Friday, December 4, 2015

Interview with Mehmood Siddiqui


سندس قریشی
2k12/MC/106
انٹرویو۔۔۔
محمود الحسن صدیقی
محمود صدیقی حیدرآباد کے نامور براڈکاسٹر، شاعر اور ادیب ہیں۔ وہ سلہا سال تک ریڈیو سے وابستہ رہے۔ اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں اردو زبان اور یڈیو ٹیکنیک پر عبور حاصل ہے۔ وہ براڈکاسٹ اور ادب کی دنیا میں کئی افراد کے استاد رہے۔ 
س: آپ کا پورا نام ا ور والد کا نام ؟
ج ©: میرا نام محمودالحسن صدیقی اور والد کا نام شفیع اللہ ۔

س: آپ کی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش؟
ج: میری جائے پیدائش الہٰ ٓباد کا شہر کسیدہ اور تاریخِ پیدائش 4 اکتوبر 37 19 ©ء ہے۔

س: ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور بقیہ تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟
ج:ابتدائی تعلیم تحصیل چائل ( (Chail کے ایک اسکول سے حاصل کی میٹرک 1953 میں الہٰ آباد اینگلو بنگالی انٹرمیدیٹ کالج سے سیکنڈ ڈیویژن میں پاس کیا اسکے بعد ۱۱ ستمبر 1953 پاکستان حیدرآباد آئے اور روئل کالج آف کامرس تلک چاڑی میں داخلہ لیا اور انٹرمیڈیٹ پاس کیا ۔ 1959 میں گریجویشن گورنمنٹ سٹی کالج سے کیا پھر اردو ایم اے 1961 اور جنرنلزم میں ایم اے1981 میں مکمل کیا۔

س: آپ کے ملازمت کا ادارے اور ملازمت کی نوعیت کیا کےا رہی؟
ج :پہلی نوکری لینڈ ریکارڈ آفس میں مئی 1954 میں بطور کلرک کی اسکے ایک سال بعد 1955 ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے بطور پروگرام سکریٹری لیکر ڈیوٹی آفیسر، پروڈیوسراور سینئیر پروڈیوسر کے طور پر کام کیا ۔

س: آپ نے ریڈیومیں کن کن لوگوں کے ساتھ کام کیا؟
ج:محمد علی،حماےت علی شاعر، مصطفی قریشی ، عمران نصیر ، کریم بلوچ ، سلطان جمیل نسیم، اشفاق احمد ، امیر شہناز ناز اور دیگر بڑے آرٹسٹوں کے ساتھ کام کیا ہے اور میوزک میں ایک بڑا نام سنگھار علی سلیم کو ریڈیو میں رکھا۔
س: آپ کے مشاغل کیا کیا رہے؟
ج: کتابیں پڑھنا ، تحریریں لکھنا اور ادبی کاموں میں میں حصہ لےنا۔

س: ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے وابستہ رہے آپ کس سن میں ریڈیو آئے اور کن کن لوگوں کے ساتھ کام کےا؟ٹیلیوژن کے لئے کبھی کام کیا؟
 ج:میں 1955 ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے بطور پروگرام سکیٹری وابستہ ہوا اور پھر ریڈیو کا سفر پروگرام سیکٹری ، سے لیکر ڈیوٹی آفیسر، پروڈیوسر، سینئیر پروڈیوسر، صداکار اور ڈرامہ رائیٹر تک طے کیا ہے۔

س:ادب کے حوالے سے آپ کا کیا کام ہے اور کون سی چیزیں شائع ہوئی ہیں؟
ج : دو شعری مجموعہ سخن بہانہ ہوا، قافلہ روانہ ہوا ، افسانچوں کی کتاب ریت گھروندے شائع ہوچکے ہیں ۔ میری ایک شاعری کی کتاب عشق تازےانہ ہوا اور افسانچوں کی کتاب بھی منظر عام پر آنے کو ہے۔1964 میں ٹیلی وژن میں دو ،تین ماہ کا پیپر ورک کیا ہے ۔اسلم اظہر اور فضل کمال کے ساتھ میں نے کام کیا اورا نہوں نے مجھے ریڈیو سے ٹیلی وژن پر آنے کو کہا پر لوگوں نے کہا کے ٹیلی وژن کے چکر میں ریڈیو کی سرکاری نوکری گئی اور وہاں سے بھی کچھ ہاتھ نہ آیا تو؟ اسی وجہ سے نہ جاسکا ورنہ میں تیسرا سینئر امپلائی ہوتا ۔میں نے ٹیلی وژن کے لئے بھی ڈرامہ لکھا اور وہ نشر بھی ہوا لیکن کچھ خاص مقبولیت حاصل نہیں کرسکا ۔

س:کن ممالک اور شہروں میں مشاعروں میں شرکت رہی ؟
ج: ملک سے باہر کبھی نہیں گےا البتہ آل پاکستان اور انڈو پاک اور بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کی۔

س: پاکستان میں ادب کا مسقبل کیا دیکھتے ہیں؟
ج: پاکستان میں ادب کا مستقبل اتنا مخدوش نہیں ہے اب جو ہم ادبی میلے دیکھتے ہیں اب اس سے لگتا ہے کہ شاید ادب پروان چڑھے گا، ادب ہمیں جینا سکھاتا ہے ، قرینہ سکھاتا ہے اور زندگی گزارنے کے تمام وہ طریقے سکھاتا ہے جو ہمیں بہتر زندگی میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔

س:جرنلزم میں نئے آنے والے والوں کے لئے کوئی پیغام دینا چائیں گے؟
ج:مجھے بہت اچھا لگا کہ بچیاں اب صحافت میں آرہی ہیں اور یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہیںاور نئے آنے والوں کویہ پیغام ضرور ہے کہ اپنی
 خداداد صلاحیتوں کو بروئے کا ر لاتے ہوئے اپنی فلیڈ میں اپنا اور اپنے وطن کا نام روشن کریں اور اپنی صلاحیتوں کو اپنے کام کے حوالے سے جانچنا سیکھیں تاکہ وہ ذیادہ سے ذیادہ ترقی کر سکیں ۔
December 2015

No comments:

Post a Comment