There are composing and spelling mistakes which were not corrected despite repeated reminders.
انویسٹیگیٹو رپورٹنگ
حیدرآباد میں کریئر کونسلنگ کی صورتحال
عبیدالحق قریشی، محمد مہد قریشی، محمد اسد عباسی اور محمد نعمان
بی ایس سال سوئم، سیکنڈ سیمسٹر
میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز سندھ یونیورسٹی
حیدرآباد میں کریئر کونسلنگ کی صورتحال
عبیدالحق قریشی، محمد مہد قریشی، محمد اسد عباسی اور محمد نعمان
بی ایس سال سوئم، سیکنڈ سیمسٹر
میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز سندھ یونیورسٹی
گروپ ممبرز کے نام
٭ عبےد الحق قرےشی 113
٭ محمد مہد قرےشی122
٭ محمداسد عباسی 65
محمد نعمان الدےن قرےشی 73
Ubaid-ul-haq Qureshi
کیرئیر کونسلنگ
دنیا میں بسنے والے 7.3سات عشاریعہ تین ارب سے زائد انسان کچھ نہیں جانتے کہ وہ کس مقصد کو پورا کرنے میں اس دنیا کی پیچیدگیوں میں گم ہیں۔بے شمار لوگ اس دنیا میںایسے گزرے جو اپنی شناخت ،موجودگی کے نشانا ت ا س دنیا پر چھوڑگئے ہیں جو اس زمین کے فنا ہونے تک ہمیشہ یاد رکھیں جا ئنگے اور انہی حضرات وشخصیات کو مد نظررکھتے ہوئے بے شما ر لوگ ان شخصیات کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کامیابی و کامرانی اب ان کے قدم چومے اور بہتر ین و محفوظ مستقبل سے ہمکنار
ہو سکے ۔کیا آ پ کو معلوم ہے کہ دنیا میں ہونے والی سب سے بڑی ریس کامیابی پا نے کے لیے بھاگنا ہے اور دنیا میں رہنے والا ہر فرد اس دوڑ میں شامل ہے ۔جو چاہتا ہے کہ کامیابی صرف ان کاہی بہترمستقبل بن جائے اور اسی کامیابی کے سبب ہر شخص ایک دوسرے کو پیچھے دھکلنے کی مشقت میںلگاہواہے تو اسی مشقت سے لوگو ںکو نکالنے کے لیے کےرئےر کونسلنگ کا آغاز ہوا۔
کیریئرکونسلنگ کا آغاز:
کیریئرکونسلنگ کی شروعات بھی ایک انگریز کی ایجاد کا نام ہے۔ فرینگ چارلسن نامی انگریز نے 1909میں اپنی ہی قابلیت کو مزید نکھارنے کے لیے جو قابلیت بڑھانے((skill developing اسکل ڈولپنگ کی آج لوگ اسے ہی کیریئرکونسلنگ کے نام سے جانتے ہیں ۔کیریئرکونسلنگ کا اصل مقصد انسان کے اندر چھپی وہ خصوصیات ہیں جو وہ خود نہیں جانتا یا ان خصوصیات کو اپنے اندر سے نکالنے کی کوشش ہی نہیں کرتا تو ایسے حضرات کی skill developingکی جاتی ہے جو کیریئرکونسلنگ کہلاتی ہے۔ کیریئرکونسلنگ کے لغوی معنی یہ بھی ملتے ہیںکہ (کسی بھی انسان کو زندگی گزارنے کی بہتر تربیت دینا یا کامیابی حاصل کرنے کے لیے صحیح طریقہ کار بتانا بھی اسی ذمرے میں آتا ہے۔)
کیریئر کونسلنگ کی کچھ اہم اقسام ہیں:
(1) مقامی تعلیم ۔
(2)بیرون ملک میں تعلیم کے حصول کے لئے جانا۔
(3)عمومی تعلیم یعنی (general)جنرل ایجوکیشن۔
(4) تعلیم روزگار کے حصول کے لئے ۔
(1)مقامی تعلیم:
مقامی تعلیم میں ایسے تعلیمی ادارے جن میں اسکول،کالجز اور ایسی یونیورسٹیزشامل ہیں جن میں طلباہ کو اکثیریت میں کیریئر کونسلنگ کا مطلب ہی نہیں پتا ہوتا اس بات سے اندازہ لگا لیجیئے کہ کیریئر کونسلنگ کروانی تو بہت دور کی بات ہے۔جبکہ اصل اہمیت ہی مقامی تعلیمی اداروں کی ہوتی ہے کیونکہ سب سے زیادہ طلبا کی تعداد مقامی اداروں میں ہی پروان چڑھتی ہوتی ہے اور اگر بات کی جائے پاکستان کی اس80%فیصد تبکے کی جو کے اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیز کی فیس ادا کرنے میں ہی کئی مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے تو یہ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ممالک یا اچھی یونیورسٹیزمیں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟
(2)بیرون ملک میں تعلیم کے حوصول کے لئے:
پاکستان میں کیریئر کونسلنگ کروانے والے سینٹروں کی تعداد طلبا کو بیرون ملک کے لئے کیریئر کونسلنگ کرواتے ہیں جن کی فیس بھی ہزاوں ،لاکھوںکی مدمیں وصول ہوتی ہیں جو کہ ہر ایک طلبہ برداشت نہیں کر سکتا اور پھر وہ ہی طلبہ پیچھے رہ جاتے ہین اور اپنے تعلیمی سفر کو صحیح طریقے سے جاری نہیں رکتھے ہیں اور کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
(3) عمومی تعلیم یعنی جنرل تعلیم ۔
عمومی تعلیم کو جنرل ایجوکیشن بھی کہا جاتا ہے جس میں طلبہ کو ایسی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے جو کہ عام طور پر طالب علم کے لئے مشکل کا سبب بنتی ہے جس کے بعد طالب علموں کو کیریئر کونسلنگ کا رخ کرنا پڑتا ہے کیونکہ جنرل ایجوکیشن میںطلبا کو اپنی پسند کا شعبہ لینے میں بہت مشکلات کا سامناہوتا ہے اور صرف 20 فیصد طلباءہی اپنے پسندیدہ شعبہ جات میں داخلہ لے پاتے ہیںاور باقی دوسرے ڈیپارٹمنٹز کی خاک چھنتے ہیں۔
(4)تعلیم روزگار کے حصول کے لئے۔
اس کونسلنگ میں طالب علموں کو ان کی تعلیم کے معیار کے تحت روزگار کی فراہمی کے لئے آگاہی فراہم کی جاتی ہے ۔جس میں طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ کس تعلیم کو حاصل کر کے وہ بہتر روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔لیکن ایسا روحجان پاکستان میں بہت حد تک نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں کیریئرکونسلنگ بہ نسبت بیرونِ ممالک:
اگر بات کی جائے سپر پاور امریکہ کی تو وہاں کیریئرکونسلنگ میں بے شمار دوسری کیریئرزشامل ہوتے ہیں۔ جن میں میرج کونسلنگ، فیملی کونسلنگ، پیرنٹس کونسلنگ، ڈرگ الکول کونسلنگ، جاب کونسلنگ، ایجوکیشن کونسلنگ و دیگر شامل ہیں اور وہاں کونسلنگ کی سہولت سرکار(government (کی طرف سے بھی مہیا کی جاتی ہے ۔ جبکہ بات کی جائے پیار ے وطن پاکستان کی تو یہاں فقط ایک ہی کونسلنگ موجود ہے جسے کیریئرکونسلنگ ایجوکیشن سے منسلک کیا جاتا ہے۔ وہ بھی طلباءکو ملک سے بیرونِ ممالک بھیجنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور میرج کونسلنگ کے نام پر بھی دھوکے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ایجوکیشن ، تعلیم، علم و فنون کی کونسلنگ کی جانب آئیں تو چند بڑے شہروں جن میںکراچی،لاہور،اسلام آبادو دیگر شامل ہیںاور انِ شہروں کے علاوہ دوسرے درجہ کے شہر تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتے جس میں حیدرآبادبھی صفہ اول میں شامل ہے۔ پاکستان میں کونسلنگ کا رجحان سن 2000سے باقاعدہ طور پر سامنے آیا جب پرائیویٹ چینلز نے اپنا آغاز کیا۔ الیکٹرنکس میڈیا نے تعلیم کے خدوخال کچھ اس طرح بیان کیے جن میں میڈیا نے تعلیم کے زاویے لوگوں کے سامنے کچھ اس طرح بیان کیے جن میں جیو نیٹ ورک نے ذرا سوچئے کہ نام سے ایک مہم کا آغاز کیا جس میں صرف و صرف تعلیم کی روشنی سے آشنا لوگوں کو دکھایا گیا جنہوں نے تمام کاموں کے پیش نظر تعلیم کو ذیادہ اہمیت دی اور دنیا میں اپنا لوہا بنوایاجس میں قیصر عباس جو ایک چائے کی کینٹین پر کام کیا کرتے تھے لیکن تعلیم کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور آج پاکستان کے چند ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو ہرفردکوخواب دیکھنا اور اس کی تکمیل کا راستہ بتاتے ہیں جسے ہم لوگ کیریئرکونسلنگ کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن آج بھی پاکستان میں کیریئرکونسلنگ کا محمول بہتر طریقے سے آگے نہیں جارہا کیونکہ حکومتی سطح پر کوئی سرپست اعلیٰ موجود نہ ہونے کے سبب یہ بیڑا صرف پرائیویٹ سیکٹر کی ملکیت ہے اور اس کے عوض لاکھوں کا کاروبار سرگرم ہے۔
M.Mahad Qureshi
حےد رآباد کی آبادی اور کےرئےر کو نسلنگ:
اس وقت شہر حےدرآباد کی آبادی چوبےس لاکھ 24,00000سے تجاوز کر گئی ہے اور پورے حےدرآباد کی کل آبادی تقر ےباً چالےس لاکھ پچاس ہزار40,50000 ہے ۔جبکہ حےدرآبا د مےں سرکاری اور غےر سرکاری چھوٹے اور بڑے 4000 سے ذائد اسکول موجود ہےں جن میں حےدرآبادکے سب سے زےادہ اسکول پھلےلی، پرےٹ آباد اورلطےف آباد مےں واقع ہےں اور لطیف آباد میں اس وقت پڑھائی کا رحجان سب سے زیادہ ہے جسے (literacy)بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سرکاری اور غےر سرکای کالجز اور ڈگری بوائز اور گرلز کالجز بھی تقرےباً 1000سے زائد ہےں۔ اگر بات کی جائے اسکولوں کی تو ہر اسکول کی کلاس مےں تقرےباً 30سے 50 طلبہ و طالبات زےر تعلےم ہوتے ہےں لیکن طلبا کو کیٹیگریز میں تقسم کر دیا جاتا ہے جس سے طلبا کے زہین پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اور کیمبرج کی ہر کلاس میں2 سے 3سےکشن ہےں ۔تو اےک اسکول مےں تقرےباً 700سات سو سے تقرےباً 900نوسو طلبہ وطالبات تعلےم حاصل کر رہے ہےں اور اگر اسی طرح بات کی جا ئے کالجز کی تو ہر کالج مےں بھی تقرےباً500پانچ سو سے زائد طلبہ وطالبات زےر تعلےم ہےں ۔ اگر بات کر لےں اےک ہی کلاس کی تو اےک کلاس مےں تقرےباً50 سے زائد طالب علم زےر تعلےم ہوتے ہےں اور ان پچاس 50مےں سے 5طلبہ ایسے ہوتے ہےں جو کہ خو د سے ےا ےہ کہہ لیجئے خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے بغیر کسی کے بتائے آگے نکل جاتے ہیں ۔ ان میں سے 45بچے یعنی 85%طلباءایسے ہوتے ہیںجنہیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں پتہ ہوتا ان میں سے نکالنا پڑتا ہے کہ وہ کیا بہتر کرسکتے ہیں اورایسے بچوں کا مستقبل یا تو ان بچوں کے والدین بہتر بناسکتے ہیں یا ان بچوں کے کریئر کونسلر ان بچوں کی درست طریقے سے بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں۔
کیریئر کونسلر سے بات چیت:
جب ہم نے کیریئر کونسلر سے بات کی کہ اوالدین کا عمل دخل بچے کی پرورش میں کتنا فیصد ہوتا ہے ےا بچے کی کیریئر کونسلنگ میں ؟ تواس پر کیریئر کونسلر نے ہمیں بتایا کہ اصل کردار بچے کی زندگی میں بچے کے والدین کا ہی ہوتا ہے اور بچے کے والدین ہی بچے کے پیدا ہونے کے بعد بچے کے اصل استاد اور اس کے بہترین رہنما ہوتے ہیں جن سے بچا چلنے سے لے کر کھانا ، پینا، بولنا اور کپڑے پہنے تک اپنے والدین سے ہی سیکھتا ہے اور والدین کی کیر یئر کونسلنگ بچے کے زندگی میں95% ہوتی ہے۔ اسکے بعد ہم نے پوچھا کہ بچے کی کیریئر کونسلنگ کس عمر سے شروع ہوجانی چاہئے؟ تو اس سوال پر انہوں نے ہمیں جواب دیا کہ بچے کی کیرئیر کونسلنگ اس کے اسکول جانے سے شروع کردینی چاہیے تاکہ بچے کا شروع سے ہی ایک AIM(ٹارگٹ) بن جائے اور بچا شروع سے ہی اس پر محنت کرکے Specializationیعنی اس شعبے میں ماسٹر بن جائے۔
اسکے بعد ہم نے کیریئرکونسلر سے پوچھا کہ بچے کی کیرئیر کونسلنگ میں اساتذہ کا کتنا کردار ہوتا ہے؟تو اس سوال پر کیرئیر کونسلر نے ہمیں جواب دیا کہ بچے کی زندگی میں اسکے والدین ہی بچے کے اصل کیریئر کونسلر ہوتے ہیں کیونکہ بچے کو اسکول لگانے سے کیریئرکونسلنگ شروع ہوجاتی ہے ۔ اسکول لگانے کے بعد اساتذہ ےا اسکول تبدیل کروانے میں اسکے والدین ہی اسکے کیریئرکونسلنگ کرتے ہیں۔
کیریئرکونسلر کے مطابق کونسلنگ میں اساتذہ کا کردار:
اساتذہ کا تعلق بچے سے بہتر سے بہتر ہونا چاہیے اور تقریبا اسکولوں میں بچوں سے اساتذہ کا تعلق خاصہ ٹھیک نہیں ہوتا اور اس بات کا اندازہ کلاس کے رپورٹ کارڈ سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں صرف ایک بچا ہی پہلی پوزیشن حاصل کرتا ہے جبکہ چار سے پانچ طلباءدوسرے اور تیسری پوزیشن حاصل کرتے ہیں اور بقیا طلباءمیں سے بہت سے Averageنمبر لے کر پاس ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ فیل ہوجاتے ہیں جس میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کچھ تو بہت اچھے ہونگے جو پوزیشن لے کر پاس ہوئے اور کچھ کم اچھے ہونگے جو کہ پاس ہوگئے اور فیل ہونے والے طلباءمیں سے کچھ تو پڑھنا ہی نہیں چاہتے اور ان Averageطلباءاور فیل ہونے والے طلبہ میں سے ہی کچھ ایسے طلباءہوتے ہیں جو کہ اچھا پڑھنا چاہتے ہیں مگر ان کے اچھا نہ پڑھنے کی وجہ اساتذہ کا طلباءسے بہتر تعلق نہ ہونا ہے کیونکہ اساتذہ صرف پوزیشن حاصل کرنے والے یا اچھا پڑھنے والے طلباءکو ہی اہمیت دیتے ہیں جس سے پاس ہونے والے یا فیل ہونے والے طلباءاحساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں اگر اساتذہ سب پاس یا فیل ہونے والے بچوں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں تو سب بچے بہتر سے بہتر نمبر لے سکتے ہیں۔
حیدرآباد میں تعلیمی معیار اور کیریئر کونسلنگ:
پھر اسی طرح بات کی جائے تعلیم ہی کی تو حیدر آباد میں بھی دو طرح کے تعلیمی نظام ہیں ۔ ایک وہ نظام ہے جہاں بچوں کو Cambridgeسسٹم کے تحت تعلیم مہیا کی جارہی ہے اور ایک وہ نظام جہاں اسکول پرائیویٹ اور لوکل تو ہیں مگر نام کے اور فیسوں کے لحاظ سے جہاں بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلا جارہا ہے اور جبکہ بڑے اسکولوں کی بات کی جائے جیسے آرمی پبلک اسکول، سٹی فاﺅنڈیشن ، دی ایجوکیٹر، سپیرئیر ،پبلک فائڈیشن اور پرسٹن جیسے بڑے نام شامل ہیں ۔جہاں پر بچوں کو شروع سے ہی بہتر تعلیم معیار دیا جاتا ہے۔ ایسے اسکول بھی ہیں جو کہ نام نہاد پرائیویٹ ہیں جہاں بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ جس میں والدین بچے کو داخلہ دلوادیتے ہیں اور یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے ۔جس میں تعلیمی اداروں کی خوب کمائی ہوتی ہے اور پھر بچہ ان کے تعلیمی اداروں میں پڑھ نہیں پاتا یا وہ پڑھا نہیں سکتے تو ایسے تعلیمی ادارے سارا الزام بچوں پر تھوپ کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔ ایسے بچوں کے لیے ایک کیریئرکونسلر یا پھر ماہر نفسیات نہیں رکھتے جو کہ بچوں کی بہتر رہنمائی کریں جس سے بچہ کامیابی حاصل کرسکے، اور پھر اسی طرح بچہ اپنے اسکو ل کے مراحل کو بہتر طریقے سے طے کرسکے۔
طالب علموںکا کالج کا سفر:
والدین یا پھر سر پرست اعلیٰ کسی کے کہنے پر ہی طالب علم کو تعلیمی سفر آگے بڑھانے کے لیے کالج میں داخلہ دلوا دیتے ہیں۔ بغیر کیریئرکونسلنگ کروائے ہی میڈیکل ، انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس میں داخلہ لینے والے طلباءکو مشکلات کا سامنا رہتاہے اور صرف ان تین شعبوں میں ہی کالجزطالب علم کو بغیر کیر یئر کونسلنگ کروائے داخلے جاری کر دیتے ہیں۔ پھر تمام کالج بچوں کو تعلیم مہیاءکرتے ہیں جس میں سے کچھ کالج اپنے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے تعلیم مہیا کرنے کی تگ ودو میںلگ جاتے ہیں۔ کچھ کالج بس پڑھا رہے ہوتے ہیں ایسے کالجوں کو صرف فیسوں سے مطلب ہوتا ہے جب طالب علموں کا امتحان کا وقت آتا ہے تو تقریبا تمام طلباءہی اپنے اپنے پرچیں نکل(cheating) سے کرتے ہیں ۔ آپ نے بھی سنا تو ہوگا کہ( نکل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے)جی ہاں جو طالب علم اچھے کالجز کے ہوتے ہیں وہ نکل بھی عقل سے کرتے ہیں ۔ جو ایسے کالجز کے طلبہ ہوتے ہیں جنہیں صرف اور صرف فیسوں سے مطلب ہوتا ہے پھر انکے طلباء پیپر بھی ایسے ہی دیتے ہیں۔ جب رزلٹ سامنے آتا ہے تو دونوں طرح کے کالجزکے طالب علموں کے رزلٹ میں خاصہ فرق نظر آتا ہے اور ایسے کالجز کے 20 فیصد طلباءتقریبا فیل ہو جاتے ہیں اور اچھے کالجز کے طلبہ بھی صرف 60 فیصد ہی ایسے ہوتے ہیں جو کہ آگے بڑھ سکتے ہیں ۔اور اسی طرح طالب علم اپنے دو سالہ تعلیمی سفر کو رخصت کر تے ہیںجبکہ 74%طلباءایسے ہوتے ہیں جو کہ انٹر کے بعد ہی اپنے تعلیمی سفر کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ کیونکہ انکی کیریئر کونسلنگ نہ ہونے کی وجہ سے وہ طلباءپریشان رہتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور وہ کیا بہتر کر سکتے ہیں جس کے باعث طلباءانٹر کے بعد ہی اپنے تعلیمی سفر کو خیر بعد کہہ دیتے ہیں اور صرف 26% فیصدہی آگے بڑھ جاتے ہیں۔
طالب علموں کا انٹری ٹیسٹ کی طرف رجحان:
طالب علم فرسٹ ایئر اور انٹر کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کی چاہت میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے والے اداروں کا رخ کرلیتے ہیں ۔ انٹری ٹیسٹ کروانے والے ادارے بھی بغیر کچھ سوچھے سمجھے اور بغیر انٹرویو لیئے اور طالب علم کا ٹیسٹ لئے بغیر طالب علموںکو داخلے جاری کر دیتے ہیں۔ جبکہ حیدرآباد میں انٹری ٹیسٹ کی تیا ری کروانے والے اداروں کی تعداد بھی حیدر آباد میں بڑھتی جارہی ہے۔ آج سے تقریباً آٹھ سے دس سال پہلے کی بات کی جائے تو انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے والے اداروں کی تعداد مشکل سے بیس کے لگ بھگ تھی ۔جبکہ آج2015کی بات کی جائے تو ایسے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے والے اداروں کی تعداد دو گنا سے بھی تجاوز کر گئی ہے اور یہ تعداد چالیس سے پچاس سے زائد ہوگئی ہے۔ جو کہ طلباءکی بغیر کیریئرکونسلنگ کے ہی داخلہ جاری کردیتے ہیں اور پندرہ ہزار سے پچیس ہزار کے لگ بھگ فیسوں کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ تین سے چار ماہ میںبچوں نے جو پورے دو سال پڑھا ہوا ہوتا ہے اس کی مکمل تیاری کرواتے ہیں۔ ایسے سینٹروں کے نام پر ہی پورے پاکستان میں تقریباً ایک سے ڈیڑھ لاکھ طلباءانٹری ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیںجبکہ یہ وہ 26%طلباءہوتے ہیں جو کہ ڈاکٹر ، میڈیکل یا پھر انجینئربننے کی چاہت میں یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہر سال انجینئرنگ یونیورسٹی یعنی مہران یونیورسٹی کی ہی بات کی جائے تو صرف مہران کے ٹیسٹ کے لیے ہی گیارہ ہزار سے تیرہ ہزار طلباءانٹری ٹیسٹ میں حصہ لیتے ہیں۔ جبکہ مہران میں تمام کیمپس کی نشستوں کو ملا کر اکیسوں نشستیں بنتی ہیں۔جس میں صرف 2100طلباءہی داخلہ حاصل کرپاتے ہیں اور اسی طرح ڈاکٹر بننے کی چاہت میں میڈیکل کے ٹیسٹ میں تقریباً پندرہ ہزار طلباءحصہ لیتے ہیں اور جن میں سے صرف بمشکل پچاس ہی ڈاکٹر بن پاتے ہیں۔ اگر بات کرلی جائے پورے پاکستان کی تو انجینئرنگ کے ٹیسٹ میں تمام یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے درخواست دینے والے طلباء70 ستر ہزار سے 90 نوے ہزار تک ہوتے ہیں ۔ اگر میڈیکل کی بات کی جائے تو پورے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں 41ہزار سے 50ہزار درخواست موصول ہوتی ہیں اور اسی طرح طلباءمیڈیکل یا انجینئرنگ میں داخلہ حاصل کرتے ہیںاور پورے پاکستان سے انجینئرنگ میں داخلہ حاصل کرنے والے طلباءکی تعداد تقریباً ساڑھے سات ہزار اورمیڈیکل میں داخلہ حاصل کرنے والے طلباءکی تعداد تقریباً پانچ ہزار ہوتی ہے۔ جبکہ بقایا ایک لاکھ سے تقریبا سو لاکھ تک طلباءاپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہوجاتے ہیں جن میں کچھ دوبارہ تیاری کرتے ہیں۔
دیگر یونیورسٹیوں کا رخ کرنے والے طلبائ:
یہ وہ طلبہ ہوتے ہیں جو کہ میڈیکل میںڈاکٹر بنے کے لئے یا پھر انجینئرنگ میں انجینئربنے کی چاہت میں میں میڈیکل یا پھر انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل نہیں کر پاتے تو تقریباایک سے ڈیڑھ لاکھ تک طلبہ بغیر کیریئرکونسلنگ کے ہی دیگر یونیورسٹیوں میں Applyکرتے ہیں اور میڈکل کے طلباءصرف ڈی فارمیسی ،مائیکروبائیولجی،بوٹنی،کمیسٹری اور بائیو کیمسٹری جسے چند شعبوں میں ڈاخلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ انجینئرنگ کے طلبہ آئی ٹی کے شعبوں میں یا پھر کمپیوٹرسائینس، بی بی اے،انگلیش،فیزکیس جیسے شعبوں میں داخلہ حاصل کر کے پڑھنا چاہتے ہیںمگر یونیورسٹی ہر ایک طالب علم کو ان شعبوں میں داخلہ نہیں دے سکتی جس کے باعث طلباءکو دیگر جرنل شعبوں میں داخلہ دے دیتی ہیں۔
جرنل یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے والے طلباءسے بات چیت:
جب ہم نے یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے والے طلباءسے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ ہم انجینئربننا چاہتے تھے مگر ہمارے پاس کچھ اور Choiceنہیں تھی اس لیے ہم نے یہاں Applyکیا تھا اور ہمیں یہاں بھی من پسند شعبہ نہیں دیا گیا ہم انجینئرنگ کے طالب علم تھے مگر ہمیںITیا Softwareدینے کے بجائے اردو ، ایکونامیکس، انٹرنیشنل ریلیشن ،جرنل ہسٹری مطالعہ پاکستان یا پھر ماس کوم جیسے شعبے دے دیئے ہیں۔اور ایسی طرح میڈیکل کے طلباءنے بھی ہمیں بتایا کہ وہ ڈی فامیسی یا پھر بایﺅکیمسٹری اور فیزکیس جیسے شعبے دینے کے بجائے انہیں بھی ماس کوم، اردو،مطالعہ پاکستان جیسے شعبوں دے دیئے جاتے ہیں جبکہ داخلہ حاصل کرنے والے 30% طلباءکو انکا من پسند شعبہ دیا جاتا ہے جبکہ ان میں سے بھی 70% فیصد طلباءکو انکی مرضی کے مطابق شعبے نہیں دیئے جاتے۔
طلباءکو بہتر مستقبل نظر نہ آنے کی بڑی وجہ :
جب ہم نے ماس کوم میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباءسے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صرف اور صرف جرنل پڑھایا جارہا ہے یا صرف پرنٹ میڈیا کا پڑھایا اور پریکٹیکل کروایا جارہا ہے جبکہ ہمیں الیکٹرانک میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے شعبوں میں میںSpecializationنہیں کروائی جا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے بہت سارے طلباءجو کہ پروڈیوسر ،ڈاریکٹر،کیمرہ مین ،ہوسٹ یا پھر نیوز کاسٹر بنا چاہتے ہیں اور نہیں بن پاتے اور یہ ہی بڑی وجہ ہے جس کے باعث تمام طلباءایک ہی فیلڈ میں نہیں جا سکتے اور زیادہ تر طلباءکی کامیابی حاصل نہ کر پانے کی بڑی وجہ یہ ہی سامنے آتی ہے اور ایسیا ہی ہوتا ہے کہ ان تمام طلباءمیں سے بہت سارے کسی این جی او ، کوئی میڈیکل ریپ اور کوئی ٹیچنگ اور دیگر مختلف شعبوں کی طرف نکل جاتے ہیںجو کہ انکی فیلڈ کے بلکل مطرادف ہوتی ہیں اور ان وجوہات کے باعث ہی ان 100%فیصدطلباءمیں بھی صرف دس فیصد طلبہ اپنی فیلڈ یعنی میڈیا میں جاپاتے ہیں اور یہ سب کیریئرکونسلنگ نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے
طالب علم کے داخلہ حاصل کرنے سے پاس آﺅٹ کرنے تک کے مراحل:
ایسے 70% فیصدطلباءان جرنل فیلڈ میں داخلہ حاصل کر تولیتے ہیں مگر ایسے طلباءان شعبوں میںپڑھ نہیں پاتے اور 70% طلباءصرف ڈگری حاصل کرنے کے لئے ہی ان شعبوں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور صرف 20% طلباءہی ایسے ہوتے ہیں جو کہ ان جرنل فیلڈ میں داخلہ حاصل کر کے بہتر طریقے سے پرھتے ہیں اور آگے اپنی اپنی فیلڈ میں نکل جاتے ہیں اور 10% دس فیصد طلباءایسے ہوتے ہیں جو کہ دل برداستہ ہو کر پڑھائی کو چوڑ دیتے ہیں اور اگر بات کی جائے ان 70% ستر فیصد طلباءکی تووہ طلباءپڑھائی کر نہیں سکتے یا پھر پڑھائی کرتے ہیں تو ان 70% طلباءکو اپنا مستقبل نظر نہیں آرہا ہوتا جس کے باعث ایسے طلباءمیں سے کچھ تو ٹیچنگ کی طرف نکل جاتے ہیں اور کچھ طلباءاین جی اوز کی طرف اور کچھ طلباءمیڈیکل ریپ کی طرف نکل جاتے ہیں اور یہ سب کیریئر کونسلنگ کے نا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے اگر شروع میں ہی کیریئر کونسلنگ کی جائے تو طلباءکو ان سب مشکلات کا سامنہ نہ کرنا پڑے ۔
M.Asad Abbasi
کیرئےر کونسلنگ میں میڈیا کا کردار:
پاکستان کا میڈیا جو کہ اپنے میڈیا اداروں کو پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپوں میںسے ایک کہلواتا ہے اور کیوں نہ کھلوائے؟ کیوں کے پاکستانی میڈیا ہر لحاظ سے بہتر سے بہتر خبر اور رپورٹ دینے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے مگر کچھ مسئلے پاکستان کے نوجوانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔۔۔ جن میں سے ایک بہت بڑامسئلہ پاکستان میں کرئےر کونسلنگ کا بھی ہے جس کی وجہ سے ایسے بھٹکے ہوئے طالب علم جو کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے اور بہترین فیلڈ کی چوائس میں الجھ کر رہ جاتے ہیںجس کے باعث ہر سال لاکھوں طلبہ و طالبات کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں صرف جنگ گروپ ہی اپنے جنگ اخبار کے ذریعے کرئیر کونسلنگ کے لئے کچھ کاوشیں کرتا نظر آرہا ہے جس میں جنگ گروپ کے سید اظہر حسنین عابدی طالب علموں کی کرےئر کونسلنگ اور طالب علموں کی رہنمائی اپنے جوابات کے ذریعے ہر جمعرات کو شائع ہونے والے اخبارات میں دیتے ہیں جن سے کئی طلباءکو انکا برائٹ فیوچر نظر آ ہی جاتا ہے اور وہ سب طالب علم سید اظہر حسنین عابدی صاحب سے اپنی اپنی کر ئیر کونسلنگ کروانے کے بعد کسی حد تک مطمعین بھی ہو جاتے ہیں ۔اگر آپ کے پاس بھی کوئی کرئیر کونسلر موجود نہیں ہے تو آپ بھی بذریعہ ایس ایم ایس#HAC(space)message & send to 8001 یا پھر abidi@janggroup.com.pk پر بھی آپ باآسانی اپنی کرئیرکونسلنگ کرواسکتے ہیں اور اپنے کرئیر کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔ جب کہ جنگ گروپ کے علاوہ بھی دیگر کئی میڈیا گروپوں کو بھی ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے جن سے پاکستان کے نوجوانوں کو اپنے بہتر کرئیر بنانے کا موقع ملے سکے گا اورہر 5 میں سے تقریبا4 طلبہ اپنے کرئےر کو بہتر بنا سکتے ہیں جس سے
پاکستان ہر طرح کی برائیوں سے بھی بچ سکے گا ۔
حےتمی رائے:
اس تمام رپورٹ کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیریئرکونسلنگ نہ صرف طلباءبلکہ اساتذہ کی بھی ہونی چاہئے اور کیریئرکونسلر نہ صرف یہ کہ ایک اسکول ، کالج، یونیورسٹی بلکہ ہر ایک شعبے میں ہونے چاہیے تاکہ طلباء کی درست سمت سے رونمائی ہو۔ جبکہ حیدر آباد میں کیریئرکونسلنگ کروانے والے ایسے تقریباً پندرہ سینٹرز موجود ہیںجن میں APEX، جیمس، مصطفی احمداینڈ کو،ٹائم کنسلٹنسی جیسے سینٹرز شامل ہیں۔ اور ان سینٹرز میں بھی زیادہ تر Abroadکے لیے کیریئرکونسلنگ کروائی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوکل ایجوکیشن جرنل ایجوکیشن اور ایمپلائمنٹ کے حوالے سے کیریئرکونسلنگ کروانی چاہیے اور ہر اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میںایک کونسلٹنٹ کا ہونا لازمی ہے جبکہ حکومت پاکستان کو بھی کیریئرکونسلنگ کے حوالے سے اقدام اٹھانا چاہیے اور ہر ایک یونین کونسل میں تقریباً ایک سے دو سینٹرز قائم ہونے چاہیے تاکہ ہر علاقے کے طلبا ءکی بہتر رہنمائی ہوسکے جس سے نہ صرف طلباءبلکہ اساتذہ اور والدین کی بھی کیریئرکونسلنگ لازما µ ہو ناچاہیے تاکہ طلبا باآسانی اپنے مستقبل کو بہتر سے بہتری کی طرف گامزن ہوسکیں۔
The work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi
The work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment