Showing posts with label اردو. Show all posts
Showing posts with label اردو. Show all posts

Friday, September 18, 2015

انٹرویو۔جلال الدین اسٹیشن فائر آفیسر حیدرآباد

Received after due date. Can not be considered for marks. 
نام محمد مہد ۔رول نمبر 122 بی ایس پارٹ 3 

انٹرویو۔جلال الدین اسٹیشن فائر آفیسر حیدرآباد 

�آ

س: پاکستان بننے کے بعد حیدرآباد میں کتنے فائر اسٹیشن تھے اور کون کونسی جگہ پر واقع تھے؟

ج: پاکستان کے قیام کے بعد حیدرآباد میں 2فائر اسٹیشن قائم کئے گئے جس میں سے ایک کا نام تھوڑا چاڑی فائر اسٹیشن تھا اور اب اس کا نام تبدیل کر کے عنایت اللہ فائر اسٹیشن رکھ دیا گیا تھا یہ اسٹیشن فقیر کے پیڑ پر واقع ہے اور دوسرا فائر اسٹیشن ٹاور مارکیٹ پر قائم کیا گیا تھا ۔اور پھر جب لطیف آباد کی پلاننگ کی گئی تو ایک اور فائر اسٹیشن ما جی اسپتال کے پیچھے قائم کیا گیا اور پھر جیسے جیسے حیدرآباد کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا تو ایک اورقاسم آباد فائر اسٹیشن کے نام سے رانی باگ اوپین ائیر ٹھٹیر کے نیچے قائم کیا گیا تھا اور یہ سارے اسٹیشن چوبیس گھنٹے امن ہویا جنگ قدرتی آفات یا پھر ڈیزاسٹر ہو یا پھر انسانی غلطی کی وجہ سے کوئی بھی حادثات ہوں ان سب آفات سے نمٹنے کے لئے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔


س:آپ کو کتنے سال ہوگئے اس محکمے میں کام کرتے ہوئے ؟اور اپنی سروس میں کتنے حادثات دیکھے اور کوئی ایسا واقع جو کہ ابھی تک یاد ہو؟

ج: مجھے اس محکمے میں تقریبا28سے 30 سال ہو گئے اور اس وقت سے میں نے سیکڑوں ایسے واقعات دیکھے ہیں جنہیں بیان کرنا بہت مشکل ہے اور اگر بیان کیا جائے تو کئی دن بیت جائے گیں اور ایک دو واقعات ہیں جنہیں میں آج بھی نہیں بھولا جس میں سے ایک واقع میرپورخاص روڈپر کوچ میں آگ لگنے کا ہے جس میں 40افراد جھلس کر جاں بحق ہوگئے تھے اور دوسرا واقع سپر ہاوے پر نوریاباد کے مقام پر بس اور ٹرک کے تصادم کے باعث پیش آیا جس میں 35سے زائدقیمتی انسانی جانیں ذائعہ ہوئی۔



س : جب کسی جگہ آتشزدگی ہوتی ہے تو کتنا وقت لگتا ہے آپکو وہاں پہچنے پر اور کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

ج : فائر برگیڈ کے عملے کو آگ لگنے یا کسی حادثے کی بروقت اطلاع ملتی ہے توفائر برگیڈ کا عملہ فوری طور پر تیا ر رہتا ہے اور جگہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے 5 سے 7منٹ میں پہچنے کی کوشش کرتا ہے اور مشکلات کا سامنہ اس وقت کرنا پرتا ہے جب تنگ سڑکوں پر ٹریفک جام رہتا ہے اور تقریبا حیدرآباد میں تجاؤزات میں کی برمار ہونے کی وجہ سے بھی کئی مشکلات کا سامنہ کرنہ پڑتا ہے۔مگر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد پہنچ جائیں اور دوسری سب سے بڑی وجہ لوگوں میں اویرنیس کا بھی ہے۔



س : سب سے پہلے حادثے کی جگہ پر پہنچ کر کیا کام کرتے ہیں اور ایک گاڑمیں کتنا عملہ بروقت جاتا ہے حادثے کی جگہ پر؟ْ

ج: سب سے پہلے حادثے کی جگہ پر پہنچ کر شفٹ انچارج فائر مینوں کے کرو کو ہدایت دیتا ہے کہ آگ پر قابو پایا جائے اورپھر اس جگہ کا جائزہ لیتا ہے اگر کوئی شخص اندر ہوتا ہے تو فوری طور پر انسانی جان کو بچایا جاتا ہے ۔جب گاڑی اسٹیشن سے روانہ ہوتی ہے تو اس وقت اس میں چھ افراد کا عملہ موجود ہوتا ہے ایک شفٹ ایچارج ،ڈرائیور اور ایک فائر مینوں کا کرو جو کہ 4افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ آگ کو کنٹرول کرتا ہے۔اگر آگ زیادہ بھڑک جائے تو دوسرے فائر اسٹیشنوں سے گاڑیوں کو طلب کیا جاتا ہے اور اگر کئی زیادہ آتشزدگی بھڑ جائے تو ڈپٹی کمشنر کے ذریعے دوسرے شہروں سے گاڑیوں کو طلب کیا جاتا ہے ۔



س : اس وقت حیدرآباد میں کتنی گاڑیاں فائر برگیڈ کے پاس ہے اور کتنا سازو سامان ہے آگ سے لڑنے کے لئے ؟اور اگر ایک گاڑی کا پانی ختم ہو جائے تو دوسری گاڑی کو کتنا ٹائم لگتا ہے پانی بھر کر لانے میں؟ْ

ج: اس وقت پورے حیدرآباد میں پانچ فائر اسٹیشنوں پر تقریبا 14سے 15گاڑیاں ہیں جو کہ پورے حیدرآباد کے لئے ناکافی ہے کیونکہ انٹرنیشنل فائر لاء کے مطابق ایک لاکھ کی آبادی پر ایک فائر اسٹیشن ہونا چاہیے اور سازوسامان بھی نا ہونے کے برابر ہے۔حیدرآباد میں گاڑیوں کو پانی بھرنے کے لئے پمپنگ اسٹیشنوں پر جانا پڑتا ہے ایک گاڑی کو پانی بھرنے کے لئے 3سے 5منٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ حیدرآباد میں کل تین پمپنگ اسٹیشن ،ایک مانا ڈوری ،دوسرا قاسم آباد پمپنگ اسٹیشن اور تیسرا لطیف آباد چھ نمبر پمپنگ اسٹیشن ہے۔جب حادثے دوران پانی ختم ہوتا ہے تو زیادہ ٹریفک اور تجاؤزات کی وجہ سے دن کے اوقات میں اس کا دورانہ 30سے 45منٹ لگ جاتے ہیں اگر رات کے وقت ہو تو 10سے 12منٹ لگتے ہیں کیونکہ حیدرآباد میں پمپنگ اسٹیشنوں کی تعداد بھی بہت کم ہے ۔



س :زیادہ تر آگ لگنے کی کیا وجہ سامنے آتی ہے اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کس طرح آگ پر قابو پا سکتے ہیں ؟

ج:زیادہ تر آگ لگنے کی وجہ شورٹ سرکٹ ،گیس کا لیک ہونا یا پھر سامان کا بے ترتیب رکھا ہونا اور انسان کی خد کردا ایسی کئی غلطیاں ہوتی ہیں جس کے باعث آگ لگتی ہے اور اگر آگ لگ جائے تو سب سے پہلے اس جگہ کو خالی کروالیا جائے تا کہ جانی نقصان ہو نے سے بچایا جائے آگ بجانے کے لئے سب سے بہتر میڈیا پانی ہے جو ٹھوس فائر کو کنڑول میں کر سکتا ہے اور اگر لیکویڈ فائر ہو مثلاپیٹرول ،ڈیزل ،آئل ،گیرس یا کھانے کے تیل سے آگ لگ جائے تو فوم کا استعمال سب سے اچھا ہے اگر لیکویڈ فائر میں پانی کا استعمال کیا جائے گا تو آگ اور بھڑک جائے گی جس سے کئی گناہ نقصان ہو سکتا ۔



س:لوگوں کو کیا میسج دینا چاہے گیں کہ لوگ اس سے کیسے بچ سکتے ہیں۔

ج:لوگوں کے لئے میں یہ میسج دینا چا ہو گا کہ دنیا میں سب سے خطرناک آگ ہے اس کو بجانے یا اس سے بچنے کے لئے فائر برگیڈ ،سول

ادارے یا دیفینس اداروں سے تربیت یا اویرنس حاصل کریں تا کہ لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت کر سکے ۔
Key words: Fire station, Mahad , Hyderabad, Jalaluddin, Sohail Sangi,
This practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Tuesday, September 15, 2015

بولیو ارڈ مال Referred back

Referred back,
Feature is always reporting based. Means ur personal observation, talk with related people and their quotes, secondary data, how many other mall are already here, and how this one will be different.  etc. 
total area, its shapes, type of construction, look also necessary.
Experts opinion, what impact it will make on Hyd people. 
 The basic purpose of feature is to entertainment, means written in interesting manner, This is written like article. 
 Foto will also be required. 
 Now u are editor, u should observe para.
  
فیچر:- کائنا ت مبشر MC-2K13
رول نمبر 53
بولیو ارڈ مال حیدرآباد
جیسے جیسے ہمارا ملک پاکستان ترقی کو سطح پر چڑھتا جارہا ہے ویسے ویسے پاکستان کاپرشہر بھی ترقی کرتاجارہا ہے۔حیدرآباد میں بمقا بل کراچی کے اب بہت سے سپر مارکیٹ اور ما ل بنتے جارہے ہیں ۔ بہت سے شاپنگ مال تو حید رآباد کے مشہور ترین مال بن گئے ہیں۔ کچھ ہی سال پہلے حیدرآباد کے علاقے ذیلَ پاک مین حیدرآباد کی تا ریخ کا سب سے بڑا 

مال بنے کا آغاز ہوا ہے جس کا نام یو لیوارڈ مال ہے ۔ یہ مال حیدرآبادمیں واقع تمام مال میں سے سب سے بڑا مال ہوگا۔ جس میں واقع دنیا بھرکے برانڈس ہونگے ۔ اس مال میں کچھ ایسی بت نئی چیزوں کا انعقا د کیاگیا ہے جو حیدرآباد کی تاریخ میں نہ کبھی دیکھی گئی نہ کبھی سنی گئی۔اس مال مین نیشیل اور انڑنیشیل تمام برانڈس رکھے جائیں گے۔ بولیوارڈ مال مین حیدرآباد کے علاقے ذیلَ پاک مین بنایا جارہا ہے ۔ ذیلَ پاک حیدرآباد کے ان علاقوں میں شامل ہے۔ جہاں ابھی تک آبادی نہیں ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہاں یہ واضح ہوتاہے کہ حیدرآباد کا علاقہ ذیلَ پاک آنے والے وقتوں میں ترقی کا حامل ہوگا۔حیدرآباد کی تاریخ میں شاپنگ مال بنانے کا افتتاح 2003 میں ہوا ۔اور پھر ہلکے ہلکے حیدرآباد میں ایک سے دواوردو سے چار وقت کے ساتھ ساتھ شاپنگ مال بنتے چلے گئے۔مگرابھی تک حیدرآباد کی تاریخ میں کوئی بھی ایساشاپنگ مال نہیں بنایا گیا جو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شاپنگ مال کا مقابلہ کرسکے۔ اس بعد فتع گروپ آف کنسرکشن نے بولیوارڈ مال بنانے کا آغاز کیا ۔ بالیوارڈ مال حیدرآبادکی تاریخ کاسب سے بڑا پر اجیکٹ ہے اس مال کے اووترکا نام سیف ہمایوں ہیں جوکہ حیدرآباد کے جانے مانے بلڈرز میں سے ایک ہیں ۔بولیوارڈ مال اتنا بڑا ہیاس کی تخلیق کیلئے کا فی ساری کنسڑکشن کمپنی بھی ہے۔بولیواردمال کی اہمیت اسکی تخلیق کے ساتھ ساتھ اتنی بڑھتی جارہی ہے کہ اس میں بنائی گئی دوکان کی قیمت کروڑو نمین ہے اور یہ پورا پروجیکٹ اربوں روپے کی قیمت کا حامل ہے ۔ اس مال کو سنیڑل ایئرکنڈیشنڈبنایا جارہاہیاوراس میں 3Dسیمنابنائے کا آغاز کیاگیا ہے ۔ جو کہ حیدرآباد کی تاریخ کا پہلاسیمناہوگا۔ اور اس مال میں بہت سی نت نئی چیزویں بنائی جارہی ہیں ۔ پر ابھی تک اس مال کا افتتاح نئی کیاگیا ہے۔ جب ہم نے اس مال کے اوونرسے بات جیت کی تو ہمیں پتا چلا ہے اس مال کی تخلیق کا کام ذورو شور سے جارہی ہے۔ اوونرکی پوری کو شش ہے کہ اس مال کا افتتاح جلدازجلدکیا جائے تاکہ حیدرآباد مین رہنے والے لوگ اس مال کی خوبصورتی لطف اندوزہوسکیں۔اس مال کی عمارت انتہائی خوبصورت بنائی جارہی ہے مال کے اندراور باہر بہت ہی خوبصورت فرنیچرکے ساتھ دوکا ن بنایءں جارہی ہے مال کے باہر بہت ہی اچھی پارکنگ کا انتظام کیا گیا ہے اور اس مال میں بہت ہی خوبصورت ہوٹل اور ریسٹورنٹ بھی بنائے جارہے ہیں۔ جس طرح ہمارا ملک ترقی کرتاجارہاہے ویسے ہی ہماری قوم میں بھی شعور پیدا ہوتا جارہاہے ان میں سے شعور کا نیتجہ بولیوارڈمال ہے۔

سندھ مین رہ کر انگریزی بولنے کا رجحان Referred back


Referred back
U should also write what are losses of not learning Sindhi and also benefit of learning Sindhi. Make it in points: Loss No:1... 2:... ec. First para about imporatnce of english be made small. 
 Please send file with proper file name, Avoid sending two pieces in one file. if two pieces are in same file it should be mentioned in the email msg.

آرٹیکل:- کائنا ت مبشر MC-2K13

رول نمبر 53
سندھ مین رہ کر انگریزی بولنے کا رجحان
انگریزی (English)انگلستان سمیت دنیا بھر میں بولی جانے والی ایک وسیع زبان ہے جومتعدد ممالک میں بنیادی زبان کے طور پر بولی جاتی ہے ۔دنیاکے کئی ممالک میں سب سے ذیادہ بڑھتی اور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ یہ دنیا بھر میں رابطہ کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ انگریزی زبان کو اکثرلوگ تا نو ی یارابطے کی زبان کے طورپر بولتے ہیں جس کی بدولت دنیا بھر میں انگریزی بولنے والے افراد کی تعداد ایک ارب سے زیارہ ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً35کروڑ40لاکھ افراد کی مادری زبان انگریزی ہے جبکہ نانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی بولنے والوں کی تعداد 15کروڑسے ڈیڑھ ارب کے درمیان ہے۔انگریزی مواصلات ،تعلیم ،کاروبار،ہوابازی، تقریح،سفارت کاری اور انڑنیٹ میں سب سے برتربین الااقوامین زبان ہے۔ انگریزی بنیادی طورپرمغربی حیرمینک زبان ہے جوقدیم انگلش سے بنی ہے ۔ انگریزی بولنے کارجحان وقت کے ساتھ ساتھ انتابڑھ گیاہے کہ لوگ اب اپنی قومی زبان کوبھول کر انگریزی کو قائم کر بیٹھے ہیں۔ 

پاکستان کے چار صوبے ہیں۔ سندھ ، پنجاب،خیبرپختواہ، بلوجستان ہرصوبے میں سندھی کے بجائے انگریزی بولنے کو ذیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ہالانکہ سندھ ہماری ثقافت ہے۔ہمیں سندھ میں رہ کر اپنی صوبہ کی زبان کی پیووی کرنی چاہیے مگرہم سندھی نہیں بولتے بلکہ انگریزی زبان کو اہمیت دیتے ہیں۔ان سب کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو جس طرح اردو کی "خوشخطی" سکھرائی جاتی ہے اس طرح سندھی زبان کی "اکر"نہیں سکھائی جاتی کچھ تعلیمی اداروں میں دورہ کرنے کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کچھ اسکولوں میں سندھی ٹیچراسیے منعقد کیئے گئے ہیں جن کو خود سندھی بولنیاور سمجھنی نہیں آتی وہ بچوں کی کتابوں پر سندھی کے اردومعٰنی ترجمعہ کی طرح لکھ دیتے ہیں ۔ان وجوہات کی بناپر بچوں کو سندھی بولنی اور سمجھنی نہیں آتی بجائے سندھی کو اہمیت دینے کہ تعلیمی اداروں میں انگریزی بولی جاتی ہے اور سکھائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ صوبہ سندھ میں رہنے والے لوگوں کو سندھی بولنی اور سمجھنی نہیں آتی جو زبان ہمیں ہمارے صوبے کی پہچان کرواتیہے وہی زبان ہم بولنے اور سیکھنے سے پرہیز کرتے ہیں اسی وجہ سے ہم اپنی ثقافت سے دورہوتے جارہے ہیں۔سندھی زبان کو سیکھنے کی تلقین بھی کرنے ہیں یہ بھی ایک طرح کا تفاد ہے جس میں کچھ ہماری اپنی غلطیاں ہیں، کچھ معاشرے کی غلطیاں ہیں اور کچھ تعلیمی اداروں کی غلطیاں ہیں اگر ہم اپنی ثقافت ک بھرپور طریقے سے اپنا نے کا ارادہ کر لیں گیں تو کبھی بھی صوبہ سندھ میں رہنے والے لوگ اپنی صوبائی زبان کو بولنا نہیں بھولیں گے۔

Sunday, September 13, 2015

نجی اسکولز کا بڑھتا ہوا رجحان referred

 اس موضوع پر کئی ریسرچ رپورٹس ہیں ان کا حوالہ دو اور بہتر بناؤکئے ہیں۔ 

محمد اسد عبا سی رول نمبر 2k13/mc/65

نجی اسکولز کا بڑھتا ہوا رجحان۔(ارٹیکل)

اعلی و معیاری تعلیم کے فروغ کا جو مشن محکمہ تعلیم کے ذمے ہے۔ اس میں سے چالیس فیصد نجی اداروں کو بھی دیا گیا ہے۔ لیکن معیار تعلیم دیکھ کر لگتا ہے کہ اس اہم شعبے کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ حکومت کی اس بدانتظامی کی وجہ سے عام آدمی اپنے بچوں کو نجی اسکولز میں تعلیم دلانے پر مجبور ہے ۔ نجی اسکولز میں بہتر تعلیمی سہولیات اور بہتر نتائج کی وجہ سے ملک کے ہر بڑے شہر میں ہر سال چھ سے آٹھ فیصد نجی اسکولز قائم کئے جاتے ہیں۔
نجی اسکولز کے بارے میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ یہاں تعلیم قومی ذمہ داری کے تحت نہیں بلکہ کاروباری نکتہ نظر کے مطابق فراہم کی جارہی ہے لیکن اس کاروبار میں تمام نجی اسکولز شامل نہیں۔ مگر ایک اندازے اور سروے کے مطابق 80 فیصد نجی اسکولز جو صرف کاروباری نیت سے ہی علم کی روشنی پھیلانے کاڈھونگ رچا رہے ہیں۔ اور یہ ہی نہیں بلکہ کچھ نجی اسکولز کا یہ انکشاف بھی ہوا ہے جو تعلیمی سہولیات کی فراہمی کا جھانسہ دے کر والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اس کام میں نجی اسکولز کا یہ کاروبار اس لئے عروج پر ہوتا جارہا ہے کیونکہ تمام والدین چاہتے ہیں کہ انہیں دو وقت روٹی کاحصول ہی کیوں نہیں مشکل ہو لیکن وہ اپنے بچون کو ہر طریقے سے بہترین تعلیم فراہم کرسکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 80 فیصد والدین ان کاروباری تعلیم فروشوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں بلکہ والدین ہی نہیں جو اساتذہ نجی اسکولز میں پڑھاتے ہیں ان کے ساتھ بھی نہ انصافیاں کی جاتی ۔ اس پیر اگراف میں اسکول فیس، اور دیگر اسکول کے خرچے دو، کہ بڑے، درمیانے اور چھوٹے نجی اکسلوں میں کیا صورتحال ہے۔
اساتذہ کا سب سے اہم مسئلہ ماہانہ تنخواہ کا ہے۔اسکول کو رجسٹر کرانے اورتعلیمی بورڈ سے اجازت لینے کے لئے اساتذہ کی کوالی فیکیشن کے مطابق ماہانہ تنخواہ بڑھا چڑھا کر لکھی جاتی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ ایسے کیس بھی سامنے آ!ے ہیں کہ پندرہ سوروپے سے شروع ہونیوالی تنخواہ 3000روپے پر ختم ہوجاتی ہے۔ اور موسم گرما اور سرما اور دیگر تعطیلات کی تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ بلکہ اگر کوئی ٹیچر بیماری یا کسی مجبوری کے تحت چھٹی کرلے تو اس کی یومیہ تنخواہ سے کٹوتی ہوجاتی ہے۔ نجی اسکولز کے مالکان کا کاروبار چمکتا ہے ۔عوام اوراساتذہ بیروزگاری کے باعث ان نجی اسکولز میں ملازمت کررہے ہیں ان کے پیٹ کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ،محکمہ تعلیم کو ان نجی اسکولز پر نظر رکھ کر اس بازار کو ختم کیا جائے اور سرکاری سطح پر اچھی تعلیم فراہم کی جائے جس سے اس ملک کی عوام غریب اور مجبور اساتذہ کو تحفظ مل سکے۔

اس میں کیا چیز ریوائیز کی ہے؟ نجی اکسلوں کی فیس کے معاملے پر ابھی تو ملک بھر میں تحریک چل رہی ہے۔ مظاہرے ہورہے ہیں۔ ٹھیک سے لکھو، کوئی اعداد وشمار دو۔ نیٹ پر بھی اعداد وشمار موجود ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کو حیدرآباد یا سندھ کی لیول پر لکھو۔ پیرا گراف ٹھیک سے بناؤ۔ اس کے کچھ حصے میں نے ایڈٹ  

------------------------------------------
Referred back 
U should have sent file with proper file name and on this context ur marks will also be deducted.  The format is also BOI, not proper inpage.
Ap kia ho? Asad Abbasi, Muhammad Asad Abbasi, Ya Muhammad Asad? This creates problem in Tagging and search
 محمد اسد رول نمبر 
2k13/mc/65


نجی اسکولز کا بڑھتا ہوا رجحان۔(ارٹیکل)

اعلی و معیاری تعلیم کے فروغ کا جو مشن محکمہ تعلیم نے اپنے ذمے لیا ہے اس میں سے چالیس فیصد نجی اداروں کو بھی دیا گیا ہے لیکن حکومت کی جانب سے تعلیم ہمارے ملک عزیز کے طالبعلموں کو فراہم کی جارہی ہے اس تعلیم کا کوئی پرسانے حال نہیں ہے۔ حکومت کی اس بدکاری کی وجہ سے ملک عزیز کی عوام اپنے بچوں کون جی اسکولز میں تعلیم دیلانے کو ترجیح دیتی ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہر دور میں نجی اسکولز میں بہترین تعلیمی سہولیات اور بہترن نتائج کی وجہ سے ملک کے ہر بڑے شہر میں ہر سال چھ سے آٹھ فیصد نجی اسکولز قائم کئے جاتے ہیں۔ لیکن اب نجی اسکولز کے بارے میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ یہاں قومی ذمہ دارے کے تحت نہیں بلکہ کاروباری نکتہ نظر کے مطابق فراہم کی جارہی ہے لیکن اس کاروبار میں تمام نجی اسکولز شامل نہیں۔ مگر ایک اندازے اور سروے کے مطابق 80 فیصد نجی اسکولز جو صرف کاروباری نیت سے ہی علم کی روشنی پھیلانے کاڈھونگ رچا رہے ہیں۔ اور یہ ہی نہیں بلکہ کچھ نجی اسکولز کا یہ انکشاف بھی ہوا ہے جو تعلیمی سہولایت کی فراہمی کا جھانسہ دے کر والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اس کام میں نجی اسکولز کا یہ کاروبار اس لئے عروج پر ہوتا جارہا ہے کیونکہ والدین تمام والدین چاہتے ہیں کہ انہیں دو وقت روٹی کا حصول ہی کیوں نہیں مشکل ہو لیکن وہ اپنے بچون خو ہر طریقے سے بہترین تعلیم فراہم کرسکیں اور یہی وجہ ہے کہ 80 فیصد والدے ان کاروباری تعلیم فروشوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں بلکہ والدین ہی نہیں جو اساتذہ نجی اسکولز میں پڑھاتے ہیں ان کے ساتھ بھی نہ انصافیاں اور ظلم ڈھائے جاتے ہیں جبکہ اساتذہ کا سب سے اہم مسئلہ ماہانہ تنخواہ کا ہے۔ نجی اسکولز میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ بلکہ اب تو یہ ان کی پالیسی کا مضبوط حسہ بن چکی ہے کہ محکمہ تعلیم سے اپنے اسکول کو رجسٹر کروانے اورتعلیمی بورڈ سے الحاق لینے کے لئے اساتذہ کی کوالی فیکیشن کے مطابق ماہانہ تنخواہ بڑھا چڑھا کر لکھی جاتی ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ یہاں ایسے کیس بھی سامنے آ!ے ہیں کہ پندرہ سوروپے سے شروع ہونیوالی تنخواہ 3000روپے پر ختم ہوجاتی ہے۔ اور موسم گرما اور سرما اور دیگر تعطیلات کی تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ بلکہ اگر کوئی ٹیچر بیماری یا کسی مجبوری کے تحت کرلے تو اس کی یومیہ تنخواہ سے کٹوتی ہوجاتی ہے۔ نجی اسکولز کے مالکان اپنے اس کاروبار میں مگن ہو کر عوام اور غریب اساتذہ جو جاب نہ ہونے کے باعث ان اسکولز میں ملازمت کررہے ہیں ان کے پیٹ کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں 

Saturday, September 12, 2015

سعدعلی سے انٹرویو


نظر ثانی شدہ

محمد اسد عباسی 2k13/MC/65 3rd Piece

ڈی جے سعد علی سے انٹرویو

تعارف:

سعد علی ایف ایم 101 پر تقریباً 14 سال سے بحیثیت ڈی جے کام کررہے ہیں۔ سعد علی 6جون 1988 کو حیدرآباد کے کھا ئی روڈ کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے جامع سندھ سے اسلامک اسٹڈی میں ماسٹرس کیا ۔ انہوں نے بچپن سے ہی ریڈیو سے تعلق ہونے کی وجہ سے انٹر کے بعد ریڈیو کے سیمی چینل ایف ایم میں بطور ڈی جے کام کرنا بہتر سمجھا۔ 

س ڈی جے کسے کہتے ہیں؟

جواب ڈسک جو گی کو کہتے ہیں جس نے سب سے پہلے ایف ایم 101کو متعارف کرایا اس لیے اس کا نام ڈی جے دیا۔ ڈی کا مطلب لوگوں کو انٹر ٹینمنٹ فراہم کرنا ۔ مثال کے طور پر کرنٹ افےئرز کے ٹاپکس پر بات کرنا ۔ 


س ڈی جے اور آر جے میں کیا فرق ہے ؟

جواب ڈی جے کہتے ہیں ڈسک جو گی کو اور آرجے کہتے ہیں ریڈیو جوگی کو ریڈیو جوگی کے تمام پروگرام اسکرپٹ ہو تے ہیں کیونکہ وہ ایک سرکاری ادارہ ہے ۔ 

س آپ ڈی جے کیسے بنے؟

جواب میں نے اپنا آغاز بچوں کے پروگرام پھول واری سے کیا اور اس پروگرام میں ایک سیگمینٹ ہوا کرتا تھا سائنس کی دنیا جس میں میں بچوں کی پڑھائی کی اصلاح کرتا تھا ۔ اس کے بعد میں نے ڈومیسٹک کھیلوں کی خبریں پڑھی اورکھیلوں کے پروگرام کیے ۔انٹر کے بعد میں نے ایف ایم 101 پر اپنا پہلا پروگرام کیا ۔

س ڈی جے کو کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

جواب سب سے پہلے آپکو پتہ ہونا چاہئے کہ آپ کس ٹائم پر پروگرام کررہے ہیں ۔ ڈی جے کے پاس 4 طرح کے وقت ہوتے ہیں۔ اس کو ان وقتوں کے مطابق پروگرام کرنا چاہئے۔ ڈی جے جس ٹاپک پر بات کاررہا ہے اس کو اس ٹاپک کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئے۔ ایک ڈی جے کو لفظوں کا تناؤ اچھی طرح آنا چاہئے۔ 



س ڈی جے بننے میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟

جواب ایک اچھا ڈی جے بننے کے لئے خود کی محنت ضروری ہوتی ہے۔ اسکو اپنا سیلف مطالعہ اچھا کرنا چاہئے تا کہ وہ تمام ٹاپکس میں کھل کر بول سکے ۔آج سے دس بارہ سال پہلے ایف ای کے ڈی جے کو بہت سے مسائل ہوا کرتے تھے ۔ کیونکہ پاکستان میں چند سنگر ہوا کرتے تھے اور سال میں اپنا ایک ایلبم نکالا کرتے تھے ۔ اس لیے لسنر کی فرمائش کو پورا کرنا مشکل ہوتا تھا ۔لیکن اب کمپیوٹر سے پلے کیے جا تے ہیں تو دو مہینوں کی ٹریننگ بہت ہے ۔ 



س ایک ریڈیو کے ڈی جے اور پرائیوٹ چینل کے ڈی جے میں کتنا فرق ہوتا ؟

جواب ڈی جے میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ لیکن رولز اور ریگولیشن مختلف ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایف ایم 101ایک سیمی گورنمنٹ ادارہ ہے جس میں آپ پاکستان کے علاوہ کسی اور کنٹری سانگ پلے نہیں کرسکتے۔ پہلے کی نسبت ہمیں بہت آسانیاں ہوگئیں ہیں کیونکہ پچھلے وقتوں میں چند ایک سنگر ہوا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ایک سانگ کو بار بار پلے کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن اب نیو آنے والے سنگرز نے آسانیاں کردی ہیں۔ 


س ڈی جے کو لسنرز کی کن باتوں کا خیال رکھنا چائے؟

جواب سب سے پہلے ڈی جے کو لسنرز کے موڈ کا پتا ہونا چائے کہ وہ کیا سننا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے پاس UN نمبرز ہوتے ہیں جس سے ہم لاؤ کال لیتے ہیں اور لسنرز کے ریکویسٹ پر سانگ پلے کرتے ہیں۔ 

بی ایس پارٹ تھری سیکنڈ سیمسٹر،

ستمبر 2015 
Key words: FM 
Hyderabad, DJ Saad Ali, Muhammed Asad Abbasi, Sohail Sangi,
This practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi


------------------ FIRST VERSION ---------------------------

Refer back
Kaprra amrket ka elaqa? Specify, Bachpan se Q shoq tha? koi wajh? D.J aur RJ main kia farq hota hae? 
محمد اسد عباسی 2k13/MC/65 3rd Piece

ڈی جے سعد علی (انٹرویو)

تعارف:

سعد علی ایف ایم 101 میں تقریباً 14 سال سے ڈی جے کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ سعد علی 6جون 1988 کو حیدرآباد کے علاقے کپڑا مارکیٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے جامع سندھ سے اسلامک اسٹڈی میں ماسٹر کیا اور بچپن سے ہی ریڈیو سے تعلق ہونے کی وجہ سے آپ نے انٹر کے بعد ریڈیو کے سیمی چینل ایف ایم میں بطور ڈی جے کام کرنا بہتر سمجھا۔ 



س ڈی جے کسے کہتے ہیں؟

جواب ڈسک جو گی کو کہتے ہیں جس نے سب سے پہلے ایف ایم 101کی بنیاد رکھی اس کا نام ڈی جے تھا۔ ڈی کا مطلب لوگوں کو انٹر ٹینمنٹ فراہم کرنا ۔ مثال کے طور پر کرنٹ افےئرز کے ٹاپکس پر بات کرنا ۔ 



س آپ ڈی جے کیسے بنے؟

جواب میں نے اپنا آغاز بچوں کے پروگرام پھول واری سے کیا اور اس کے بعد ایک پروگرام کرتا تھا سائنس کی بنیاد۔ اس وقت میں میٹرک کلاس میں تھا۔ اور بچوں کے کھیلوں کے پروگرام کیا کرتا تھا۔ انٹر کے بعد میں نے اپنا پہلا شو ایف ایم پر کیا۔ 



س ڈی جے کو کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

جواب سب سے پہلے آپکو پتہ ہونا چاہئے کہ آپ کس ٹائم پر پروگرام کررہے ہیں ۔ ڈی جے کے پاس 4 طرح کے وقت ہوتے ہیں۔ اس کو ان وقتوں کے مطابق پروگرام کرنا چاہئے۔ ڈی جے جس ٹاپک پر بات کاررہا ہے اس کو اس ٹاپک کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئے۔ ایک ڈی جے کو لفظوں کا تناؤ اچھی طرح آنا چاہئے۔ 



س ڈی جے بننے میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟

جواب ایک اچھا ڈی جے بننے کے لئے خود کی محنت ضروری ہوتی ہے۔ اسکو اپنا سیلف مطالعہ اچھا کرنا چاہئے تا کہ وہ تمام ٹاپکس میں کھل کر بول سکے ۔




س ایک ریڈیو کے ڈی جے اور پرائیوٹ چینل کے ڈی جے میں کتنا فرق ہوتا ؟

جواب ڈی جے میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ لیکن رولز اور ریگولیشن مختلف ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایف ایم 101ایک سیمی گورنمنٹ ادارہ ہے جس میں آپ پاکستان کے علاوہ کسی اور کنٹری سانگ پلے نہیں کرسکتے۔ پہلے کی نسبت ہمیں بہت آسانیاں ہوگئیں ہیں کیونکہ پچھلے وقتوں میں چند ایک سنگر ہوا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ایک سانگ کو بار بار پلے کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن اب نیو آنے والے سنگرز نے آسانیاں کردی ہیں۔ 



س ڈی جے کو لسنرز کی کن باتوں کا خیال رکھنا چائے؟

جواب سب سے پہلے ڈی جے کو لسنرز کے موڈ کا پتا ہونا چائے کہ وہ کیا سننا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے پاس UN نمبرز ہوتے ہیں جس سے ہم لاؤ کال لیتے ہیں اور لسنرز کے ریکویسٹ پر سانگ پلے کرتے ہیں۔ 

پروفائل:پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن


پروفائل:۔ پروفیسر ڈاکڑ صادق میمن:۔

تحریر: عبدلرافع سہیل:۔

2k13/MC/03

ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور دکھی انسان ذات کی خدمت کرتے ہیں۔اس لیے انہیں مسیحا کہاجاتا ہے۔لوگ اس مرتبے کی بہت عزت کرتے ہیں اور یہ سچ ہے کہ آج کل ایسے بھی نامی گرامی لوگ اس دنیا میں موجود ہیں جو ڈاکٹروں کے نام پر سیاہ دھبہ ہیں ۔بہر حال تمام ڈاکٹر جعلی یا نا اہل نہیں ہوتے اور چند ایسے ڈاکٹر اور طبیب لوگ موجود ہیں جو ہمیں ہمارے معاشرے میں نظرآتے ہیں جو اپنی محنت جستجو اور کوششوں کے دم سے پہچانے جاتے ہیں۔
انہیں میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن ہیں جو26جنوری 1969 ؁میں پاکستان کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔والد کا نام عبدلعزیز میمن تھا ۔ انکے والد ایک نہایت ہی سادہ زندگی گزار پسند آدمی تھے انکا تعلق بھارت کے شہر کاٹھیاوار سے تھا 1947 ؁ء میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے شہر حیدرآباد آگئے اور یہیں پناہ لینے میں اپنی آفیت جانی۔ڈاکٹر صادق میمن نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی اور انٹر میڈیٹ گورمنٹ کالج کالی موری سے پاس کیا۔تعلیم کو ہی اپنا ہتھیار سمھجتے ہوئے ہار نہ مانی ڈاکٹر بنے کا شوق تو بچپن ہی سے تھا اور خواب تھا کہ غریبوں اور مستحکوں کی مدد کروں۔
اپنی اس امید کوقائم رکھتے ہوئے ہار نہ مانی اور 1987 ؁ء میں لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ اینڈ سائنس میں داخلہ لے لیا اور یہیں سے اپنے کیریئر کا آغاز شروع کیا۔اتنے وسائل درپیس نہ ہونے کی صورت میں آپ نے ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ محنت میں شرم محسوس نہ کی اور کلاتھ مارکیٹ حیدرآباد میں ایک کپٹرے کی دکان پر بطور ملازمت اپنی خدمات سر انجام دیں اور اسکے ساتھ 
ساتھ بچوں کو گھر گھر جا کر ٹیوشن پڑہاتے اور اپنی میڈیکل کی پڑہائی کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے اپنی اس محنت کی کمائی کی رقم سے اپنی پڑہائی کے اخراجات خود اٹھاتے والد کو کسی قسم کی پریشانی نہیں دیتے۔
1992 ؁ء میں آپ نے اپنا ایم۔ بی۔ بی ۔ایس مکمل کرلیا اور ڈاکٹر کا لقب اپنے نام کے ساتھ جوڑ لیا۔
لیکن MBBS کرنے کے بعدانہوں نے کسی ایک مرض میں مہارت حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی اور پھر ماہر امراض معدہ وجگر کی تعلیمی اسناد حاصل کر چکے ہیں اور اپنے فن میں اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ پورے ملک اور بیرون ممالک میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں پہلے انکا ایک چھوٹا سا کلینک ہوا کرتا تھا لیکن مریضوں کے مرض اور علاج کے لیے اپنا خود کا ہسپتال شروع کیا اور آج انکا ہسپتال ملک کے چند بہترین ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ دیگر ممالک کے بھی دورے کرتے ہیں اور جگر کے مریضوں کو اللہ کی مدد سے شفاء یاب بھی کرتے ہیں بھارتی ڈاکٹروں نے جو جگر کا پہلا ٹرانسپلانٹ کیا تھا آپ بھی اس میں شریک ہوئے تھے ۔جس مریض کا علاج یہاں ممکن نہیں ہوتاتو یہ دیگر ممالک کے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے
ہیں جس میں بھارت کا نام سرفہرست ہے۔
جگر کے مریض کا ایک علاج جسے ای۔آر۔سی۔پی کہا جاتا ہے جو کہ آغا خان میں 60ہزار سے 1لاکھ تک ہوتا سے وہی علاج آپ کے ہسپتال میں 5سے10ہزار میں کیا جاتا ہے اور اگر جو مریض علاج کا خرچہ نہیں اٹھا سکتا تو آپ اسکا علاج بطور انسانیت مفت میں کرتے ہیں۔
آج کل دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اپنی ذات سے کسی دوسرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں مگر آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے اچھے لوگ مل ہی جاتے ہیں جیسے کہ پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن ہیں انکی شخصیت کو دیکھ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی اس زندگی میں پیسہ کو ہی اپنا سب کچھ نہ سمجھا بلکہ اپنی عزت اور شہرت کو اونچائی پر رکھا۔
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Wednesday, September 9, 2015

فیچر: پران کی سرزمین کی عظیم درسگاہ final




فیچر: پران کی سرزمین کی عظیم درسگاہ

تحریر: محسن علی ٹالپر

میرپوخاص سے تقریباً ۵۰ کلو میٹر کی مسافت کے بعد آنے والے شہر ٹنڈو جان محمد کے شہر کے مکین
 گورنمنٹ ڈگری کالج ٹنڈو جان محمد کا نام سنتے ہی سا بق رکن مغربی پاکستان اسمبلی میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر کو عقیدت کا سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس چھوٹے سے شہر میں علم کی شمع کو روشن کر
کے علمی اعتبار سے معتبربنا دیا ۔



اس کالج کے بانی سے متعلق ایک دلچسپ قصہ منسوب ہے کہ مغربی پاکستان کی اسمبلی میں ٹنڈو جان محمد سے تعلق رکھنے والے میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر کو اس وقت کے گورنر امیر محمد خان نے مطلع کیا کہ میر صاحب آپ کے شہر کا کا لج ’ڈگری‘ کیا جا رہا ہے۔ میر صاحب غصہ ہوئے اور زوردار لہجے میں کہا کہ ڈگری میں کالج دے رہے ہیں؟ یہ کالج میرے شہر ہی میں بنے گا۔ میر صاحب ’ڈگری ‘ لفظ سے یہ سمجھے کہ شاید یہ کالج ساتھ والے شہر ’ڈگری‘ منتقل کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ وہ اتنے زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن علم کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہونی چاہیے میر صاحب کو اس کا بخوبی ادراک تھا۔



میر صاحب نے ۱۶ یکڑ زمین عطیہ کر کے ایک ایسے خوبصورت درسگاہ کی بنیاد رکھی ۔یہ کالج ۱۹ نومبر ۱۹۶۴ ء میں قائم ہوا جو وقت کے ساتھ اور جواں ہو رہا ہے۔اس کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر سید مسعود علی شاہ تھے ، جب کے ا س وقت پرنسپل کے فرائض پروفیسر قاضی علی محمد انجام دے رہے ہیں ۔اس کا
لج کو یہ فخر حاصل ہے۔



اس کی نگرانی کے فرائض ہمیشہ بہترین اور قابل لوگوں کے ہاتھ میں آئے ہیں جنہوں نے اس کالج کے ترقی کے سفر کو کبھی رکنے نہیں دیا ایسے اساتذہ میں محمد علی لغاری ، عباس علی خان، احسان قدیر آرائیں، غلام محمد ٹالپر اور ظہیر اقبال زیدی جیسیِ علم دوست شخصیات شامل ہیں ۔



کالج کے ابتدائی دنوں میں کلاسز ایم ایچ کے ہائی اسکول کے ہاسٹل میں ہوتی تھیں جب کہ نئی عمارت بننے کے بعد ۱۹۸۳ میں کلاسز موجودہ عمارت میں ہونے لگی۔ کالج کی موجودہ خوبصورت دو منزلہ عمارت سر سبز اور گھنے درختوں کے بیچ میں واقع ہے۔ اس وقت یہ کالج بی ایس سی ۔بی اے اور ایم اے پرائیویٹ کی تدریسی سہولت فراہم کرتا ہے ۔اس کالج سے نہ صرف شہر کے مقامی با شندے تعلیم کے زیور سے آراستہ
ہوئے بلکہ اس کالج نے دور دراز کے لوگوں کی علمی پیاس بھی بجھائی۔



گھنے درختوں کے درمیان چھوٹے قد کی آسمان سے باتیں کرنے والی عمارت نے معاشرے کی اصلاح کا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی ادیب ، ڈاکٹر ،انجنیئر، سائنسدان اور سیاست دان بھی اسی کالج سے تعلیم حاصل کر کے ملک اور بیرونِ ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، جن میں مظہرالحق مہر،سید منطور علی شاہ،ڈاکٹر نوید ٹالپر،محمد خالد حسن ،ڈاکٹر یونس ٹالپر، ماروی کنول ٹالپر، میر
ظفر اللہ اور میر اعجاز ٹالپر کے ساتھ ایک لمبی فہرست شامل ہے۔ 



حال ہی میں مجھے جب اس خوبصورت کالج کو گھومنے کا دوبارہ موقع ملا تو کالج کے ایم اے کے طالب علم وڈیرا فرحان آرائیں نے بتایا کہ یہ کالج اس شہر کے مکینوں کے لیے دل کی طرح ہے جس کے بغیر سانس لینا دشوار ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج یہ کالج ہمارے سینوں میں دل کی طرح دھڑکتا ہے۔ 






رول نمبر:2k13/mc/61 تاریخ:18-08-2015

-----------------FIRST VERSION ----------------
فیچر: پران کی سرزمین کی عظیم درسگاہ

تحریر: محسن علی ٹالپر

رول نمبر:2k13/mc/61 تاریخ:18-08-2015

میرپوخاص سے تقریباً ۵۰ کلو میٹر کی مسافت کے بعد آنے والے شہر ٹنڈو جان محمد کے شہر کے مکین گورنمنٹ ڈگری کالج ٹنڈو جان محمد کا نام سنتے ہی سا بق رکن مغربی پاکستان اسمبلی میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر کو عقیدت کا سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس چھوٹے سے شہر میں علم کی شمع کو روشن کر کے علمی اعتبار سے معتبربنا دیا ۔ اس کالج کے بانی سے متعلق ایک دلچسپ قصہ منسوب ہے کہ مغربی پاکستان کی اسمبلی میں ٹنڈو جان محمد سے تعلق رکھنے والے میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر کو اس وقت کے گورنر نے ملک امیر محمد خان نے مطلع کیا کہ میر صاحب آپ کے شہر کا کا لج ’ڈگری‘ کیا جا رہا ہے۔ میر صاحب غصہ ہوئے اور زوردار لہجے میں کہا کہ ڈگری میں کالج دے رہے ہیں؟ یہ کالج میرے شہر ہی میں بنے گا۔ میر صاحب ’ڈگری ‘ لفظ سے یہ سمجھے کہ شاید یہ کالج ساتھ والے شہر ’ڈگری‘ منتقل کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ وہ اتنے زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن علم کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہونی چاہیے میر صاحب
کو اس کا بخوبی ادراک تھا۔

میر صاحب نے ۱۶ یکڑ زمین عطیہ کر کے ایک ایسے خوبصورت درسگاہ کی بنیاد رکھی ۔یہ کالج ۱۹ نومبر ۱۹۶۴ میں قائم ہوا جو وقت کے ساتھ اور جواں ہو رہا ہے۔اس کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر سید مسعود علی شاہ تھے ، جب کے ا س وقت پرنسپل کے فرائض پروفیسر قاضی علی محمد انجام دے رہے ہیں اس کالیج کو یہ فخر حاصل ہے اس کی نگرانی کے فرائض ہمیشہ بہترین اور قابل لوگوں کے ہاتھ میں آئے ہیں جنہوں نے 

اس کالج کے ترقی کے سفر کو کبھی رکنے نہیں دیا ایسے اساتذہ میں محمد علی لغاری ، عباس علی خان، احسان قدیر آرائیں، غلام محمد ٹالپر اور ظہیر اقبال زیدی جیسیِ علم دوست شخصیات شامل ہیں ۔ کالج کے ابتدائی دنوں میں کلاسز ایم ایچ کے ہائی اسکول کے ہاسٹل میں ہوتی تھیں جب کہ نئی عمارت بننے کے بعد ۱۹۸۳ میں کلاسز موجودہ عمارت میں ہونے لگی۔ کالج کی موجودہ خوبصورت دو منزلہ عمارت سر سبز اور گھنے درختوں کے بیچ میں واقع ہے۔ اس وقت یہ کالج بی ایس سی ۔بی اے اور ایم اے پرائیویٹ کی تدریسی سہولت فراہم کرتا ہے ۔اس کالج سے نہ صرف شہر کے مقامی با شندے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے بلکہ اس کالج نے
دور دراز کے لوگوں کی علمی پیاس بھی بجھائی۔

گھنے درختوں کے درمیان چھوٹے قد کی آسمان سے باتیں کرنے والی عمارت نے معاشرے کی اصلاح کا کام بخوبی سر انجام دے رہی اس کے ساتھ مجھ سمیت کئی صحافی، ادیب ، ڈاکٹر ،انجنیئر، سائنسدان اور سیاست دان بھی اسی کالج سے تعلیم حاصل کر کے ملک اور بیرونِ ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، جن میں عبدلاخالق خاصخیلی، مظہرالحق مہر،سید منطور علی شاہ،ڈاکٹر نوید ٹالپر،محمد خالد حسن ،ڈاکٹر یونس ٹالپر، ماروی کنول ٹالپر، میر ظفر اللہ اور میر اعجاز ٹالپر کے ساتھ ایک لمبی فہرست شامل ہے۔ حال ہی میں مجھے جب اس خوبصورت کالج کو گھومنے کا دوبارہ موقع ملا تو کالج کے ایم اے کے طالب علم وڈیرا فرحان آرائیں نے بتایا کہ یہ کالج اس شہر کے مکینوں کے لیے دل کی طرح ہے جس کے بغیر سانس لینا دشوار ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج یہ کالج ہمارے سینوں میں دل کی 
طرح دھڑکتا ہے۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------

FIRST VERSION

فیچر: گورمنٹ ڈگری کالج ٹنڈو جان محمد
تحریر: محسن علی ٹالپر
رول نمبر:2k13/mc/61 تاریخ:18-08-2015
صوبہ سندھ کے ضلع میرپوخاص سے تقریباً ۵۰ کلو میٹر کی مصافت کے بعد آنے والے شہر ٹنڈو جان محمد کے شہر کے مکیں گورمنٹ ڈگری کالج ٹنڈو جان محمد کا نام سنتے ہی سا بق ایم پی اے مغربی پاکستان اور اس شہر کے بانی’’ میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر‘ کو عقیدت کا سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس چھوٹے مگر علمی اعتبار سے معتبر شہر میں علم کی شمع کو روشن کیا ۔ کالج کے تعارف پر آنے سے پہلے قارئیں کرام سے اس کالج کے بانی کے متعلق ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں یہ بات مشہور ہے کہ مغربی پاکستان کی اسمبلی میں سندھ کے چھوٹے سے شہر ٹنڈو جان محمد کے سابق ایم پی اے ’’ میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر ‘ کو اس وقت کے گورنر نے ملک امیر محمد خان نے متلعہ کیا کہ میر صاحب آپ کے شہر کا کا لج ’ڈگری‘ کیا جا رہا ہے تو میر صاحب نے غصے کے عالم میں زوردار لہجے میں کہا کہ ڈگری میں اور کالج دینا یہ کالج میرے شہر ہی میں بنے گا، دراصل میر صاحب ’ڈگری ‘ لفظ سے یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ کالج ان کے ساتھ والے شہر ’ڈگری‘ منتقل کیا جا رہا ہے، کیونکہ وہ اتنے زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن علم سے محبت کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہونی چاہیے میر صاحب کو اس کا بخوبی ادراک تھا۔
میر صاحب نے ۱۶ یکڑ زمین عطیہ کر کے ایک ایسے حسین و جمیل تاج محل کی بنیاد رکھی جی ہاں علم کا یہ حسین تاج محل ۱۹ نومبر ۱۹۶۴ میں قائم ہوا جو ہر گزرے وقت کے ساتھ اور جواں ہو رہا ہے،اس کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر سید مسعود علی شاہ تھے کالج کے شروعاتی دنوں میں کلاسز ایم ایچ کے ہائے اسکول کے ہاسٹل میں ہوتی تہیں جب کہ نئی عمارت بننے کے بعد ۱۹۸۳ میں کلاسز موجودہ عمارت میں ہونے لگی، کالج کی موجودہ خوبصورت عمارت ۲ منزل پر مشتمل ہے جو کہ سر سبز اور گھنے درختوں کے بیچ میں واقع ہے یہ کالج جامشورو میں موجود سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہے اور اس وقت یہ کالج بی ایس سی ۔بی اے اور ایم اے پراہیویٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے ۔اس کالج سے نہ صرف شہر کے مقامی با شندے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے بلکہ اس کالج نے دور دراز کے لوگوں کی علمی پیاس بھی بجھائی اور انہیں سیراب کیا۔
گھنے درختوں کے درمیان چھوٹے قد کی آسمان سے باتیں کرنے والی عمارت نے مجھ سمیت کئی صحافیوں کو جنم دیا جو معاشرے کی اصلاح کا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی ڈاکٹر ،انجنیئر،جرنل،سائنسدان بھی اسی کالج سے تعلیم حاصل کر کے بیرونِ ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔حال ہی میں مجھے جب اس خوبصورت کالج کو گھومنے کا دوبارہ موقع ملا تو کالج کے ایم اے طالب علم فرحان آرائیں نے بتایا کہ جس طرح انسان اپنے جسم میں موجود دل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا بلکل اسی طرح اس شہر کے مکینوں کے لیے اس کالج کے بغیر سانس لینا دشوار ہے کیونکہ اس کی بنیادوں میں ہمارے شہر کے ہونہار رہنماء کی لگن اور جذبے شامل ہیں شاید اس لیے کہ جب علم حاصل کرنے کی پیاس انسان کی رگوں میں شامل ہو جائے تو وہ درسگاہوں کے بغیر سانس نہیں لے سکتا یہ ہی وجہ ہے کہ آج یہ کالج ہمارے سینوں میں دل کی طرح دھڑکتا ہے۔  

بچوں میں کھیلونا بندوق کا رجحان


نیبہ حفیظ MC/2k13/76


بچوں میں کھیلونا بندوق کا رجحان 

ملک بھرمیں کھیلونا بندوق سے کھیلنے کا ایک رواج چل پڑھا ہے۔ جس سے بچوں میں پڑھائی سے کم لگاؤاور کھیل کود میںآپنا وقت صِرف کرنے کے لیے گھروں اور گلی محلوں میں آپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلونا بندوق سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔تحقیق کرتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کے بچے انھیں کھیلونا بندوق سمجھنے کے بجائے ایسے اصلی بندوق سمجھ کر کھلتے ہیں۔بندوق کو لوڈکرکے اور پھر ایک دوسرے کو ٹارگیٹ پہ رکھ کے فائر کرناان کے پسندیدہ کھیل میں شامل ہے۔ بچوں میں کھیلونا بندوق کااستعمال انھیں گیم اور فلموں کے گن مین کو اپناہیروسمجھنا اور ویسے ہی
وہ خود وہی گن مین کے پاور استعمال کرناان کے ذہنوں پرمنفی اثرات پیدا ہو رہیں ہیں۔


آب مارکیٹ میں کھیلونا بندوق ایسے ڈائزائن اور شیپ میں دستیاب ہے کہ دوسرے کھیلونے ان کے سامنے بے معینے ہے۔ نئی اور جدید قسم کے کھیلونا بندوق سے دکانیں بھری ہے جو بچوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ حال ہی میں فیصل آبادکے مدینہ ٹاؤن کے علاقے میں۱۵سال کے ۲بچے فرحان اور فہد پارک کے قریب کھیلونا بندوق کے ساتھ سیلفی بنا رہیں تھیں کے پولیس نے فائرنگ کر دی جس میں فرحان موقعہ پر ہی دم توڑ گیاجبکہ فہد کو کافی چوٹیںآئی اس حادثہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے جب حال ہی میں جیونیوز نے معاشرے میں پھیلے کھیلونا بندوق کے منفی اثرات کا مسئلہ اُٹھایا توسندھ اسمبلی میں قرارداد منصوبہ ہوئی اور عدالت نے کھیلونا بندوق کی تیاری ،درآمداور فروخت پر پابندی عائد کرتے ہوئے حتمی قدم بھی اُ ٹھایا۔
بچے ایک دوسرے کو مارنے اور لڑنے کو اپنے جیت سمجھتے ہے اس لیے وہ ان چیزوں سے گہری وابستگی جوڑ لیتے ہیں۔کھیلونا بندوق کے استعمال سے بچوں پربہت بورے نفسیاتی اثرات پڑسکتے ہے ۔ بچوں میں غصہ اور انتشار پسندی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور پھر جھگرالوں پن کا شکار ہو جاتے ہیں پھر آستہ آستہ بدلالینے کی خوائش جنم لیتی ہے بچوں میں شوق سے دابنگ،ڈان،وانٹداورکِک مووی دیکھی جاتی ہے ان میں لڑائی اور خون خرابہ دیکھ کر وہ اُسی طرح مارتے ہیں اورویسیِ ہی زبان استعمال بھی کرتے ہیں۔گن نفرت اور جنگ کی نشانی ہے جو بچوں کو لڑنا سیکھاتی ہے اس لیے ہمیں بھڑتے ہوئے تشدد آمیز رویے کی حوصلہ افزائی کو روکنے کے لیے ایسے کھلونوں پر پابندی لگانی چاہیں تاکہ بچوں پر غلط اثرات نہ پڑھیں وہ بچپن ہی سے کھیلونا بندوق سے کھیلنے کے بجائی اپنی پڑھائی سے لگاؤ رکھیے۔

انٹرویو مقصود احمد





محمد حماد 2k13/MC/69 
(انٹرویو مقصود احمد ) 
س اپنی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیے۔
جواب میرا جو تعلیمی سفر تھا بڑا ہی مفلسی میں گزرا ۔ تین سال تک میں ننگے پیر اسکول جاتا رہا اسکولوں کی حالت بڑی ہی خستہ تھی کلاسوں کا کوئی تصور نہیں تھا ہم زمین پر بیٹھ کر پڑھا کرتے تھ اساتذہ بہت اچھے تھے اور تعلیمی نظام موجودہ دور سے کافی پسماندگی کا شکار تھا۔ 



س آپ نے بنک کی نوکری کا انتخاب کیوں کیا؟
جواب در اصل بات یہ ہے کہ اس وقت بنک کی تنخواہیں دیگر ملازموں سے بہت زیادہ تھی کہ جہاں ایک گورنمنٹ ادارے کے کلرک کی تنخواہ 100سے 120 تھی وہی پر بنک کے کلر کی تنخواہ 200 روپے تھی۔ 



س آپ کو اپنے بنک ک کیرےئر میں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب اگر موجودہ دور کے بنکوں کے نظام کی بات کی جائے تو پرانے زمانے سے بہت جدید اور بہتر ہے کیونکہ پچھلے دور میں بنکوں کے نظام مینوئل تھے کوئی کمپیوٹر کا تصور نہیں تھا ہر کام ہاتھ سے کرنا پڑتا تھا اس لئے حساب کتاب میں بہت دشواری ہوتی تھی اور ایک اور مسئلہ اس گزشتہ دور میں جو نجی اداروں میں عام تھا وہ تبادلے کا تھا کہ ہر ماہ جگہ جگہ شہروں میں سفر کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنہ پڑتا تھا۔ 



س آپ کو اس بنک کیریر میں سب سے بڑی کامیابی کیا حاصل ہوئی؟
جواب سب سے بڑی کامیابی مجھے یہ حاصل ہوئی جب میں ریٹائر ہوا با عزت طریقے سے ریٹائر ہوا مجھ پر کبھی کوئی کسی قسم کا چارج نہیں تھا تو وہ جانچ پڑتال کرتے تھے تو ان پر کوئی کرپشن میں تو ملوث نہیں یا کوئی کسی کے پیسے تونہیں ۔ کامیابی اور خوشی یہ ہوئی ریٹائر منٹ کے بعد ہاتھ صاف تھے اور آج کل عزت ہے کہ میں سینئر بنک آفسر ریٹائر ہوا ہوں اور آج بھٌ بنکوں میں کافی عزت ہے مختلف اور دیانت داری سے کام کیا۔ 



س آپ نئی آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب آنے والے تمام ن ئے نوجوان کو یہ پیغام دنا چاہتا ہوں کہ آپ دانت دار بنے اور کسی بھی شعبے میں جائے تو پوری ایماندای سے اپنا کام سرانجام دیں محبت اور ایمانداری سے لوگوں سے پیش آئیں ہمارے بنک کے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ کسٹمر کو عزت دینی ہے۔ اور پیار سے پیش آنا ہے۔ 

محمد جنید انٹرویو



انٹرویو: محمد جنید 

تحریر: محسن ٹالپر

رول نمبر: 2k13/MC/61 تاریخ:08-09-2015



’’ شعر جو کام کرتا ہے وہ سو مقرر نہیں کر سکتے ‘‘: جنید ابن سیف

تعارف:محمد جنید ابن سیف نے ۷ آکٹوبر ۱۹۸۶ میں حیدرآباد کے ایک معروف کمپییرئر سیف محمد شیخ کے گھر میں جنم لیا۔ اپنی ابتدائی تعلیم حیدرآباد سے حاصل کی ،اور ۲۰۱۰ میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے اردو اد ب میں ماسٹرکیا اور اپنے کیریئر کا آغاز بحیثیت اردولیکچرار پرنسٹن کالیج حیدرآباد سے کیااس وقت آرمی پبلک کالیج حیدرآباد میں تدیرسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جنید ابن سیف کو اپنے تعلیمی سفر میں گولڈ اور سلور میڈل کا ایوارڈ بھی حاصل ہے اور ان کے افسانے ملک کے معروف رسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

س:آپ کااردو ادب میں آنا کیسے ہوا؟

ج:اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ کی رہنمائی کرنے والا نہ ہوتو پھر آپ کے شعبہ کا انتخاب کسی بھی سمت میں جا سکتا ہے اصل میں انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد ہمارا ایک سال ضایع بھی ہوا تو اس کے بعد سندھ یونیورسٹی میں اردو کے شعبہ میں نام آتے ہی ہم نے اس میں داخلہ لے لیا، اردو ادب سے والد محترم کا بہت زیادہ لگاؤ رہا ہے ا سی لیے ہمارا بھی شگف رہا لیکن بہت زیادہ ذوق بحرحال نہیں تھا۔


س:اردو ادب میں شاعری کا آغاز کس سے اور کیسے ہوا؟

ج: آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ اردو خد ایک زباں کا درجہ نہیں رکھتی تھی بلکہ یہ بہت سی زبانوں کا ایک ملغوبا ہے تو اس میں جتنی بھی اصناف ہیں وہ دوسری زبانوں سے رائج ہیں، ہندوستان میں بولے جانے والی زبان فارسی تھی اور اگر اردو غزل کی ہم بات کریں تو غزل عرب زبان سے فارسی میں آئی اور فارسی کے زیر اثر اردو میں رائج ہوئی تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی بنیاد عرب ہے ۔جبکہ اردو میں سب سے پہلے شاعر کا جو نام ملتا ہے وہ مسعود سعد سلمان کا ہے جن کا ذکر امیر خسرو نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے لیکن ان کا کلام نہیں ملتا۔

س:کیا شاعری صرف ردیف اور قافیہ میں پابند جملوں کا نام ہے؟

ج: نہیں شاعری صرف قافیہ پیمائی کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں شاعر کی سوچ اور فکر ہوتی ہے اس کے مشاہدات ہوتے ہیں کیونکہ ادیب حساس طبعیت کا مالک ہوتا ہے وہ جو چیز محسوس کرتا ہے اس کو شعر کی صورت میں ڈاھلتا ہے اور اس کے لیے وہ پابند ہوتا ہے کہ وہ وزن بھی پورا نبھائے قافیہ پیمائی بھی کرے اور ردیف کا استعمال بھی کرے ،جبکہ شعر کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ شعر جو کام کرتا ہے وہ سو مقرر نہیں کر سکتے اس لیے ہم صرف قافیہ پیمائی کو شاعری نہیں کہہ سکتے۔
س:کیا ایک استاد دوست بن سکتا ہے؟
ج:جی ہاں بلکل کیونکہ اب ہم اس دور سے نکل آئے ہیں جب شاگرد ڈر کی وجہ سے پڑھا کرتے تھے اور یونیورسٹی اور کالیج میں شاگرد اس عمر میں ہوتا ہے کہ آپ سختی نہیں کر سکتے آپ کو دوست بن کر عزت اور شفقت کے ساتھ ہی بات کرنی چاھئیے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ایک حد اور کچھ نہ کچھ فاصلہ ضرور ہونا چاھئیے اور ہوتا بھی ہے، دوست ضرور بنیں لیکن بے تکلف نہ ہوں۔



س: ایک استاد معاشرے میں مثبت تبدیلی لے آنے کے لیے کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ 

ج:کسی بھی قوم کی ذہنی پرورش اور فکری تربیت کرنے کے لئیے استاد معاشرے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، استاد ہی ایک قوم کو قوم بناتاہے۔ اگر قوم تباھی کے دھانے پر جا رہی ہے یا ترقی کی طرف گامزن ہے تو اس کے پیچھے استاد ہی ہے۔اب ہمارا تعلیمی نظام سیاست کے زیر اثر ہے جو کچھ بورڈ آفیس ،اسکول اور کالیجوں میں ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکاچھپا تو ہے نہیں جس کی وجہ سے سندھ کا تعلیمی نظام انتھائی گر چکا ہے استاد معاشرے میں ایک بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے جب کوئی قوم خد سنجیدہ ہو۔

س:اس وقت اردو صرف ادیبوں کی زبان تک محدودنہیں رہ گئی؟ اس کی وجہ؟

ج: اس کی وجہ ہمارا میڈیا ہے، میڈیا میں آج کل جو زبان استعمال ہو رہی ہے وہ اردو تو نہیں ہے بلکہ اس میں انگلش کا اثر زیادہ ہے اور دوسری بات اردو صرف ادیبوں کی زبان رہ گئی ہے میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کیونکہ زبان عوام کی ہوتی ہے وہی اس کے بنانے والے اورپالنے والے ہوتے ہیں ۔اردو جب زبان کے طور پر متارف ہوئی تو اس کے پیچھے بھی ادیب نہیں بلکہ عوام تھی یہ بازاروں میں بنی ہے اورلشکر گاہوں میں پلی بڑھی ہے اسلئیے یہ عوامی زبان ہے۔
س: اردو کے مستقبل کوکیسے دیکھتے ہیں؟
ج:اردو کا مستقبل روشن ہے کیونکہ اب یہ ایک علائقہ کی زبان نہیں رہی ہے بلکہ تمام دنیا میں پڑھائی جا رہی ہے پاکستان میں اگر کوئی اس میں دلچسی نہیں لیتا تو یہ ایک الگ بات ہے لیکن باہر ممالک کی جو یونیورسڑیز ہیں وہاں اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے، جب کینیڈا، چائنا، سری لینکا ،ایران اور دیگر ممالک میں یہ زبان پڑھی جا رہی ہو اور اس پر پی ،ایچ،ڈی ہو رہی ہو ں تو میرا خیال ہے کہ پھر اس کا مستقبل بہت روشن ہے۔



س:طالبِ علموں کے لیئے کو ئی خاص پیغامِ؟

ج: اس کے لیئے ہم سر وقار احمد وقار کا شعر پیش کرتے ہیں

فن کوئی ہو ، اعجاز مہارت کا ہے ممنون

بت گر ہو اگر کوئی تو آذر کی طرح ہو۔
آپ جو کام بھی کریں اسے اپنے اوجِ کمال تک پہنچائیں۔ 

محمد موسی بھٹو انٹرویو



بلال حسن رول نمبر 2k13/mc/28 4th Writting piece محمد موسی بھٹو (انٹرویو)

محمد موسی بھٹو 1951 شکار پور میں پیدا ہوئے ان کا شمار سندھ کے مشہور مصنفوں میں کیا جاتا ہے۔ اور یہ اردو اور سندھی کے بہترین مصنف ہیں جنہوں نے اردو اور سندھی میں بہت سی کتابیں لکھیں ان کی تحریر فکر اور حکمت کا دلکش نمونہ ہے اور یہ سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ اور یہ اس وقت حیدرآباد لطیف آباد نمبر 4 میں قیام پذیر ہیں۔ 


سوال آپ نے اپنے لکھنے کا آغاز کب اور کیسے کیا؟
جواب میرے لکھنے کا سفر مارچ 1970ء سے شروع ہوا جس میں الوحید کے نام سے ایک اخبار تھا جس میں میرے مختلف موضوع پر مضامین شائع ہوتے تھے اس کے بعد فروری 1971 ء میں جسارت اخبار میں لکھنا شروع کیا۔ تو لکھنے کے سفر کا بقاعدہ آغاز صحافت سے ہوا۔ 



سوال آپ نے اپنی تحریر کے ذریعے جو فکر و حکمت پیش کی اس کا اصل مقصد کیا ہے؟
جواب در اصل انسان کی شخصیت میں 4 چیزیں موجو دہیں ۔ روح، دل، نفس اور دماغ۔ ان چار چیزوں کے مجموعے کا نام انسان ہے۔ اگر ہم دیکھیں جب انسان مر جاتا ہے تو انسان کا وجود تو رہتا ہے مگر نہ وہ بول سکتا ہے نہ سن سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عمل کرنے کے قابل رہتاہے تو اس بات سے یہ ثابت کہ جب انسان کی روح جسم سے نکل جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا اور یہی مثال ان چاروں چیزوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ تو ہماری فکر یہ ہے کہ ان چیزوں کی تسکین اور ان کا اطمینان کا پورا توازن کے ساتھ فکر و حکمت کی جائے۔ 



سوال آپ کی پہلی تحریر کونسی تھی؟
جواب میری ابتدائی تحریر سندھ کے موضوع پر تھی جس میں سندھ کے حالات اور واقعات بیان کئے تھے اور میں نے اپنی ابتدائی تحریر میں سندھ کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی تھی ۔ 



سوال قومی تعمیر و زوال میں نظام تعلیم کا کردار بتائیں؟
جواب اگر موجودہ دور کی بات کی جائے تو ہر قوم کی تعمیر زوال کا شکار ہے جس میں بہت سارے مسئلے مسائل ہمارے معاشرے کو متاثر کررہے ہیں جس میں سے ایک مسئلہ تعلیم کا بھی ہے ۔ تو ہم نے اس مسئلے کے حوالے سے معاشرے میں تعلیم کے نظام پر روشنی ڈالی ہے۔ کہ ہمارا تعلیمی نظام اس طرح ہونا چاہئے کہ جس میں بچوں کو شعور کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ اور فکر پر بھی کام کیا جائے تاکہ وہ ہمارے معاشرے کی ہر چیز کو صحیح ڈھنگ سے دیکھیں اور صحیح اور غلط کی پہچان کرسکیں۔ 



سوال آپ کی ایک مشہور کتاب جدید سندھ کے مسائل کو لکھنے کا اصل مقصد کیا تھا چند مسائل بھی بتائیں؟ 
جواب در اصل بات یہ ہے کہ سندھ شدید احساسات کا شکار ہے اور اس کے بہت سے اسباب ہیں یہاں میں کچھ مسائل بیان کرتا ہوں کہ ماضی کی کچھ سر گرمیوں نے سندھ کو بہت متاثر کیا جس میں ون یونٹ کا مسئلہ رہا کہ پنجا ب نے کسطرح سندھ کی حثیت کو دبانے کی کو شش کی کہ چھوٹے چھوٹے کام کے لیے سندھ کو پنجا ب کے پاس جانا پڑتا ۔ اس کے بعد ایک اور مسئلہ سند ھی زبا ن کا تھا ایوب خان کے دور میں سندھی زبان کی سرکاری اہمیت کو ختم کردیا جبکہ سندھی زبان سندھ میں صدیو ں سے بولی جاتی ہے۔ اسی طرح کے مسائل میں نے اپنی کتاب میں قلم بند کیئے ہیں ۔



سوال نوجوانوں کے لیے کو ئی خا ص پیغام ؟
جواب نوجوانوں کے لیے یہی پیغام ہے کہ اپنی فکر کو منفی فکر سے بچائیں اور اپنی سوچ کو تعمیری بنائیں اور نوجوانو ں کو چاہیے لذت زندگی کو بھلاکر ضرورت زندگی پر دیہان دیں اور یہی دستور زندگی ہے۔