This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi
Investigative Report
2k12
Investigative Report
2k12
گورنمنٹ گرلز پائلٹ ہائی اسکول حیدرآباد
امبرین فیاض
تعلیم اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ حیدرآباد کے تعلیمی اداروں میں کچھ تعلیمی ادارے بہت اہمیت کے حامل ہیں اور وہ ایک تاریخی پس منظر بھی رکھتے ہیں ۔ گورنمنٹ گرلز پائلٹ ہائی اسکول حیدرآباد بھی انہیں میں شامل ہے جو کہ میرا ہائی اسکول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ اس اسکول کی بنیادی ایک ہندو مفکر اور اسکالر سادھو واسوانی نے رکھی ۔
سادھو واسوانی 25 نومبر1879 حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں ہی حاصل کی ۔ بی اے 1899 میں بمبئی یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ بی ۔ اے کی تعلیم کے بعد انہوں نے اٹلس اسکالر شپ حاصل کی اور ڈی ۔ جی سندھ کا لج کراچی میں دکشنہ فیلو کے فرائض سر انجام دئیے اور ساتھ ہی ایم ۔ اے کی تعلیم بھی جاری رکھی ۔ سادھو واسوانی نے اپنی پوری زندگی تعلیم کے لیے وقف کر دی تھی ۔ ایم ۔اے کی تعلیم کے بعد 1903 میں انہوں نے بمبئی کالج کلکتہ میں ہسٹری اور فلسفی کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔1908 میں کراچی آگئے اور ڈی۔ جی سائنس کالج سے منسلک ہوگئے ۔1908 میں وہ 86 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔ انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں ۔ 2011 میں پونہ میں درشن میوزیم کو ان کے نام سے مختص کر دیاگیا ۔یہ ان کی تعلیم کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیاگیا تھا ۔
سادھو واسوانی نے لندن ، امریکہ ، اور انڈیا جیسے بڑے شہروں میں بھی اسکول بنائے ۔ میرا ہائی اسکول بھی انہیں کا وشوں کا نتیجہ ہے ان کو اس کو ششوں کو ہندو برادری نے بہت سراہا ۔ اسکول کی پہلی ہیڈ مسٹریس ہیرا بائی تھی انہوں نے انگلش میں ایم۔ اے کیا ہوا تھا وہ سا دھو واسوانی کی بھابھی تھیں ۔ انہوں نے 1942 سے 1947 تک اسکول کا چارج سنبھالا ۔ شروعات میں اسکول کی 5 کلاسیں تھی اور 7 اساتذہ پڑھاتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اسکول کے مالک سادھو واسوانی نے گورنمنٹ سے درخوست کی کہ اس اسکول کو National کر دیاجائے۔ اکتوبر 1948 میں اس وقت کے ڈی۔ پی ۔ آئی علامہ عمر بن محمد نے تولا رام ہائی اسکول کی بلڈنگ کے ساتھ میرا ہائی اسکول کی بلڈنگ متصل کر دی ۔ گورنمنٹ نے جب اسکول کا چارج لیا تو اسکول کا نام گرلز پائلیٹ ہائی اسکول کر دیاگیا۔ بہت سے لوگ آج بھی اے میرا ہائی اسکول کے نام سے ہی جانتے ہیں دراصل یہ نام سادھو واسوانی نے میرابائی جو کہ مندروں میں بھجن گاتی تھی ان سے عقیدت میں رکھا تھا ۔
1952 میں آپا شمس النساء عباسی اسکول کی ہیڈمسٹریس بنی ۔ وہ تعلیم عام کر نے کا جذبہ دل میں رکھتی تھی۔ اس وقت کچھ ہی گھرانے ہوتے تھے جو لڑکیوں کو پڑھنے کے لیے بھیجتے تھے ۔ 1953 میں آپا شمس عباسی نے اپنے بھائی محمد اکبر قاضی جوکہ وزیر تعلیم تھے ان کی مدد سے اسکول کو مکمل تعمیر کروایا اور ایک ہوسٹل بھی تعمیرکروایا جہاں دور دراز علاقوں سے آئی لڑکیوں کو رہنے کی سہولت دی گئی ۔یہ ایک ہائی اسکول تھا آپا شمس عباسی چاہتی تھی کہ لڑکیاں مزید پڑھے تو انہوں نے ایک کالج کے مقام کے لیے جدو جہد شروع کر دی ۔ کافی مشکلات کے بعد انہوں نے شام کی شفٹ میں لڑکیوں کے لیے کالج کی شروعات کی ۔ علم ایک روشنی ہے وہ اپنی راہیں خود تلاش کرنا جانتا ہے ۔ کالج میں جب طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا تو کالج کو دوسری بلڈنگ میں منتقل کردیا گیا۔ اور اس کالج کو گورنمنٹ گرلز زبیدہ کالج کا نام دیاگیا آج حیدرآباد کے بڑے کالجز میں شمار کیاجاتا ہے ۔ وہ بھی اسی اسکول کی بدولت وجود میں آیا تھا ۔
وقت کے ساتھ تعلیم عام ہوتی گئی ہاسٹل جس وجوہات پر بنا یاگیا تھا کہ لڑکیاں دور دراز سے آتی تھی جب تعداد کم ہوئی تو اسے 1982 میں بند کردیاگیا آج اس ہاسٹل کی جگہ پرائمر ی سیکشن کی کلاسسز ہوتی ہیں ۔
اس اسکول نے بہت سے بڑے نام پیدا کئے ہیں جن میں سے میڈم آفتا ب ، مہتاب چنا شامل ہیں یہیں سے پڑھی ہوئی طالبات آج مہرا ن یونیورسٹی اور لمس یونیورسٹی میں پروفیسر کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ۔ جب مجھے اس اسکول میں جانے کاموقع ملا اور میں گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو اسکول کی عمارت دیکھ کر یہ سو چے بغیر نہ رہ سکی اتنی پرانی عمارت لیکن آج بھی اتنی پر وقار حالات میں موجود ہے ۔ اسکول کی اس وقت ہیڈ مسٹریس آپا شاہدہ عزیزقریشی ہیں بہت ہی نرم خواور اچھے مزاج کی خاتو ن ہیں اوران کی باتون سے اندازہ ہوا کہ وہ تعلیم کو مزید بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے کا تعلیمی معیار اچھا تھا لیکن تعلیمی رحجان نہیں تھا جبکہ آج تعلیم عام ہوچکی ہے لیکن اب وہ معیار نہیں رہا ۔ اسکول میں بائیو لوجی ، فزکس اور کیمسٹری کی لیبارٹری کے ساتھ ،ڈ رائنگ ہال اور لائبر یری بھی موجود ہے ۔ سندھی ، اردواور انگلش تینوں میڈیم ہے اس کیساتھ طلبات کو سالانہ 2500 روپے وظیفہ بھی ملتاہے جوکہ حاضری کی بنا پر دیاجاتا ہے ۔ کتابیں گورنمنٹ کی جانب سے مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور سیلبس سندھ ٹیکسٹ بک پڑھا یاجاتاہے ۔
اسکول کاتعمیراتی کام کافی حد تک رہتا ہے جب میں نے اسکول کاجائزہ لیاتو دیکھا ایک بلکل نئی عمارت بنی ہوئی لیکن اس کو ابھی تک استعمال میں لایاگیا ۔ ہیڈ مسٹریس سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اسکا چارج ابھی تک ہمارے ہاتھ میں نہیں دیا گیا ، بہت جلد ہمیں مل جائے گا توپرائمر ی ، سکیشن کو اس بلڈنگ میں منتقل کر دیاجائیگا ۔ اور پرائمری سیکشن کو کینٹین بنا دیاجائیگا۔ جہاں پر طلبات آرام سے بیٹھ کر کھایاپیا کریں گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ اسکول میں زیادہ تر غریب ماں باپ کے بچے آتے ہیں انہیں بھی وہی سہولیات میسر ہونی چاہیے جوان کا حق بھی اور اس سے انہیں اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ بھی آئیگا۔
ایسے اسکول ہمارے ملک کے لیے قیمتی اثاثوں سے کم نہیں ہیں ۔
دی ہوپ فل اسکول
تاریخی اسکولوں کی معلومات اکھٹا کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ تولگا ہی چکی تھی کہ جہاں تعلیم کو فروغ دینے والے لوگ مو جود ہیں وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ وقت گذاری کے لیے اور اپنے مفاد کی خاطر بڑے عہدوں پر فائز ہیں ۔
دی ہوپ فل اسکول 1883 میں ان بچوں کے لیے تعمیر کروایاگیا تھا جو کہ غریب تھے اورتعلمے حاسل کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں تھاان کے پاس دوسو طالبات تھے ۔ اس وقت جو کہ تعلیم حاصل کررہے تھے اسی اسکول سے متصل ہاسٹل بھی تھا کیونکہ دور دراز سے آئے بچے اسکول پڑھنے کے ساتھ ہاسٹل میں رہائش کرسکے ۔ The Poor Asylum کے نام سے وہ ہاسٹل بنایاگیا تھا لیکن آج اس ہاسٹل کو ناجائز طریقے سے ضبط کر لیاگیا ہے اردو میڈیم اسکول ہے اس اسکول کو پاکستان بننے کے بعد گورنمنٹ اسکول بنا دیاگیا ۔ 1975 تک یہ بوائز اسکول تھا لیکن ذوالفقار بھٹو کو دور حکومت میں انہوں نے اسے گر لز اسکول بنا دیا اورانہوں نے یہ اقدام اٹھایا کہ دوپہر کی شفٹ تعلیم بالغان کو فروغ دیا تاکہ تعلیم مزید عام ہوسکے ۔آج کل جہاں صبح میں لڑکوں کی کلاسیں لگتی ہیں ساتھ میں لڑکیوں کا پرائمری سیکشن جبکہ دوپہر کی شفٹ میں لڑکیوں کا ہائی اسکول ہے ۔
اسوقت یہاں کی ہیڈ مسٹریس دلشاد بلو چ ہیں پہلے کے مقابلے اب یہاں طالبات کی تعداد میں بہت کمی آچکی ہے ۔ اس اسکول میں ایک بہت بڑی لائبر یری موجود تھی لیکن وہ اب ختم ہوچکی ہے ۔ سائنس کی لیبارٹری موجود ہے جہاں طالبات اپنا کام و غیرہ کرتے ہیں جن طالبات کی حاضیر 85%تک ہوا نہیں سالانہ وظیفہ ملتاہے ۔
اگر دیکھا جائے تو جتنا پرانا یہ اسکول ہے اس لحاظ سے اس کی تاریخ بھی اتنی ہی وسیع ہوگی ۔ لیکن یہاں کی انتظامیہ کی لاپرواہی کی یہ انتہا دیکھنے کو ملی کہ ان کے پاس بتانے کو ہی کچھ ہی نہیں تھا سوائے اس بات کے پہلے جب الاؤنسز نہیں ملتے ۔ اسکول کی عمارت کی بات کی جائے تو عمارت کی حالت کچھ خاطر خواہ نہیں گراؤنڈ فلور پر کلاسیں ہوتی ہیں اوپر ی منزل پوری طرح سے بند کر دی گئی ہے وہاں کلاسیں نہیں ہوتی ، اتنے بڑے رقبے پر بنا یہ اسکول اکثر سیاسی پارٹیوں کے پروگراموں کے لیے استعمال کیاجاتا ہے ۔
امبرین فیاض
تعلیم اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ حیدرآباد کے تعلیمی اداروں میں کچھ تعلیمی ادارے بہت اہمیت کے حامل ہیں اور وہ ایک تاریخی پس منظر بھی رکھتے ہیں ۔ گورنمنٹ گرلز پائلٹ ہائی اسکول حیدرآباد بھی انہیں میں شامل ہے جو کہ میرا ہائی اسکول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ اس اسکول کی بنیادی ایک ہندو مفکر اور اسکالر سادھو واسوانی نے رکھی ۔
سادھو واسوانی 25 نومبر1879 حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں ہی حاصل کی ۔ بی اے 1899 میں بمبئی یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ بی ۔ اے کی تعلیم کے بعد انہوں نے اٹلس اسکالر شپ حاصل کی اور ڈی ۔ جی سندھ کا لج کراچی میں دکشنہ فیلو کے فرائض سر انجام دئیے اور ساتھ ہی ایم ۔ اے کی تعلیم بھی جاری رکھی ۔ سادھو واسوانی نے اپنی پوری زندگی تعلیم کے لیے وقف کر دی تھی ۔ ایم ۔اے کی تعلیم کے بعد 1903 میں انہوں نے بمبئی کالج کلکتہ میں ہسٹری اور فلسفی کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔1908 میں کراچی آگئے اور ڈی۔ جی سائنس کالج سے منسلک ہوگئے ۔1908 میں وہ 86 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔ انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں ۔ 2011 میں پونہ میں درشن میوزیم کو ان کے نام سے مختص کر دیاگیا ۔یہ ان کی تعلیم کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیاگیا تھا ۔
سادھو واسوانی نے لندن ، امریکہ ، اور انڈیا جیسے بڑے شہروں میں بھی اسکول بنائے ۔ میرا ہائی اسکول بھی انہیں کا وشوں کا نتیجہ ہے ان کو اس کو ششوں کو ہندو برادری نے بہت سراہا ۔ اسکول کی پہلی ہیڈ مسٹریس ہیرا بائی تھی انہوں نے انگلش میں ایم۔ اے کیا ہوا تھا وہ سا دھو واسوانی کی بھابھی تھیں ۔ انہوں نے 1942 سے 1947 تک اسکول کا چارج سنبھالا ۔ شروعات میں اسکول کی 5 کلاسیں تھی اور 7 اساتذہ پڑھاتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اسکول کے مالک سادھو واسوانی نے گورنمنٹ سے درخوست کی کہ اس اسکول کو National کر دیاجائے۔ اکتوبر 1948 میں اس وقت کے ڈی۔ پی ۔ آئی علامہ عمر بن محمد نے تولا رام ہائی اسکول کی بلڈنگ کے ساتھ میرا ہائی اسکول کی بلڈنگ متصل کر دی ۔ گورنمنٹ نے جب اسکول کا چارج لیا تو اسکول کا نام گرلز پائلیٹ ہائی اسکول کر دیاگیا۔ بہت سے لوگ آج بھی اے میرا ہائی اسکول کے نام سے ہی جانتے ہیں دراصل یہ نام سادھو واسوانی نے میرابائی جو کہ مندروں میں بھجن گاتی تھی ان سے عقیدت میں رکھا تھا ۔
1952 میں آپا شمس النساء عباسی اسکول کی ہیڈمسٹریس بنی ۔ وہ تعلیم عام کر نے کا جذبہ دل میں رکھتی تھی۔ اس وقت کچھ ہی گھرانے ہوتے تھے جو لڑکیوں کو پڑھنے کے لیے بھیجتے تھے ۔ 1953 میں آپا شمس عباسی نے اپنے بھائی محمد اکبر قاضی جوکہ وزیر تعلیم تھے ان کی مدد سے اسکول کو مکمل تعمیر کروایا اور ایک ہوسٹل بھی تعمیرکروایا جہاں دور دراز علاقوں سے آئی لڑکیوں کو رہنے کی سہولت دی گئی ۔یہ ایک ہائی اسکول تھا آپا شمس عباسی چاہتی تھی کہ لڑکیاں مزید پڑھے تو انہوں نے ایک کالج کے مقام کے لیے جدو جہد شروع کر دی ۔ کافی مشکلات کے بعد انہوں نے شام کی شفٹ میں لڑکیوں کے لیے کالج کی شروعات کی ۔ علم ایک روشنی ہے وہ اپنی راہیں خود تلاش کرنا جانتا ہے ۔ کالج میں جب طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا تو کالج کو دوسری بلڈنگ میں منتقل کردیا گیا۔ اور اس کالج کو گورنمنٹ گرلز زبیدہ کالج کا نام دیاگیا آج حیدرآباد کے بڑے کالجز میں شمار کیاجاتا ہے ۔ وہ بھی اسی اسکول کی بدولت وجود میں آیا تھا ۔
وقت کے ساتھ تعلیم عام ہوتی گئی ہاسٹل جس وجوہات پر بنا یاگیا تھا کہ لڑکیاں دور دراز سے آتی تھی جب تعداد کم ہوئی تو اسے 1982 میں بند کردیاگیا آج اس ہاسٹل کی جگہ پرائمر ی سیکشن کی کلاسسز ہوتی ہیں ۔
اس اسکول نے بہت سے بڑے نام پیدا کئے ہیں جن میں سے میڈم آفتا ب ، مہتاب چنا شامل ہیں یہیں سے پڑھی ہوئی طالبات آج مہرا ن یونیورسٹی اور لمس یونیورسٹی میں پروفیسر کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ۔ جب مجھے اس اسکول میں جانے کاموقع ملا اور میں گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو اسکول کی عمارت دیکھ کر یہ سو چے بغیر نہ رہ سکی اتنی پرانی عمارت لیکن آج بھی اتنی پر وقار حالات میں موجود ہے ۔ اسکول کی اس وقت ہیڈ مسٹریس آپا شاہدہ عزیزقریشی ہیں بہت ہی نرم خواور اچھے مزاج کی خاتو ن ہیں اوران کی باتون سے اندازہ ہوا کہ وہ تعلیم کو مزید بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے کا تعلیمی معیار اچھا تھا لیکن تعلیمی رحجان نہیں تھا جبکہ آج تعلیم عام ہوچکی ہے لیکن اب وہ معیار نہیں رہا ۔ اسکول میں بائیو لوجی ، فزکس اور کیمسٹری کی لیبارٹری کے ساتھ ،ڈ رائنگ ہال اور لائبر یری بھی موجود ہے ۔ سندھی ، اردواور انگلش تینوں میڈیم ہے اس کیساتھ طلبات کو سالانہ 2500 روپے وظیفہ بھی ملتاہے جوکہ حاضری کی بنا پر دیاجاتا ہے ۔ کتابیں گورنمنٹ کی جانب سے مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور سیلبس سندھ ٹیکسٹ بک پڑھا یاجاتاہے ۔
اسکول کاتعمیراتی کام کافی حد تک رہتا ہے جب میں نے اسکول کاجائزہ لیاتو دیکھا ایک بلکل نئی عمارت بنی ہوئی لیکن اس کو ابھی تک استعمال میں لایاگیا ۔ ہیڈ مسٹریس سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اسکا چارج ابھی تک ہمارے ہاتھ میں نہیں دیا گیا ، بہت جلد ہمیں مل جائے گا توپرائمر ی ، سکیشن کو اس بلڈنگ میں منتقل کر دیاجائیگا ۔ اور پرائمری سیکشن کو کینٹین بنا دیاجائیگا۔ جہاں پر طلبات آرام سے بیٹھ کر کھایاپیا کریں گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ اسکول میں زیادہ تر غریب ماں باپ کے بچے آتے ہیں انہیں بھی وہی سہولیات میسر ہونی چاہیے جوان کا حق بھی اور اس سے انہیں اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ بھی آئیگا۔
ایسے اسکول ہمارے ملک کے لیے قیمتی اثاثوں سے کم نہیں ہیں ۔
دی ہوپ فل اسکول
تاریخی اسکولوں کی معلومات اکھٹا کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ تولگا ہی چکی تھی کہ جہاں تعلیم کو فروغ دینے والے لوگ مو جود ہیں وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ وقت گذاری کے لیے اور اپنے مفاد کی خاطر بڑے عہدوں پر فائز ہیں ۔
دی ہوپ فل اسکول 1883 میں ان بچوں کے لیے تعمیر کروایاگیا تھا جو کہ غریب تھے اورتعلمے حاسل کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں تھاان کے پاس دوسو طالبات تھے ۔ اس وقت جو کہ تعلیم حاصل کررہے تھے اسی اسکول سے متصل ہاسٹل بھی تھا کیونکہ دور دراز سے آئے بچے اسکول پڑھنے کے ساتھ ہاسٹل میں رہائش کرسکے ۔ The Poor Asylum کے نام سے وہ ہاسٹل بنایاگیا تھا لیکن آج اس ہاسٹل کو ناجائز طریقے سے ضبط کر لیاگیا ہے اردو میڈیم اسکول ہے اس اسکول کو پاکستان بننے کے بعد گورنمنٹ اسکول بنا دیاگیا ۔ 1975 تک یہ بوائز اسکول تھا لیکن ذوالفقار بھٹو کو دور حکومت میں انہوں نے اسے گر لز اسکول بنا دیا اورانہوں نے یہ اقدام اٹھایا کہ دوپہر کی شفٹ تعلیم بالغان کو فروغ دیا تاکہ تعلیم مزید عام ہوسکے ۔آج کل جہاں صبح میں لڑکوں کی کلاسیں لگتی ہیں ساتھ میں لڑکیوں کا پرائمری سیکشن جبکہ دوپہر کی شفٹ میں لڑکیوں کا ہائی اسکول ہے ۔
اسوقت یہاں کی ہیڈ مسٹریس دلشاد بلو چ ہیں پہلے کے مقابلے اب یہاں طالبات کی تعداد میں بہت کمی آچکی ہے ۔ اس اسکول میں ایک بہت بڑی لائبر یری موجود تھی لیکن وہ اب ختم ہوچکی ہے ۔ سائنس کی لیبارٹری موجود ہے جہاں طالبات اپنا کام و غیرہ کرتے ہیں جن طالبات کی حاضیر 85%تک ہوا نہیں سالانہ وظیفہ ملتاہے ۔
اگر دیکھا جائے تو جتنا پرانا یہ اسکول ہے اس لحاظ سے اس کی تاریخ بھی اتنی ہی وسیع ہوگی ۔ لیکن یہاں کی انتظامیہ کی لاپرواہی کی یہ انتہا دیکھنے کو ملی کہ ان کے پاس بتانے کو ہی کچھ ہی نہیں تھا سوائے اس بات کے پہلے جب الاؤنسز نہیں ملتے ۔ اسکول کی عمارت کی بات کی جائے تو عمارت کی حالت کچھ خاطر خواہ نہیں گراؤنڈ فلور پر کلاسیں ہوتی ہیں اوپر ی منزل پوری طرح سے بند کر دی گئی ہے وہاں کلاسیں نہیں ہوتی ، اتنے بڑے رقبے پر بنا یہ اسکول اکثر سیاسی پارٹیوں کے پروگراموں کے لیے استعمال کیاجاتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment