It is not article, this is essay type. article should be current, with figures facts and analysis.
Some portion is copy paste
Improver failure of MC 2k12 batch
Sundus Qureshi
سندس قریشی
2k12/MC/106
آرٹیکل۔۔۔۔۔۔
مستقبل کا ضامن
یہ نظریہ گزشتہ صدی تک تو قابل قبول تھا کہ بلند آئی کیو والا بچہ کامیاب زندگی گزارنے کی اہلیت رکھتا ہے مگر آج کے دور میں یہ معیار بدل گیا ہے کیونکہ ہر چیز کی قدر میں تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ انسانی زندگی میں مشین کا عمل دخل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انسان کو شاید اپنی زندگی میں کسی انسان کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ زندگی کی رفتار تیز تر ہوگئی اور ہر شعبے میں مقابلہ بازی کا رجحان پچھلی صدی سے کئی گنا زیادہ ہوگیا۔
سائیکالوجی کی اصطلاح میں ’’آئی کیو‘‘ ذہانت کی پیمائش کیلئے استعمال ہوتا ہے جسے اردو میں مقیاس ذہانت کہتے ہیں۔ جس سے کسی کے ذہین ہونے کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً فلاں بچہ اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا ’’آئی کیو‘‘ ایک خاص طریقے سے معلوم کرکے بتایا جاتا ہے۔ نفسیات کے علم میں آئی کیو کے استعمال نے ذہانت کے معیار کو پرکھنا آسان تو بنادیا مگر لوگوں نے آئی کیو کو برتری کا معیار بھی بنالیا اوریہ سمجھا جانے لگا کہ جس بچے کا آئی کیو زیادہ ہے وہ بچہ دیگر بچوں سے ہر اعتبار سے بہتر ہے۔ یعنی وہ زیادہ ذہین ہے لازمی بات ہے وہ پڑھائی میں بھی اچھا ہوگا اور اس کامستقبل بھی روشن ہوگا۔ مگر سچ یہ نہیں ہے۔
کامیاب زندگی کیلئے ضروری چیزای کیو ہے۔ مغربی ماہرین کے مطابق آئی کیو پر ای کیو کو فوقیت حاصل ہے۔ اس نئی اصطلاح کی وضاحت انہوں نے اسطرح کی ہے کہ ہر وہ بچہ جو بچپن سے ایک پراعتماد شخصیت لے کر پروان چڑھے گا اور سماجی روابط کے گُرجانتا ہوگا وہی ایک کامیاب شخص بن سکے گا۔ خواہ اس کا ’’آئی کیو‘‘ زیادہ ہو نہ ہو‘ اس کا ’’ای کیو‘‘ زیادہ ہونا ضروری ہے۔ آج کے وقتوں میں ماہرین کی اس بات میں درست نظر آئی ہے عام مشاہدہ کے مطابق ایک بے حد ذہین و فطین بچہ جو اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں تو زبردست ہے مگر اس کے سماجی روابط نہ ہونے کے برابر ہیں وہ عملی زندگی میں کیسے کامیاب ہوسکتا ہے؟ جسے نہ لوگوں سے میل جول کا طریقہ آتا ہو بات کا سلیقہ اور نہ ہی مردم شناسی۔ میرے ایسے کئی ذہین کتابی کیڑے ہیں جو سماجی نقطہ نظر سے بری طرح ناکام ہیں۔کیونکہ وہ عمل نہیں کرتے ۔ یہ بات درست ہے کہ ذہانت سے زیادہ ضروری ہے ایک جذباتی ذہانت۔۔یعنی ایموشنل انٹیلی جنس۔لہذا پہلی چیز ’’ای کیو‘‘ اور اس کے بعد ’’آئی کیو‘‘ ہے بلکہ ’’ای کیو‘‘ ہی دراصل ’’آئی کیو‘‘ کو بہتر کرتی ہے۔ ایک باعمل اور پھرتیلا انسان جس کا دماغ ہر وقت مصروف رہتا ہے وہ نت نئے تعلقات بڑھاتا ہے اور اپنے پیشے میں وہ کامیاب ہوتا ہے۔ دنیا میں کچھ کرنے کی لگن میں وہ نہایت پرامید بھی ہوتا ہے اورساتھ میں خود کو وہ ناکامی سے بچاتا ہے۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جو گزشتہ زمانے کے کامیاب لوگوں میں پائی جاتیں تھیں اور یہی وہ خوبیاں ہیں جو آج کامیابی سے زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔
انسانی زندگی کا پہلاسبق خودانحصاری ہوتا ہےاگرچہ ایک صحت مند گھریلوماحول اور والدین اور بچے کے درمیان دوستانہ روابط بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ مغرب میں کئی ایسے سکول ہیں جن میں بچے کے ’’ای کیو‘‘ پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے اور ۔ اسی خود انحصاری سے اس میں خود اعتمادی پیدا ہوتی اس میں خود انحصاری پیدا کرنے کی مشقیں کروائی جاتی ہیں تاکہ وہ ماحول دوست بن سکے اور پھردھیرے دھیرے بچے میں وہ تمام خوبیاں پیدا ہونے لگتی ہیں کہ وہ کامیاب زندگی کی طرف راغب ہوتا چلا جاتا ہے۔
بچے کی کامیاب زندگی کیلئے اس کا ذہین ہونا اتنا معنی نہیں رکھتا جتنا یہ کہ زندگی کے بارے میں اس کا رویہ مثبت ہونا، اسکا سوشل ہونا باہمت ہونا اور خود پر کنٹرول کرنا ہونا معنٰی رکھتا ہے۔
بچے کی حوصلہ افزائی بھی اسے کامیاب بنانے میں مددگارثابت ہوتا ہے۔ پیدائش سے لے کر ایک خاص عمر تک اگر ایک بچے کو والدین اور بالخصوص والدہ کی طرف سے مناسب رہنمائی اور توجہ ملے تو اس کا ’’ای کیو‘‘ بہتر ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے بے حد ضروری ہے کہ بچے میں شروع سے ہی خودانحصاری کی عادت پیدا کی جائے اور اسے یہ احساس دلایا جانا چاہیے کہ وہ اپنے بارے میں ہمیشہ مثبت انداز میں سوچے۔ اور ساتھ ہی بچے کے اندر خوداعتمادی پیدا کی جائے ساتھ ہی اس میں ضبط و برداشت کی تلقین کی جائے کیونکہ جلد باز اور غصیلے بچے لوگوں کے ساتھ رابط ٹھیک نہیں رکھ پاتے۔ والدین کو یہ بھی چاہیے کہ ہر اس جگہ پربچے کو اپنے ساتھ لے کر جائیں جہاں اور بچے بھی ہوں تاکہ دوسرے بچوں کے ساتھ اس کا ایک سماجی رابطہ شروع ہو۔ کھیل کود اور دیگر مشاغل بھی سماجی رابطے پیدا کرتے ہیں۔ اسکے ساتھ بچے کو اظہار کا موقع دیا جائے اور قدم قدم پر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے میں پرامیدی کا رجحان بھی اہم ہے وہ زندگی کو اور ہر چیز کو مثبت انداز سے دیکھے۔ اس کا دوسروں کے ساتھ رویہ اور میل جول بھی مثبت ہونا چاہیے۔ ’’لہذا ’’ای کیو‘‘ کیلئے بچے کا باقاعدہ طور پر ساتھ دیا جائے یہ مرحلہ پیدائش کے فوراً بعد شروع ہوجاتا ہے اور ہر ہر قدم پر والدین اسے مناسب گائیڈ کرتے رہتے ہیں‘ ایک خاص عمر کے مطابق بچے کا ’’ای کیو‘‘ لیول اس حد تک ہوجاتا ہےکہ اس کے روشن مستقبل کی پیشن گوئی باآسانی کی جاسکتی ہے۔ اس مرحلے کے دوران اگر اندازہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’ای کیو‘‘ کے ساتھ ساتھ اس کے ’’آئی کیو‘‘ لیول میں بھی بہتری آتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دراصل ’’ای کیو‘‘ ہی ’’آئی کیو‘‘ لیول کو بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment