Photo, malish krty hoye ya group bana k bethy hn, aur profile walay ka photo.
Spelling mistakes boht hn.
The work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi
مالشی کی پروفائل اور انٹرویو
محسن ٹالپر
تمہیں خبر بھی ہے یارو کہ دشت غربت میں
ہم آپ اپنا جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں
پنجاب کے شہر سے تعلق رکھنے والے محمد صغیر بلوچ کی کہانی قابل اجمیری کے اسی شعر کے ارد گرد گھومتی ہے کہ غربت کی وجہ سے انسان زندگی میںہی اپنا جنازہ اٹھائے پھر رہا ہے۔ وطن عزیز میں غربت کے مارے تمام اور رہنے والوں کی طرح سغیر بلوچ نے بھی پنجاب کے شہر بھاولپور میں غربت کی آغوش میں آنکھ کھولی اور اپنی پہلی ہی نظر میں اپنی ماں کے چہرے پرغربت کی محرومیاں واضح طریقے سے دیکھ لی کیوں کہ غربت انسان کو لحموں میں بڑا کر دیتی ہے۔ صغیر کا بچپن بھی ان تمام پر اسرار لحموں سے محروم تھاجن کا ذکر ہم اپنے یاروں کو بڑے فخر کے ساتھ بتابے ہیں۔
صغیراسکول اور کتاب کے لفظ سے انجان تو تھے ہی لیکن غربت کی حقیقت سے ضرور آشکار ہو چکے تھے لہٰذا بچپن میں ہی معصوم ہوتے ہوئے بھی معاشرے کے تلخ ترین کام کر کے اپنا گزر سفر کرتے تھے اور ان کی اس بات پر تو ہم ہزار کوشش کے باوجود بھی اپنے ضبط پر بھی قابو نہ رکھ سگے اور پلکوں نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے غربت آنکھوں سے نکل کر رخسار پر اپنا رقص دکھانے لگی۔
بات کچھ یہ تھی کہ سغیر نے بتایا کہ جب بچپن میں وہ ایک گھر میں کام کرتے تھے تو اس گھر کے دو بچوں کے اسکول بیگ اپنے ننھے کندھوں پر رکھ کر انھے اس درسگاہ کے دروازے تک چھوڑ آتے تھے جس میں اندر جانے کی اجازت انہیں آج تک نہیں ملی۔
غربت کی وجہ سے جوانی تو ان پر کبھی آئی ہی نہیں اور لڑکپن کی عمر سے وہ بچے سے آدمی بن کر مختلف مزدوریاں کرتے ہوئے مالش کا کام کرنے سے وابستہ ہو گئے ہیں اور پچھلے دس سال سے وہ ہاتھوں میں تیل کی شیشیاں اٹھائے ہوئے تھکے انسانوں کی تلاش کرتے رہتے ہیں انہوں نے شروع کے چار سال اپنے شہر بہاولپور میں یہ کام کیا لیکن وہاں پر زیادہ مالیشیوں کی وجہ سے انہوں نے روزگار کی تلاش میں پنجاب سے سندھ کی طرف سفر کیا اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کی دلکش اور ٹھنڈی ہواﺅں میں اپنی غربت کی جہنم جیسی آگ کوٹھنڈا کرنے کی کاوش شروع کر دی اور وہ پچھلے چھہ سال سے اسٹیشن روڈپر بستر بچھائے لوگوں کی تھکاوٹ دور کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
وہ روزانہ شام چھہ بچے کے بعد اپنی اسی جگہ پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کی نگاہیں اپنے مخصوص لوگوں کے آنے کی منتظر رہتی ہیں ۔سغیر اسٹیشن کے پاس ہی ایک ہوٹل میں رہتے ہیں وہ صبح کے وقت آرام کر تے ہیں اور رات کو اپنی روزی کا انتظار ۔ سغیر کو دن میں اگر ایک بار بھی کھانا بھی نصیب ہو جائے تو وہ شکر کرتے ہیں اور بقایہ پیسے ایک ایک روپیہ کر کے جمع کرتے ہیں تاکہ وہ واپس اپنے گھر جا کے اپنی بہن اور بھائیوں کی مدد کر سگیں گے وہ بھی پنچاب میں مزدوری کاکام کر رہے ہیں لیکن وہ بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے ان کا خیال رکھتے ہیں اور ان کے لیے پیسے جمع کر کے لے جاتے ہیں۔سیاہ رنگت کے ساتھ سرمئی رنگ کی پر اسرار آنکھوں اور گھنی کالی مونچھوں رکھنے والے سغیر زندگی کو ایک ہی دن میں سمجھتے ہیں۔
ان کی نظر میںزندگی ایک ایک دن کر کے گزارتے ہیں جس دن وہ سات یا آٹھ سو کما لیتے ہیں وہ دن ان کے لیئے دنیا میںرہ کرکسی جنت سے کم نہیں اور جس دن وہ کچھ بغیر کمائے ٹانگیں سیدھی کر کے سو جاتے ہیں ان کے نزدیک حقیقی جہنم وہ ہی ہے۔
سوالات اور جوابات
س: بہت سی دوسری مزدوریوں کے باوجود آپ مالشی کا کام ہی کیوں کرتے ہیں؟
ج: کیوں کہ مالشی ایک ایسا کام ہے جو مجھے صحیح طریقے سے کرنے آتا ہے اور اس کی دوسری وجہ کے یہ کام میں کسی انسان کو سکون دینے کے لیے کرتا ہوںجس کی مجھے خوشی ہوتی ہے جبکہ دوسری مزدوری آپ پورا دن کام کرتے ہیں اور رات کو تھک ہار کر سو جاتے ہیں جبکہ میں ان تھکے ہوئے لوگوں کی تھوڑی سی خدمت بھی کرتا ہوںجس سے مجھے روزگار بھی مل جاتا ہے اور دوسرے شخص کو سکون بھی بس یہ ہی وجہ ہے کہ میںپچھلے دس سال سے یہ ہی کام کر رہا ہوں۔
س:یہ کام آپ نے کس سے سیکھا؟
ج:او بھئی پیٹ انسان کو سب کچھ سکھا دیتا ہے جب آپ نے دونوںسے کچھ کھایانہ ہو تو پھر یہ غربت انسان میں خود بہ خود ہنر کا فن سکھا دیتا ہے۔رہی مالش سیکھنے کی بات تو اس کام کے لیئے ایک مرتبہ کسی استاد سے سیکھنا لازمی ہے تا کہ آپ صحیح طریقے سے یہ کام کر سکیں تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرا پہلا استاد غربت ہے اور اس کے بعد استاد اللہ ڈنو کے ہاتھوں سے یہ کام سیکھا۔
س:آپ سے عموماًکس طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص مالش کراتے ہیں؟
ج:جی زیادہ تر غریب اور مزدوری کرنے والے شخص ہی ہمارے پاس اپنی کھوئی ہوئی توانائی کو بحال کرنے کے لیئے آتے ہیں کیونکہ وہ سارا دن کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے جسم کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے اس لیئے وہ مالش کے لیئے آتے ہیں جبکہ کبھی کبھی کسی بڑی گاڑی میں کوئی شریف آدمی بھی آجاتا ہے تو وہ دن ہمارے لئیے کسی عید سے کم نہیں ہوتا۔
س:اس کام کے دوران آپ کو کون کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
ج:ا و جی مشکلیں ہی مشکلیں ہیں سب سے پہلی مشکل تو انتطار ہے ہمیں کبھی پوری پوری رات انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی کوئی گاہک نصیب نہیں ہوتایہ ہوائی روزگار ہے کبھی ہم ۵ سے ۶ لوگوں کی مالش کرتے ہیں تو کبھی پوری رات تیل کی بوتلوں کو ہلا ہلا کر انتظار میں گزر جاتی ہے اور دوسری مشکلات یہ ہے کہ ہماری جیب پہلے سے خالی ہے اوپر سے مخصوص طبقہ ہمیں اس فٹ پاتھ پر بیٹھنے کے بھی پیسے لیتا ہے جو کہ ابھی ایس ایس پی عرفان بلوچ کی وجہ سے نہیں لے رہے ہیں لیکن پہلے بہت زیادہ لیتے تھے خدا عرفان کو بڑی عمر دے۔
The work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment