Investigative Report
Shaharyar Shaikh
2K12 / MC / 99
حیدرآباد کے کوچنگ سینٹرز کی موجودہ اور گزشتہ صورتحال
بے شک ہر دور میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کئی شخصیات نے حیدرآباد سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ملکی سطح پر خو د کو ثابت کر دکھایاجبکہ وہ سہولیات اور آسائشات کا نام ونشان وجود میں نہ تھا جو آج ہر عام فہم طالبعلم کی زندگی میں موجودہے۔ایک طرف تعلیمی نظام کو بہتر سے بہترین بنانے کی غرض سے ہر دور میں مثبت اور ممکن کوشش کی گئی تو دوسری جانب اپنے کاروبار کو پروان چڑھانے کیلئے کوچنگ سینٹرز کو بھی فروغ دیا گیا ۔آج کے کسی بھی ایک کوچنگ سینٹر کا ماضی کے تمام سینٹرز سے موازنہ کرلیا جائے تو خاصا فرق دکھائی دے گا۔ اکیسوی صدی کے آغاز میں حیدرآباد شہر میں چند سینٹرز موجود تھے لیکن ۲۰۰۹ء میں جس برق رفتار سے یہ شہر عالیشان کوچنگ سینٹرز کی زینت بنا ہے وہ تبدیلی ہماری سوچ سے بالا تر ہے۔
حیدرآباد میں کچھ سال قبل تک سینٹرز کا قیام مختصر اور اراضی پر ممکن ہوتا تھا چونکہ انگلش ،کمپیوٹرکورسز اوردیگر ہنر کی فراہمی ہی اس کا ہدف تھی اور نہ ہی LUMHS جیسی کئی یونیورسٹیز کاانٹری ٹیسٹ لیا جاتاتھااس کے علاوہ اسکولز اور کالجز میں تعلیمی معیار ازحد بہتر تھا جس کے پیشِ نظر نہ ہی کسی طالبعلم کو ضرورت پیش آئی کہ وہ اپنے نصاب کو بہتر سمجھنے اور پڑھنے کیلئے سینٹرز کے دھکے کھاتا رہے۔ علاوہ ازیں تعلیم کے فروغ کاروبار کے بجائے عبادت سمجھا جاتا تھا ۔لیکن جس وقت میں ہمارے سرکاری اسکولز اور کالجز میں تعلیم کا نظام پستی کی جانب گامزن ہو ا اُسی لمحے سے ان سینٹرز نے اپنی کمر کسنی شروع کی چونکہ ان تمام سینٹرز کا قیام سرکاری اساتذہ کے قیام سے ہی وجود میں ہے۔۲۰۰۹ء تک حیدرآباد میں چند سینٹرزموجود تھے لیکن ۲۰۱۱ء میں کئی نامور سینٹرز وجود میںآئے جن میں AneesHasan, PremierAcademy, LEEDS, Student's Innاورs Kin سرِفہرست ہیں جہاں شروع میں طالبعلم کو متوجہ کرنے کیلئے کئی ایڈورٹاسمنٹ کی گئی اور زیادہ سے زیادہ ایڈمیشن کا حصول ممکن بنایا گیا لیکن موجودہ صورتحال کے مطابق اب ان سینٹرز میں تعلیم حاصل کرنا پہلے آیئے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر ممکن ہے۔Premierاور Leeds Academy جو کہ پہلے لینگویچ اور شورٹ کورسز کرواتے تھے لیکن ۲۰۱۱ء سے دونوں اعلیٰ ثانوی کی تعلیم بھی مہیا کر رہے ہیں اس کے برعکس ANEES HASSANاور دوسرے بڑے سینٹرز میں BBAاور MBAکی تعلیم بھی دی جارہی ہے۔
اگر غورو فکر کیا جائے تو پچھلے کچھ سالوں تک استقبالیہ مرد اورخواتین دونوں کا انتخاب کیا جاتا تھالیکن حیدرآباد کے تمام موجودہ سینٹرز میں استقبالیہ صرف او رصرف خواتین کو رکھا جاتا تھا ۔علاوہ ازیں دن بہ دن سینٹرز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ہر چھوٹے بڑے سینٹر کے لئے مشکلات کھڑی کردی ہیں جس کی بنا پر حیدرآباد کے تمام سینٹرز میں مینجمنٹ،مارکیٹینگ اور ٹیچنگ فیکلٹی کا انتخاب بے حد اطمینان بخش اور مثبت قدم ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوچنگ سینٹر ز موجودہ دور کی ضرورت بھی ہے اور کامیابی کا سبب بھی ۔یہی وجہ کہ حیدرآباد کے ہر چھوٹے بڑے ،مڈل کلاس ،اپر کلاس تمام علاقوں میں موجود کوچنگ سینٹرز میں طالبعلم کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے سبب اندرون سندھ سے آنے والے طلبہ و طالبات کو کوچنگ کلاسز اور دیگر شورٹ کورسز کرنے میں بے حد آسانی ہوئی ہے۔اس علاوہ کوچنگ سینٹرز کی طرف طالبعلم کا بڑھتا ہوا رجحان حیران کُن ہے بلکہ صورتحال ایسی ہے کہ کالج کی طرف رکُھ نہ کرنے والے اسٹوڈنٹس بھی سینٹرز کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے ANEES HASSAN کے ایڈمین منظور جمال کا کہنا تھا کہ اسٹوڈنٹس کا سینٹرز کو زیادہ ترجیح دینا اوتمام سینٹر ز کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کے باوجود ہر سینٹر میں ایڈمیشن کا فقدان نہیں جس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ تعلیم کہ ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات نے سینٹرز کو فیشن پوائنٹ بھی تصور کر لیا ہے جس کی بنا پر ہماری سوسائیٹیز میں کافی شعور آتا جارہا ہے۔علاوہ ازیں آجکل ہر کوچنگ سینٹر میں اسٹودنٹس کو اچھے سے اچھا ماحول دیاجارہا ہے۔
کوچنگ سینٹرز کی کارکردگی میں نمایاں تبدیلی ہر عام وفہم کے لئے کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی لوگ ان سے اختلاف کرتے ہیں چونکہ ہر سینٹر خو د کو منوانے کیلئے طالبعلم کے مستقبل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے رہا ہے جس کے سبب ہر سال اسٹوڈنٹس مختلف یونیورسٹیز میں میرٹ پر کامیاب ہوئے ہیں اس کے علاوہ پہلے کسی بھی سینٹر میں کیریئر کونسلنگ کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اب حیدرآباد کے کئی سینٹرز میں کیریئر کونسلنگ کی جاتی ہے جو کہ نوجوانوں کے مستقبل کیلئے مثبت پہلو ہے۔
P.T.O
Waqas Arain
2K12 / MC / 120
کوچنگ سینٹرز کھولنے سے پہلے اور بعد کے مسائل:۔
حیدآباد میں اس وقت بے شمار کوچنگ سینٹرز موجود ہیں ۔جن میں زیادہ تر لطیف آباد، ہیرآباد،آٹوبھان روڈ،صدر کے علاقوں میں ہیں۔ مجموئی طور پر اس وقت شہر میں ۸۰ کے قریب نامور کوچنگ سینٹرز موجود ہیں۔
کوچنگ سینٹرز کھولنے کے لیے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پرتا ہے۔جن میں صف اول
۱۔مقصد(Motives)
۲۔اسٹریکچر
۳۔فنانس
۴۔پبلسٹی(مشہوری)
۴۔ فیکلٹی اسٹاف
۵۔تجربہ کار صلاحیت
۱۔مقصد(Motives)
ابتداء میں کسی بھی کوچنگ سینٹرکو کھولنے کے لیے اس بات کا تعین کتنا لازم ہے کہ آپ کس طرز کا سینٹر کھولنا چارہے ہیں ۔ جس کے لیے Target of students ،فیکلٹی پہلا مقصد رکھا جاتا ہے۔اس حساب سے پھر ایک مائنڈ سیٹ بنایا جاتا ہے۔جسکے بعد جگہ کا تعین اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے۔
۲۔اسٹریکچر:۔
motives کے بعد اسٹریکچر دوسرا اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے۔جس میں جگہ کا تعین اور اس کی بناوت اہم ہوتی ہے۔اگر ایک معیاری قسم کا سینٹر کھولنا چا رہے ہیں اس کے لیے ایک اچھی جگہ کا تعین لازمی درکار ہوتا ہے،جیسے کہ حیدرآباد کا علاقہ آٹوبھان روڈ جو کہ ایک کمرشل علاقہ ہے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ایسی جگہ پر سینٹر کھولنے سے ایک ادارے کی پہچان بنتی ہے۔اس وقت آٹو بھان روڈ پر کوئی 10 سے15 ایسے نامور کوچنگ ادارے موجود ہیں۔کسی بھی سینٹر کی بنیا د رکھنے کے لیے اسڑیکچر بیحد اہمیت رکھتا ہے۔اسٹریکچر کے اچھے ہونے کے ساتھ فیکلٹی بھی اچھی (قابلیت)کی حامل ہونا لازمی ہے۔کیوں کہ اگر بلڈنگ اچھی ہو اور فیکلٹی بیکار ،یا اگر بلڈنگ بیکار اور فیکلٹی اچھی ہے تو شاگرد بہت کم ایسے سینٹرز میں داخلہ لیتے ہیں ۔
۳۔فنانس(پیسہ):۔یہ ایک نہایت ہی اہم چیزہے ۔motives اور structure کے بعد فنانس ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔آپ کے پاس کتنا پیسہ موجود ہے اور کتنی investment کرنا چارہے ہیں۔اگر عمارت کرائے پر لی جارہی ہے یا خریدی جارہی ہے اور وہ ایک کمرشل علاقے میں موجودہے تو اس کا کرایہ ۲لاکھ روپے ماہانہ ہے۔جیسے کے آٹوبھان روڈ پر واقع کوچنگ سینٹرز کا رنٹ ماہانہ ۲ لاکھ روپے ہے۔اس کے علاوہ ہیرآباد،صدر میں واقع کوچنگ سینٹرز کا کرایہ خاطر خواہ کم ہے۔اس کے بعد فرنیچر ،ملٹی میڈیا کلاسس کے انعقاد کے لیے بھی ٹھیک ٹھاک رقم درقار ہوتی ہے۔
۴۔فیکلٹی اسٹاف:۔
اچھی بلڈنگ کے ساتھ اب کوچنگ سینٹر کے لیے اچھی فیکلٹی رکھنا درکار ہوتی ہے۔کیوں کہ اگر آپ کے پاس اچھا اسٹریچر تو موجود ہے لیکن اچھی فیکلٹی موجود نہیں تو ساری محنت کرنا بے قار میں گئی۔شاگرد آج کل اچھی فیکلٹی سے متاثر ہوکر ہی سینٹر میں داخلہ لیتا ہے۔ اچھی فیکلٹی جوکہ شہر کے نامور یا سینئر ٹیچرز پر مشتمل ہو ،کوچنگ سینٹرز کی اولین کوشش ایسے نامور ٹیچرز پر مرکوز ہوتی ہے،جنہیں بعذ سینٹر مالکان اچھی آفر دے کر ہائر کرتے ہیں ۔جس طرح حیدرآباد کے بیشتر کوچنگ سینٹرز جن میں ،کنس اکیڈمی،انیس حسن،لیڈز اکیڈمی،اسٹیوڈنٹس ان،سی۔ٹی۔ایس،سامرہ کوچنگ سینٹر ز وغیرہ شامل ہیں ۔
۵۔پبلسٹی(مشہوری):۔مقصد،اسٹریکچر،فنانس،فیکلٹی اسٹاف کے بعد اب پبلسٹی اگلا اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے۔کس طرح سے کوچنگ سینٹر کی مشہوری کی جائے۔جس کے لیے پمفلٹس چھاپے جاتے ہیں،بینرز بنائے جاتے ہیں اور انہیں مختلف علاقوں میں لگا دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ انٹرینٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب ساء ٹس کے ذریعے بھی پبلیسٹی کی جاتی ہے۔بعذ اوقات کیبل چینلز کے ذریعے بھی اشتہارچلائے جاتے ہیں۔ جن سے شاگرد زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ان سب طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوچنگ سینٹرز کی پبلسٹی کی جاتی ہے۔
کوچنگ سینٹرز کو کھولنا ہی صرف ایک اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے بعد اس کو کس طرح ہے چلاناہے یہ ایک اور اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے ۔جس کے تجربہ کار مینجمنٹ کا ہونا لازمی ہوتا ہے جن کے پاس اس کام کا تجربہ ہو۔کوچنگ سینٹرز کھولنے کے بعد جن مسائل کا سامنہ کرنا پرتا ہے ان میں ،
منیجمنٹ ،صاف ماحول،رینٹ،یوٹلٹی بلزاور سیلری جیسے اہم مسائل درکار ہوتے ہیں
۱۔مینجمنٹ:۔
مینجمنٹ کا تجربہ کار ہونا بے حد ضروری ہے۔اگر منیجمنٹ اچھی نا ہو گی تو صاف ماحول سینٹر کے لیے قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔منیجمنٹ کو مثلا:۔شاگرد وں کو کس طرح ڈیل کرنا ہے،ہر کلاس میں کتنے شاگرد بٹھانے ہیں ،فیس میں کمی کے مسائل کس طرح حل کرنے ہیں ،ان کی حاضری لینا،کون ٹائم پر آرہا ہے اور کون لیٹ ،ہفتہ وار اور مہینہ وار ٹیسٹ کا باقاعدگی سے لینا ۔اس کے علا وہ انیس حسن کے ایڈمن منیجر (رضوان مجتباع)کے مطابق بعذ اوقات political interference کا سامنا کرنا پرتا ہے۔اکژر پارٹی کے لوگ فیس کنسیشن کے لیے آتے ہیں اور پارٹی کی بیس پر لڑائی جھگڑے پر بھی اتر آتے ہیں ۔جسے منجمنٹ کو ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پرتا ہے۔اور ایسے لوگوں کے لیے سیکیورٹی رکھنا پرتی ہے۔
۲۔ رینٹ(کرایہ):۔اگر بلڈنگ کرائے پر ہے تو اس کا کرایہ نکالنا ایک اہم مسئلہ ہے ۔جس کے لیے شروع کے چند سا ل سینٹر انتظامیہ کو نقصان برداشت کرنا پرتا ہے اور دو تین سال بعد جاکر منافع ہونا شروع ہوتا ہے۔
۳۔تنخواہ:۔ فیکلٹی ممبران،کلرکس،پٹے والے ،اسٹاف ان سب کی تنخواہ بر وقت ادا کرنا ہوتی ہے جو کہ اہم سنگین مسئلہ درکار ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ سینٹرز میں روزانہ کی بنیاد پر 500 روپے کے قریب چائے ،منرل واٹر کے الگ خرچے ہوتے ہیں جنہیں انتظامیہ کو یہ الگ سے برداشت کرنا ہوتا ہے۔
۳۔یوٹلٹی بلز:۔کوچنگ سینٹرز جوکہ عمومآ بڑی بڑی عمارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں دو سے تین منزلہ،جن کے ماہانہ لاکھوں روپوں میں بلز آجاتے ہیں جسے کہ لیڈز الیڈمی،استیوڈنٹس ان،سامرہ کوچنگ سینٹر یہ ایک نامور سینٹرز ہیں اور یوٹلٹی بلز ان کے لیے ایک اہم مسئلہ ہو تا ہے۔
در حقیقت کوچنگ سینٹرز کو کھولنا ہی صرف مشکل کام نہیں بلکہ اس کے بعد اور بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پرتا ہے۔
P.T.O
Furqaan-ul-Haq
2K12 / MC / 33
کوچنگ سینٹرز کے انتخاب میں طلباء اور اساتذہ کی ترجیحات
حیدرآباد میں گزشتہ 10 سالوں میں کوچنگ سینٹرز کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ لوگوں کی اس بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ تعلیمی اداروں میں خراب نظامِ تعلیم کوچنگ سینٹرز کے بڑھتے ہوئے رجحان کا سبب ہے جبکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ معیاری تعلیمی ادارے موجود ہونے کے باوجود طلبہ شوقیہ اور تفریح کیلئے کوچنگ سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں جب ہم نے طلباء اور اساتذہ کے تاثرات معلوم کیے کہ کوچنگ سینٹرز کے انتخاب میں ان کی کیا ترجیحات ہوتی ہیں ؟ تو ملے جلے تاثرات سامنے آئے۔
سرکاری تعلیمی اداروں اور نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ کی کوچنگ سینٹرمنتخب کرنے کی ترجیحات میں زمین اور آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔
ترجیحاتِ طلبۂ سرکاری ادارۂ تعلیم:
سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے سکول یا کالج میں تعلیمی نظام کا معیار زبوں حالی کا شکار ہے اسلئے بحالتِ مجبوری انہیں کوچنگ سینٹرز جانا پڑتا ہے۔
ان میں سے کچھ کی جانب سے کوچنگ سینٹر کی فیس کو مدنظر رکھا جاتا ہے کیونکہ بیشتر طلبہ کی مالی حیثیت فیس کی زیادتی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتی جسکی وجہ سے وہ گلی کوچوں میں کھلے کوچنگ سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں کے کئی طلبہ معیارِ تعلیم کو بھی ترجیح دیتے ہیں جو کہ انہیں سکول یا کالج میں میسر نہیں ہوتا اور وہ اپنی مالی حیثیت کی مخالفت کے باوجود کسی بڑے، نامور اور معیاری کوچنگ سینٹر میں داخلہ لیتے ہیں۔
ترجیحاتِ طلبۂ نجی ادارۂ تعلیم :
نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ زیادہ تر شغل کو ترجیح دیتے ہیں اور اُس کوچنگ سینٹر میں جاتے ہیں جہاں سب دوست داخلہ لیں۔
طلبہ کی ایک مخصوص تعداد لڑکیوں کے چکر میں بھی کوچنگ سینٹرز کا چناؤکرتی ہے۔اسی لئے اب تقریباً تمام کوچنگ سینٹرز میں خاتون استقبال کنندہ رکھنا کوچنگ سینٹرز کی اول حکمتِ عملی ہوتی ہے۔
کئی طالبِ علم تو صرف کوچنگ سینٹرز کے بڑھتے ہوئے رواج کو زندہ رکھنے اور اسے تقویت دینے کی غرض سے کوچنگ سینٹرز میں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
بہت سے طلباء کے مطابق کوچنگ سینٹر کے انتخاب کا حق اُن کے پاس نہیں بلکہ یہ فیصلہ اُن کے والدین کے ہاتھ میں ہے۔ والدین اپنی جانچ پڑتال اور تسلّی کے بعد کسی کوچنگ سینٹر میں اپنے بچوں کو داخلہ دلواتے ہیں۔
ترجیحاتِ طالبات :
طالبات کی اکثریت کے مطابق وہ نامور اور مشہور کوچنگ سینٹر کو ترجیح دیتی ہیں۔ جسکی وجہ اپنی دیگر ساتھیوں پر فوقیت حاصل کرنا ہوتا ہے۔
طالبات کی ایک خاص تعداد کا تعلق اسی طبقے سے ہے جن میں والدین کی مرضی سے کوچنگ سینٹر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi
2K12 / MC / 99
حیدرآباد کے کوچنگ سینٹرز کی موجودہ اور گزشتہ صورتحال
بے شک ہر دور میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کئی شخصیات نے حیدرآباد سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ملکی سطح پر خو د کو ثابت کر دکھایاجبکہ وہ سہولیات اور آسائشات کا نام ونشان وجود میں نہ تھا جو آج ہر عام فہم طالبعلم کی زندگی میں موجودہے۔ایک طرف تعلیمی نظام کو بہتر سے بہترین بنانے کی غرض سے ہر دور میں مثبت اور ممکن کوشش کی گئی تو دوسری جانب اپنے کاروبار کو پروان چڑھانے کیلئے کوچنگ سینٹرز کو بھی فروغ دیا گیا ۔آج کے کسی بھی ایک کوچنگ سینٹر کا ماضی کے تمام سینٹرز سے موازنہ کرلیا جائے تو خاصا فرق دکھائی دے گا۔ اکیسوی صدی کے آغاز میں حیدرآباد شہر میں چند سینٹرز موجود تھے لیکن ۲۰۰۹ء میں جس برق رفتار سے یہ شہر عالیشان کوچنگ سینٹرز کی زینت بنا ہے وہ تبدیلی ہماری سوچ سے بالا تر ہے۔
حیدرآباد میں کچھ سال قبل تک سینٹرز کا قیام مختصر اور اراضی پر ممکن ہوتا تھا چونکہ انگلش ،کمپیوٹرکورسز اوردیگر ہنر کی فراہمی ہی اس کا ہدف تھی اور نہ ہی LUMHS جیسی کئی یونیورسٹیز کاانٹری ٹیسٹ لیا جاتاتھااس کے علاوہ اسکولز اور کالجز میں تعلیمی معیار ازحد بہتر تھا جس کے پیشِ نظر نہ ہی کسی طالبعلم کو ضرورت پیش آئی کہ وہ اپنے نصاب کو بہتر سمجھنے اور پڑھنے کیلئے سینٹرز کے دھکے کھاتا رہے۔ علاوہ ازیں تعلیم کے فروغ کاروبار کے بجائے عبادت سمجھا جاتا تھا ۔لیکن جس وقت میں ہمارے سرکاری اسکولز اور کالجز میں تعلیم کا نظام پستی کی جانب گامزن ہو ا اُسی لمحے سے ان سینٹرز نے اپنی کمر کسنی شروع کی چونکہ ان تمام سینٹرز کا قیام سرکاری اساتذہ کے قیام سے ہی وجود میں ہے۔۲۰۰۹ء تک حیدرآباد میں چند سینٹرزموجود تھے لیکن ۲۰۱۱ء میں کئی نامور سینٹرز وجود میںآئے جن میں AneesHasan, PremierAcademy, LEEDS, Student's Innاورs Kin سرِفہرست ہیں جہاں شروع میں طالبعلم کو متوجہ کرنے کیلئے کئی ایڈورٹاسمنٹ کی گئی اور زیادہ سے زیادہ ایڈمیشن کا حصول ممکن بنایا گیا لیکن موجودہ صورتحال کے مطابق اب ان سینٹرز میں تعلیم حاصل کرنا پہلے آیئے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر ممکن ہے۔Premierاور Leeds Academy جو کہ پہلے لینگویچ اور شورٹ کورسز کرواتے تھے لیکن ۲۰۱۱ء سے دونوں اعلیٰ ثانوی کی تعلیم بھی مہیا کر رہے ہیں اس کے برعکس ANEES HASSANاور دوسرے بڑے سینٹرز میں BBAاور MBAکی تعلیم بھی دی جارہی ہے۔
اگر غورو فکر کیا جائے تو پچھلے کچھ سالوں تک استقبالیہ مرد اورخواتین دونوں کا انتخاب کیا جاتا تھالیکن حیدرآباد کے تمام موجودہ سینٹرز میں استقبالیہ صرف او رصرف خواتین کو رکھا جاتا تھا ۔علاوہ ازیں دن بہ دن سینٹرز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ہر چھوٹے بڑے سینٹر کے لئے مشکلات کھڑی کردی ہیں جس کی بنا پر حیدرآباد کے تمام سینٹرز میں مینجمنٹ،مارکیٹینگ اور ٹیچنگ فیکلٹی کا انتخاب بے حد اطمینان بخش اور مثبت قدم ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوچنگ سینٹر ز موجودہ دور کی ضرورت بھی ہے اور کامیابی کا سبب بھی ۔یہی وجہ کہ حیدرآباد کے ہر چھوٹے بڑے ،مڈل کلاس ،اپر کلاس تمام علاقوں میں موجود کوچنگ سینٹرز میں طالبعلم کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے سبب اندرون سندھ سے آنے والے طلبہ و طالبات کو کوچنگ کلاسز اور دیگر شورٹ کورسز کرنے میں بے حد آسانی ہوئی ہے۔اس علاوہ کوچنگ سینٹرز کی طرف طالبعلم کا بڑھتا ہوا رجحان حیران کُن ہے بلکہ صورتحال ایسی ہے کہ کالج کی طرف رکُھ نہ کرنے والے اسٹوڈنٹس بھی سینٹرز کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے ANEES HASSAN کے ایڈمین منظور جمال کا کہنا تھا کہ اسٹوڈنٹس کا سینٹرز کو زیادہ ترجیح دینا اوتمام سینٹر ز کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کے باوجود ہر سینٹر میں ایڈمیشن کا فقدان نہیں جس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ تعلیم کہ ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات نے سینٹرز کو فیشن پوائنٹ بھی تصور کر لیا ہے جس کی بنا پر ہماری سوسائیٹیز میں کافی شعور آتا جارہا ہے۔علاوہ ازیں آجکل ہر کوچنگ سینٹر میں اسٹودنٹس کو اچھے سے اچھا ماحول دیاجارہا ہے۔
کوچنگ سینٹرز کی کارکردگی میں نمایاں تبدیلی ہر عام وفہم کے لئے کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی لوگ ان سے اختلاف کرتے ہیں چونکہ ہر سینٹر خو د کو منوانے کیلئے طالبعلم کے مستقبل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے رہا ہے جس کے سبب ہر سال اسٹوڈنٹس مختلف یونیورسٹیز میں میرٹ پر کامیاب ہوئے ہیں اس کے علاوہ پہلے کسی بھی سینٹر میں کیریئر کونسلنگ کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اب حیدرآباد کے کئی سینٹرز میں کیریئر کونسلنگ کی جاتی ہے جو کہ نوجوانوں کے مستقبل کیلئے مثبت پہلو ہے۔
P.T.O
Waqas Arain
2K12 / MC / 120
کوچنگ سینٹرز کھولنے سے پہلے اور بعد کے مسائل:۔
حیدآباد میں اس وقت بے شمار کوچنگ سینٹرز موجود ہیں ۔جن میں زیادہ تر لطیف آباد، ہیرآباد،آٹوبھان روڈ،صدر کے علاقوں میں ہیں۔ مجموئی طور پر اس وقت شہر میں ۸۰ کے قریب نامور کوچنگ سینٹرز موجود ہیں۔
کوچنگ سینٹرز کھولنے کے لیے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پرتا ہے۔جن میں صف اول
۱۔مقصد(Motives)
۲۔اسٹریکچر
۳۔فنانس
۴۔پبلسٹی(مشہوری)
۴۔ فیکلٹی اسٹاف
۵۔تجربہ کار صلاحیت
۱۔مقصد(Motives)
ابتداء میں کسی بھی کوچنگ سینٹرکو کھولنے کے لیے اس بات کا تعین کتنا لازم ہے کہ آپ کس طرز کا سینٹر کھولنا چارہے ہیں ۔ جس کے لیے Target of students ،فیکلٹی پہلا مقصد رکھا جاتا ہے۔اس حساب سے پھر ایک مائنڈ سیٹ بنایا جاتا ہے۔جسکے بعد جگہ کا تعین اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے۔
۲۔اسٹریکچر:۔
motives کے بعد اسٹریکچر دوسرا اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے۔جس میں جگہ کا تعین اور اس کی بناوت اہم ہوتی ہے۔اگر ایک معیاری قسم کا سینٹر کھولنا چا رہے ہیں اس کے لیے ایک اچھی جگہ کا تعین لازمی درکار ہوتا ہے،جیسے کہ حیدرآباد کا علاقہ آٹوبھان روڈ جو کہ ایک کمرشل علاقہ ہے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ایسی جگہ پر سینٹر کھولنے سے ایک ادارے کی پہچان بنتی ہے۔اس وقت آٹو بھان روڈ پر کوئی 10 سے15 ایسے نامور کوچنگ ادارے موجود ہیں۔کسی بھی سینٹر کی بنیا د رکھنے کے لیے اسڑیکچر بیحد اہمیت رکھتا ہے۔اسٹریکچر کے اچھے ہونے کے ساتھ فیکلٹی بھی اچھی (قابلیت)کی حامل ہونا لازمی ہے۔کیوں کہ اگر بلڈنگ اچھی ہو اور فیکلٹی بیکار ،یا اگر بلڈنگ بیکار اور فیکلٹی اچھی ہے تو شاگرد بہت کم ایسے سینٹرز میں داخلہ لیتے ہیں ۔
۳۔فنانس(پیسہ):۔یہ ایک نہایت ہی اہم چیزہے ۔motives اور structure کے بعد فنانس ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔آپ کے پاس کتنا پیسہ موجود ہے اور کتنی investment کرنا چارہے ہیں۔اگر عمارت کرائے پر لی جارہی ہے یا خریدی جارہی ہے اور وہ ایک کمرشل علاقے میں موجودہے تو اس کا کرایہ ۲لاکھ روپے ماہانہ ہے۔جیسے کے آٹوبھان روڈ پر واقع کوچنگ سینٹرز کا رنٹ ماہانہ ۲ لاکھ روپے ہے۔اس کے علاوہ ہیرآباد،صدر میں واقع کوچنگ سینٹرز کا کرایہ خاطر خواہ کم ہے۔اس کے بعد فرنیچر ،ملٹی میڈیا کلاسس کے انعقاد کے لیے بھی ٹھیک ٹھاک رقم درقار ہوتی ہے۔
۴۔فیکلٹی اسٹاف:۔
اچھی بلڈنگ کے ساتھ اب کوچنگ سینٹر کے لیے اچھی فیکلٹی رکھنا درکار ہوتی ہے۔کیوں کہ اگر آپ کے پاس اچھا اسٹریچر تو موجود ہے لیکن اچھی فیکلٹی موجود نہیں تو ساری محنت کرنا بے قار میں گئی۔شاگرد آج کل اچھی فیکلٹی سے متاثر ہوکر ہی سینٹر میں داخلہ لیتا ہے۔ اچھی فیکلٹی جوکہ شہر کے نامور یا سینئر ٹیچرز پر مشتمل ہو ،کوچنگ سینٹرز کی اولین کوشش ایسے نامور ٹیچرز پر مرکوز ہوتی ہے،جنہیں بعذ سینٹر مالکان اچھی آفر دے کر ہائر کرتے ہیں ۔جس طرح حیدرآباد کے بیشتر کوچنگ سینٹرز جن میں ،کنس اکیڈمی،انیس حسن،لیڈز اکیڈمی،اسٹیوڈنٹس ان،سی۔ٹی۔ایس،سامرہ کوچنگ سینٹر ز وغیرہ شامل ہیں ۔
۵۔پبلسٹی(مشہوری):۔مقصد،اسٹریکچر،فنانس،فیکلٹی اسٹاف کے بعد اب پبلسٹی اگلا اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے۔کس طرح سے کوچنگ سینٹر کی مشہوری کی جائے۔جس کے لیے پمفلٹس چھاپے جاتے ہیں،بینرز بنائے جاتے ہیں اور انہیں مختلف علاقوں میں لگا دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ انٹرینٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب ساء ٹس کے ذریعے بھی پبلیسٹی کی جاتی ہے۔بعذ اوقات کیبل چینلز کے ذریعے بھی اشتہارچلائے جاتے ہیں۔ جن سے شاگرد زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ان سب طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوچنگ سینٹرز کی پبلسٹی کی جاتی ہے۔
کوچنگ سینٹرز کو کھولنا ہی صرف ایک اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے بعد اس کو کس طرح ہے چلاناہے یہ ایک اور اہم مسئلہ درکار ہوتا ہے ۔جس کے تجربہ کار مینجمنٹ کا ہونا لازمی ہوتا ہے جن کے پاس اس کام کا تجربہ ہو۔کوچنگ سینٹرز کھولنے کے بعد جن مسائل کا سامنہ کرنا پرتا ہے ان میں ،
منیجمنٹ ،صاف ماحول،رینٹ،یوٹلٹی بلزاور سیلری جیسے اہم مسائل درکار ہوتے ہیں
۱۔مینجمنٹ:۔
مینجمنٹ کا تجربہ کار ہونا بے حد ضروری ہے۔اگر منیجمنٹ اچھی نا ہو گی تو صاف ماحول سینٹر کے لیے قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔منیجمنٹ کو مثلا:۔شاگرد وں کو کس طرح ڈیل کرنا ہے،ہر کلاس میں کتنے شاگرد بٹھانے ہیں ،فیس میں کمی کے مسائل کس طرح حل کرنے ہیں ،ان کی حاضری لینا،کون ٹائم پر آرہا ہے اور کون لیٹ ،ہفتہ وار اور مہینہ وار ٹیسٹ کا باقاعدگی سے لینا ۔اس کے علا وہ انیس حسن کے ایڈمن منیجر (رضوان مجتباع)کے مطابق بعذ اوقات political interference کا سامنا کرنا پرتا ہے۔اکژر پارٹی کے لوگ فیس کنسیشن کے لیے آتے ہیں اور پارٹی کی بیس پر لڑائی جھگڑے پر بھی اتر آتے ہیں ۔جسے منجمنٹ کو ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پرتا ہے۔اور ایسے لوگوں کے لیے سیکیورٹی رکھنا پرتی ہے۔
۲۔ رینٹ(کرایہ):۔اگر بلڈنگ کرائے پر ہے تو اس کا کرایہ نکالنا ایک اہم مسئلہ ہے ۔جس کے لیے شروع کے چند سا ل سینٹر انتظامیہ کو نقصان برداشت کرنا پرتا ہے اور دو تین سال بعد جاکر منافع ہونا شروع ہوتا ہے۔
۳۔تنخواہ:۔ فیکلٹی ممبران،کلرکس،پٹے والے ،اسٹاف ان سب کی تنخواہ بر وقت ادا کرنا ہوتی ہے جو کہ اہم سنگین مسئلہ درکار ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ سینٹرز میں روزانہ کی بنیاد پر 500 روپے کے قریب چائے ،منرل واٹر کے الگ خرچے ہوتے ہیں جنہیں انتظامیہ کو یہ الگ سے برداشت کرنا ہوتا ہے۔
۳۔یوٹلٹی بلز:۔کوچنگ سینٹرز جوکہ عمومآ بڑی بڑی عمارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں دو سے تین منزلہ،جن کے ماہانہ لاکھوں روپوں میں بلز آجاتے ہیں جسے کہ لیڈز الیڈمی،استیوڈنٹس ان،سامرہ کوچنگ سینٹر یہ ایک نامور سینٹرز ہیں اور یوٹلٹی بلز ان کے لیے ایک اہم مسئلہ ہو تا ہے۔
در حقیقت کوچنگ سینٹرز کو کھولنا ہی صرف مشکل کام نہیں بلکہ اس کے بعد اور بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پرتا ہے۔
P.T.O
Furqaan-ul-Haq
2K12 / MC / 33
کوچنگ سینٹرز کے انتخاب میں طلباء اور اساتذہ کی ترجیحات
حیدرآباد میں گزشتہ 10 سالوں میں کوچنگ سینٹرز کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ لوگوں کی اس بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ تعلیمی اداروں میں خراب نظامِ تعلیم کوچنگ سینٹرز کے بڑھتے ہوئے رجحان کا سبب ہے جبکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ معیاری تعلیمی ادارے موجود ہونے کے باوجود طلبہ شوقیہ اور تفریح کیلئے کوچنگ سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں جب ہم نے طلباء اور اساتذہ کے تاثرات معلوم کیے کہ کوچنگ سینٹرز کے انتخاب میں ان کی کیا ترجیحات ہوتی ہیں ؟ تو ملے جلے تاثرات سامنے آئے۔
سرکاری تعلیمی اداروں اور نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ کی کوچنگ سینٹرمنتخب کرنے کی ترجیحات میں زمین اور آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔
ترجیحاتِ طلبۂ سرکاری ادارۂ تعلیم:
سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے سکول یا کالج میں تعلیمی نظام کا معیار زبوں حالی کا شکار ہے اسلئے بحالتِ مجبوری انہیں کوچنگ سینٹرز جانا پڑتا ہے۔
ان میں سے کچھ کی جانب سے کوچنگ سینٹر کی فیس کو مدنظر رکھا جاتا ہے کیونکہ بیشتر طلبہ کی مالی حیثیت فیس کی زیادتی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتی جسکی وجہ سے وہ گلی کوچوں میں کھلے کوچنگ سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں کے کئی طلبہ معیارِ تعلیم کو بھی ترجیح دیتے ہیں جو کہ انہیں سکول یا کالج میں میسر نہیں ہوتا اور وہ اپنی مالی حیثیت کی مخالفت کے باوجود کسی بڑے، نامور اور معیاری کوچنگ سینٹر میں داخلہ لیتے ہیں۔
ترجیحاتِ طلبۂ نجی ادارۂ تعلیم :
نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ زیادہ تر شغل کو ترجیح دیتے ہیں اور اُس کوچنگ سینٹر میں جاتے ہیں جہاں سب دوست داخلہ لیں۔
طلبہ کی ایک مخصوص تعداد لڑکیوں کے چکر میں بھی کوچنگ سینٹرز کا چناؤکرتی ہے۔اسی لئے اب تقریباً تمام کوچنگ سینٹرز میں خاتون استقبال کنندہ رکھنا کوچنگ سینٹرز کی اول حکمتِ عملی ہوتی ہے۔
کئی طالبِ علم تو صرف کوچنگ سینٹرز کے بڑھتے ہوئے رواج کو زندہ رکھنے اور اسے تقویت دینے کی غرض سے کوچنگ سینٹرز میں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
بہت سے طلباء کے مطابق کوچنگ سینٹر کے انتخاب کا حق اُن کے پاس نہیں بلکہ یہ فیصلہ اُن کے والدین کے ہاتھ میں ہے۔ والدین اپنی جانچ پڑتال اور تسلّی کے بعد کسی کوچنگ سینٹر میں اپنے بچوں کو داخلہ دلواتے ہیں۔
ترجیحاتِ طالبات :
طالبات کی اکثریت کے مطابق وہ نامور اور مشہور کوچنگ سینٹر کو ترجیح دیتی ہیں۔ جسکی وجہ اپنی دیگر ساتھیوں پر فوقیت حاصل کرنا ہوتا ہے۔
طالبات کی ایک خاص تعداد کا تعلق اسی طبقے سے ہے جن میں والدین کی مرضی سے کوچنگ سینٹر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
This practical work was carried out under Supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment