نام : فرقان الحق ڈار
ولدیت : اعجاز الحق
جماعت : بی ایس-سال سوئم
شعبہ : ذرائع ابلاغِ عامہ
رول نمبر : 2k12 / MC / 33
عنوانِ تفویض : حیدرآباد پریس کلب کی تاریخ
تاریخ : 19 / 05 / 2014
استادِ محترم : سہیل سانگی
تحریر و تحقیق: فرقان الحق ڈار
تاریخِ پریس کلب، حیدرآباد
پریس کلب صحافت اور میڈیا سے وابستہ افراد کی ایسی تنظیم ہوتی ہے جہاں صحافی حضرات ادارتی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اچھے روابط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پریس کلب صحافیوں پر ریاستی ظلم و جبر، ان کے حقوق کی پامالی اور پرتشدد واقعات کیخلاف آواز اٹھانے کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ نہ صرف صحافیوں بلکہ بجلی، پانی، گیس اور بھوک سے پریشان حال عوام، کسی مقتول کے لواحقین، تنخواہوں سے محروم مزدور طبقہ اور سیاسی مظاہرین سب ہی اپنی فریاد لیے پریس کلب کا رخ کرتے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سندھ کے دارالخلافہ حیدرآبادمیں صحافت کے گِنے چُنے نام تھے جن میں اختر علی شاہ کا نام سرِفہرست آتا ہے۔ اختر علی شاہ اور ان کے ساتھیوں کی کاوشوں سے 1954ء میں ’’اکھاڑۂ پہلوانی‘‘ کی جگہ حیدرآباد پریس کلب قائم ہوا۔ 1965ء میں شیخ محمد مبین پریس کلب کے صدر بنے اور بلدیہ حیدرآباد سے کلب کی آراضی میں اضافہ کرایا۔ 1976ء میں حاصل شدہ اراضی پر اُس وقت کے صدر نثار چنہ، سیکریٹری ظہیر احمداور خازن علی حسن نے عمارت کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا اور اقبال حامد کو تعمیراتی کمیٹی کا چےئرمین مقرر کیا گیا جو کہ 1961ء میں حیدرآباد پریس کلب کے صدر رہ چکے تھے۔ ضیا الحق کے مارشل لاء کے زمانے میں پورے ملک میں صحافیوں کو سختیوں اور زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی تشدد کے واقعات بھی منظرِ عام پر آئے جبکہ کئی صحافیوں کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔ اس اثناء میں حیدرآباد کے صحافی بھی اس کٹھن مرحلے کا شکار رہے جس کے باعث پریس کلب کا تعمیراتی کام جُوں کا تُوں رہا۔ 87ء میں وزیرِ اعلیٰ غوث علی شاہ نے حیدرآباد پریس کلب کی سنگِ بنیاد رکھی جس کے بعد 88ء میں صدرِ پریس کلب سہیل سانگی صاحب نے نقشہ مکمل کرانے کے بعد عمارت کی تعمیر کا اجازت نامہ حاصل کرلیا۔ سینئر صحافی سہیل سانگی صاحب کے دورِ صدارت میں ہی ایک پالیسی وضع کی گئی جس کے تحت خفیہ اداروں اور ایجنسیوں کے ستائے ہوئے افراد کو بلا معاوضہ پریس کانفرنس کی اجازت دی گئی، یہ واقعہ پریس کلب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ جانا جاتا ہے۔ حیدرآباد پریس کلب کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 29 جولائی 1991ء کو ہوا جو دسمبر 1992ء میں مکمل ہوئی۔
پریس کلب کی تزئین و آرائش نہایت خوبصورت انداز سے کی گئی۔ اس کے اندر ایک خوبصورت باغیچہ بنا ہوا ہے جہاں صحافی سردی کے موسم میں سورج کی گرمی کے ساتھ چائے نوش فرماتے نظر آتے ہیں۔ گراؤنڈ فلور پر واقع ہال نمائشِ کتب کیلئے کرایہ پر دیا ہوا ہے جس سے کلب کے اخراجات پورے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ پہلی منزل پر ایک ہال پریس کانفرنس کیلئے مختص کر رکھا ہے جبکہ اسی منزل پر کینٹین بھی ہے جہاں صحافیوں کیلئے بارعایت کھانا دستیاب ہے جبکہ پورے شہر میں اس سے سستی اور معیاری چائے ملنا نامناسب ہے۔
دوسری منزل پر واقع کانفرنس ہال میں سیمینار، لیکچرز اور بعض اوقات شادی بیاہ کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔ اسی منزل پر بہت سے کمرے صحافیوں کی تفریح کیلئے قائم ہیں جن میں ایک کمرہ تاش کھیلنے کیلئے، ایک کمرہ جمنازیم کیلئے، ایک کمرہ کمپیوٹر روم اور ایک کمرہ بطور لائبریری صحافیوں کو سہولیات مہیا کر رہا ہے۔
پریس کلب کی تاریخ میں کئی انوکھے اور دردناک واقعات بھی دیکھنے میں آئے، کبھی کئی گھنٹے طویل بھوک ہڑتال کی صورت میں اور کبھی ظلم کے شکار لوگوں کی خود سوزی کی شکل میں۔ منو بھیل نامی شخص نے کئی مہینے پریس کلب پر بھوک ہڑتال کا مظاہرہ کیا۔ ایک دفعہ سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ملازم بھورو چھلگری نے یہاں خودسوزی کی کوشش کی۔
حیدرآباد پریس کلب میں سالانہ انتخابات کے ذریعے عہدیدار منتخب کیے جاتے ہیں۔ سال 2013-14 کے انتخابات میں آج ٹی وی کے بیورو چیف حمیدالرحمٰن صدر، روزنامہ عبرت کے صحافی جے پرکاش جنرل سیکریٹری، اسحاق منگریو نائب صدر، منصور مری جوائنٹ سیکریٹری جبکہ یوسف ناگوری مالیاتی سیکریٹری منتخب ہوئے۔ جلد ہی موجودہ مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ الیکشن کا دور چلے گا پھر نئے منتظمین اور عہدیدار منتخب ہو کر آئیں گے مگر سب کا مقصد یہی ہوگا کہ اپنے صحافی بھائیوں کے حقوق اور انہیں درپیش مسائل کیلئے آواز بلند کی جائے۔
This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi
بہت خوب
ReplyDelete