Problems/Issues:
Vendor said that if cost of any book is Rs/=200 in 2013 and when the cost is increase Rs/=200 to Rs/=210 in 2014 then customers say that this is your personal profit & this is not company rates. And customers sometimes fight with us on increasing of rates.
Profit: 15%
Loss: 5%
2)    Faran Book Depot
M.Arif is the owner of Faran Book Depot. He started their shop in 1962. Faran Book Depot is the 1st and oldest shop between Al-Kitaab and Dawn Book Depot. They have different books in their shop like Schools, Colleges and University books.
Maximum rates of books: Rs/=2200 to Rs/=8000
Minimum rates of books: Rs/=25 to Rs/=150
Profit: 10 to 15%
Loss: 10 to 15%
Behavior of customers on increasing rates:
Vendor said that every person have a different behavior on rates, some of them are fight with us on increasing rates.
Vendor’s message:
People left the reading habits before 7 years ago, but now again the reading habits increasing day by day and mostly university students come in our shop and buy different novel books like Jannat k patty etc. Vendor also said that book readers are mostly in Karachi not in Hyderabad.
3)    Dawn Book Depot
Asad Khan is the owner of Dawn Book Depot. He started their shop in 2007. They have different books in their shop like Schools, Colleges and University books.
Maximum rates of books: Rs/=1000 to Rs/=2500
Minimum rates of books: Rs/=25 to Rs/=500
Profit: 10%
Loss: 5%
Vendor’s message:
In Hyderabad the readers are decreasing day by day. Our shop’s speciality is we have a separate section of gift shop in our book depot.
4)    Shahbaz Book Depot
Syed Aaafaq is the owner of Shahbaz Book Depot. He started their shop in 1999. They have all Schools & Colleges books in their shop.
Maximum rates of books: Rs 600/-
Minimum rates of books: Rs 16/-
Profit: 10%
Loss: 10,000 when book rates are increase
Problems/Issues:
We face too much finance problem when company increases the rates without informing us. If we are going to purchase 10 items and we have only Rs 10,000/- for it but at that time cause of increasing in rates we can buy only 9 items in 11,000 rupees. Vendor also said that when price of Oxford book is increase so the customers fight with us and say that this is not company rates this is your personal profit and from this u get extra charges by misguiding us. He also said that sometimes publishers sell out the books in new rates and not mention the actual rates and after purchasing we sell out those books in old rates to the customers and got financial loss.
Vendor’s message:
Shopkeepers should have unity about rates and they must have to speak about increasing rates. When we say to publishers to give concession on rates so, they say that u needs it or not? Company should write new rates in a printing form not in hand written form. Reader’s priority decreasing after 2004. Mobile & internet are the main cause of it. I can’t slap on your face but I say that use your mobile & internet in limits. Too much usage of mobile create disturbance in youth’s life. Cost of Rs/=600 book will be only in Rs/=50 when MNA or MPA’s children will give priority to Government schools and colleges.
Behavior of customers on rates:
Vendor said: Customers fight with us on rates and not understand the difference of company rates. Those customers come on starting of month to purchase anything they have good behavior with us and those customers come at the end of month so, they have rude behavior with us. We give concession and also give gifts on buying of course set and try to make their behavior good with us.
Specialty of shop:
They have a Donation system in their shop. Customers come and pick any book from shelf without our permission.
5)    Friends Book Depot
Tasawwursahab is the owner of Friends Book Depot. He started their shop in 2006. They have different Schools & general books in their shop.
Maximum rates of books: Rs/=400
Minimum rates of books: Rs/=25
Profit: 7%
Loss: 3%
6)    Universal Book Depot
MirzaAyaz Mughal is the owner of Universal Book Depot. He started their shop in 1953. They have different books in their shop like Schools, Colleges, Autobiography, University, General, O/A level, CSS & Aptitude books. Universal Book Depot is located at Faujdari Road.
Maximum rates of books: Rs/= 8000
Minimum rates of books: Rs/=24
Profit: 15%
Loss: 5%
Specialty: They have a separate section of books, stationary and gifts.
7)    Naseem Book Depot (Faujdari Road)
KhurramNaseem is the owner of Naseem Book Depot. He started their shop in 1974. It is their family business. They have different books in their shop like Schools, Colleges & University books.
Maximum rates of books: Rs/= 4000
Minimum rates of books: Rs/=21
Profit: 10%
Loss: 5%
Behavior of customers on rates:
When any customer fight with us on rates then we show them price list that is come from school or publishers.
8)    Azam Book House
M.Basit is the owner of Azam Book Depot. He started their shop in 1970. They have different books in their shop like Schools, College and University books & Quran Pak.
Maximum rates of books: Rs/=1200
Minimum rates of books: Rs/=30
Profit: we got profit but all of our profits are expand in shop’s expenses. We got 5% profit yearly.
Loss: 10% yearly
Problems/Issues:
When any customer fight with us on rates then we show price list to the customer and also say to customer that you can also contact with company.
Vendor’s message:
M.Basit said: Your study is not too important but your behavior is most important and it should always be good with everyone.
Subside:
GABA: 10%
Oxford: 10%
9)    Rehbar Book Depot
Naseem is the owner of Rehbar Book Depot. He started their shop in 1999. They have different books in their shop like Schools, College, University & O/A level books. They don’t have stationery in their shop.
Maximum rates of books: Rs/=250 of Link publishers
Minimum rates of books: Rs/=50 of Rehbar publishers
Profit: They got 5% profit monthly
Loss: 2% loss monthly
Customer’s behavior:
Customers behavior is good all year.
Specialty:  They have their own publishers like
1.     Rehbar
2.     Reader
3.     Link
4.     Prime International
They have only these publisher’s books in their shop.
Vendor’s message:
Youth’s reading habits decreasing day by day cause of too much usage of mobile and internet.
10)Ayaz Book Depot
Riyaz Ali is the owner of Ayaz Book Depot. He started their shop in 1984. They have Schools & College books in their shop & guide too. They have a separate section of photo state and general store too.
Maximum rates of books: Rs/=200 of LatifNiazi School
Minimum rates of books: Rs/=50 of S.T.B books
Profit: They got 10% profit yearly
Loss: No loss we gain
Private books ratio:  90%
Govt. books ratio:  5%
Shopkeeper’s message: Today’s youth don’t take keen interest in their studies and prefer guides during exams. In our shop guides sell out mostly because guides are main & cheap purpose of cheating during exams.
Problems/Issues: Shortage of S.T.B books from company, 10% price increase from Oxford publishers. When customers fight with us on increasing rates then we show them price list.
Taxes: Every book must have a tax but the publishers know well, we don’t know about taxes.
Subside:
Ø     STB gives 10%
Ø     GABA gives 15%
Ø     Oxford  15%
Ø     Expensive set of book: Rs/=700 to Rs/=800
Ø     Less expensive set of book:Rs/=400 to Rs/=600
Guide’s publishers:
Guides available at Al-Kitab Stationers, Fine Book Depot, Deedar Book Depot, Nisar Book Depot, Al-Munawar Book Depot, Shaikh Book Depot, ilmiKitaabGhar, Emran Book Depot &Majid Book Depot.
Guide’s maker: Ali publishers &Maktab-e-Faridi
Guide’s prices between Rs/=120 to Rs/=350
11)Naseem Book Depot  (Unit # 11)
Naseem sahab is the owner of Naseem Book Depot. He started their shop in 1978. They have Schools & Colleges books, guides & set books are also available in their shop. They have Govt. & Private both books in their shop.
Maximum rates of books: Rs/=1100 of Munawar Foundation School
Minimum rates of books: Rs/=50 of Beenish Publishers
Profit: They got 15% profit yearly
Loss: They got 10% loss yearly
LatifNiazi school’s set book of class nursery in Rs/=800
LatifNiazi school’s set book of class 6th in Rs/=1300
Shopkeeper said:  In our shop mostly books are sell out not guides & in our shop 80% books are private & 20% books are Govt. Now a days solved papers are selling in large quantity.
Subsidy:
Ø     Rehbar gives 15%
Ø     GABA gives 15%
Ø     Paramount gives 10%
Ø     Oxford gives 23%
Ø     STB gives 10%
Vendor’s message:  Guides and reference books are the main cause of destruction of education in Pakistan.






















FARZEEN’S PORTION:

AL-KITAB STATIONARIES

INTRODUCTION:-
It is new shop among all the present shops.it start from 20 years beyond.Its owner name is M.FaisalKAREEMI.It is wide shop among all the shops and have variety of books available here.

SALESMEN:-
This shop consist of five co-workers as well as salesmen,who are highly educated themselves.One is Mehmoodbhai, he has 40 years experience in working in different book depots.Second is S.FaizanAli,he is basically a government teacher in Pak National School situated in unit #11.He teaches in morning and then do part time job in book depot in evening.Third is umair,he is not so much qualified but according to the owner,he is very hardworking.Fourth is Muzammil,he is basically a setup incharge.He does his best that all the workers can pickup the books at the exact place where it has been found.Last but not the least is Nawab,he is a sweeper and work with honesty.All the workers are satisfied with the owner and live like brothers.

CATEGORIES OF BOOKS:-
There are so many books like school books,collegebooks,university books included Medicine books, Pharmacology etc are available here from one year.General books included different types of guides,kitchenbooks,Magzines,Designer books, Poetry books of ParveenShakir,Amjad Islam Amjad and Wasi Shah also available here in urdulanguage.Novels like PEER E KAMIL by UMERA AHMED,JANNAT KE PATTE by NIMRAH AHMED,WO JO QARZ RAKHTE THE by FARHAT ISHTIAQUE and plenty of different general books r available here.
The owner says that reading books as habit is going weaker to weaker because we are living in 21 century and this century is full of technologies. All the material of books now available on internet so no one purchase from book depots.Due to internet,this negative impact is turning on people.

BOOKS OF SCHOOLS:-
Al-kitab have books of many schools like THE EDUCATIONAL WORLD, ANEES HASSAN INSTITUTE OF MODERN SCIENCES, PARAGON PUBLIC HIGH SCHOOL, MADINA FOUNDATION PUBLIC SCHOOL,CHAMBERS PUBLIC SCHOOL,P.H.S SCHOOL,FOUNDATION PUBLIC SCHOOL and ROYAL PUBLIC SCHOOL.

PUBLISHERS:-
Its publishers are OXFORD for school books publication and ALI SERIES for guides publication.

ITS UNIQUENESS:-
Its uniqueness is that this book depot have DIGITAL QURAN,TAFSEER E QURAN PAK, BUKHARI SHAREEF and so on.



                                           FARAN BOOK DEPOT

INTRODUCTION:-
Faran book depot is situated in latifabad #8.It is the oldest shop among all.It started in 1962.Its first owner was M.Shoukat and now its owner is Mr.Waheed and Mr.Arif. They are basically brothers.

SALESMEN:-
Faran book depot have seven salesmen who did their work with honesty.

BOOKS:-
All school courses are available here.All book depots have courses according to their area wise schools.otherwise fiction stories books,generalbooks,guides are available here.There is no any books of universities.This shop also sell uniform six years before.

CATEGORIES OF BOOKS:-
Novels like GHARMASTIAN by DR YOUNAS BUTT, ZERO POINT by JAVED CHOUDHRY,also poetry books of PARVEEN SHAKIR,WASI SHAH and AHMED FARAZ also available here.

BOOKS OF SCHOOLS:-
The books of THE CITY SCHOOL,THE EDUCATORS and PMA SCHOOL are available here in large quantity. Among all shops in that line this shop have all books in short quantity because of inflation or some schools have its own course shop so that parents prefer school shops then book depots.

PUBLISHERS:-
Its publishers include AHBAB,GABA,OXFORD,WIDE RANGE and GOHAR publishers.In addition QURAN PAK and TAFSEER E QURAN PAK also available here..



                                             DAWN BOOK DEPOT

INTRODUCTION:-
Dawn book depot is at third number.It is basically established here from 20 years.In past 14 years,its real owner was Waheed,they sell this shop and now from 7 year Mr.Asad khan is its owner.He is basically graduated from MehranUniversity.This shop have three salesmen.

BOOKS:-
All school,colleges and universities books are available here except o/a level books.General books like BAL-E-JIREEL and ZARB-E-KALEEM by ALLAMA IQBAL,MAN-O-SALWA and AMARBAIL by UMERA AHMED and a variety of magzines,kitchenbooks,palmistry books are available here.

ITS UNIQUENESS:-
Its uniqueness is it have BAHISHTI ZEWAR and 1000 FAMOUS PEOPLE ENCYCLOPEDIA that we cant see on any other shop.

EXTRA ESTABLISHMENT:-
Its extra establishment is that the shop has its own seprategft shop where variety of perfumes,toys,keychains are available ....



                                               SHAHBAZ BOOK DEPOT

INTRODUCTION:-
Shabaz book depot is situated in latifabad #9.It started from 15 years.Its owner name is M.Afaaq.He is basically inter pass.This shop is their own shop and distributed among brothers.

BOOKS:-
All school books and all kind of stationaries are availlable here which is full of special discounts and special gifting..There is minimun course of O/Alevel.Less quantity of general books like englishnovels,fiction books and pirated books.It has also english to english dictionaries, english to urdudictionaries,guides,refrencebooks,MCAT and ECAT books are also available here in large quantity.

PUBLISHERS:-
This shop has a wide range of all high schools.Itswell known publishers are OXFORD,GABA,PARAMOUNT,REHBAR, SINDH TEXT BOOKS,AHBAB,PUNJAB and FEDERAL.According to owner oxford and paramount publishers are comfortable.

ITS UNIQUENESS:-
One best thing about this shop is that it has a shelf full of donation books in which any one can put old books that is sell by free of cost. It is the unique thing that we hadn't see in any other shop.



                                                    AYAZ BOOK DEPOT

INTRODUCTION:-
It is situated in latifabad #11.Its owner is M.Riyaz.He done is B.A in 1974.This shop is here about 30 years.This is their own shop.This shop have no any salesmen,the two brothers running this shop.

BOOKS:-
Area wise school coures are available here like The Gardenia School and The LatifNiazi High School.They sell single book as well as set of books.There are book of no pakg.Second handed books are also available here.Guides, solved papers,and reference books also available.Allstationaries,novels,digests,general books are available here.According to owner,guides are more expensive then solved papers.so costumers prefer solved papers then guides.

PUBLISHERS:-
Government school books of sindh text book board also available here.Otherwise GABA,OXFORD as well as school publishers books are sell out here.

EXTRA EDITION:-
It has its own seprate general store and photostate shop in extra edition.


                                       NASEEM BOOK DEPOT

INTRODUCTION:-
It is the most oldest shop here.It is situated here from 36 years.Its owner is M.Naseem.It is their own shop and basically it is running by father and his son.No any salesmen is working here.

BOOKS:-
Books of all schools of area like GARDENIA GRAMMER SCHOOL,LATIF NIAZI HIGH SCHOOL,MUNAWWER FOUNDATION PUBLIC SCHOOL,NASIR PUBLIC SCHOOL and so on.Most expensive course is of MUNAWWER FOUNDATION SCHOOL and less expensive books are osahbabpublishers.Courses are available here in sets.Govt and private books both are available here.Guides of XI and XII are also available here.There is no any general books,university books and colleges books.Newrefrence books are available here that are published in 2014,Some of their names are (CHEMISTRY:Maktab-e-Faridi new edition of 260rs and MATHS:Iqra Publishers of 320rs)

PUBLISHERS:-
Its publishers are REHBAR,GABA,OXFORD,BABA FAIZ,WHITE RANGE and PARAMOUNT publishers.



                                 UNIVERSAL BOOK DEPOT

INTRODUCTION:-
It is situated in city and it is the most oldest shop here.It spends 70 years here because it is started in 1953.Its owner is MirzaAyazMughal.He is basically an engineer.He did his engineering from dawood university karachi.This shop have 12 salesmen.

BOOKS:-
All school books are available here except THE CITY SCHOOL and BEACON PUBLIC SCHOOL.In addition all university books,colleges books and 0/A level books,MCAT and ECAT books,general books and novels are also available here.

PUBLISHERS:-
Its has mostly all publishers.

ITS UNIQUENESS:-
Its uniqueness is that it has variety of different encyclopedias of famous cities,famouspeople,milk encyclopedia etcetc

EXTRA EDITION:-
It has its own seprate gift shop,seprate office stationary portion at ground floor and seprate electrical shop.



AZAM BOOK DEPOT

INTRODUCTION:-
This shop is on second number after universal book depot.It is situated in 1910.Its owner name is M.Basit and he did his B.Com from Sindh College of Commerce.

BOOKS:-
This shop has govt and private books.Area wise school books are available here in full sllybus sets .Private books of oxford publishers sell out mostly.Only school and colleges books,Olevel books are available here.Alevel books and university books are not available here.General books like poetry books, recepi books are also not available here.Other books like scientific dictionary,sindhicadictionary,medical dictionary, idioms dictionary,guides are also available.



                                              REHBAR PUBLISHERS

INTRODUCTION:-
This shop is situated on risalahroad.It is established here from 15 years.It has only 3 salesamen.

BOOKS:-
There are variety of school books,collegebooks,university books and O/Alevelbooks,generalbooks,poetry books and english novels like THREE CUPS OF TEA by GREG MORTENSON,WHITE MUGHALS by WILLIAM DALRYMPLE,AUTOBIOGRAPHY of JAWAHAR LAL NEHRU is also available here . They sell only single books not sllybus sets or not govtbooks.There are also no stationaries and registers or copies.One thing is that the shop has all books in only englishlanguage.Urdu books are only included in school books.Books of MODEL SCHOOL,ST MARRY SCHOOL,ST BONAVENCHOR are sell here.no any type of guides r sell here.

PUBLISHERS:-
This shop has its own publishers that are REHBAR,READER and LINK publishers.Most expensive books are of link publishers that is started from 250 rupees and the less expensive books are of rehbar publishers that is started from 50 rupees.



NASEEM BOOK DEPOT

INTRODUCTION:-
It is also the oldest shop situated here from 1948.It is the family business of naseem brothers.Its owner name is Khurram Naseem,he is graduated from C.M.H.This shop have 8 salesmen.

BOOKS:-
Only 50% to 60% school books are available here of EXCELLENCE SCHOOL,MERITORIOUS SCHOOL,5STAR PUBLIC SCHOOL,ST BONAVENCHOR and ST MARRY SCHOOL.All university books,JAVA2,MCAT,ECAT and english language books are available here.No any general books,guides and O/Alevel books are here. sindhi books are also available.Most expensive books are of                           ST.BONAVENCHOR,OXFORD and GABA and less expensive are od 5STAR and MERITORIOUS SCHOOL.This shop contain no packge system.

PUBLISHERS:-
MAKER publishers,SILVER,OXFORD and GABA publishers....
THE END