Wednesday, September 9, 2015

فیچر: پران کی سرزمین کی عظیم درسگاہ final




فیچر: پران کی سرزمین کی عظیم درسگاہ

تحریر: محسن علی ٹالپر

میرپوخاص سے تقریباً ۵۰ کلو میٹر کی مسافت کے بعد آنے والے شہر ٹنڈو جان محمد کے شہر کے مکین
 گورنمنٹ ڈگری کالج ٹنڈو جان محمد کا نام سنتے ہی سا بق رکن مغربی پاکستان اسمبلی میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر کو عقیدت کا سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس چھوٹے سے شہر میں علم کی شمع کو روشن کر
کے علمی اعتبار سے معتبربنا دیا ۔



اس کالج کے بانی سے متعلق ایک دلچسپ قصہ منسوب ہے کہ مغربی پاکستان کی اسمبلی میں ٹنڈو جان محمد سے تعلق رکھنے والے میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر کو اس وقت کے گورنر امیر محمد خان نے مطلع کیا کہ میر صاحب آپ کے شہر کا کا لج ’ڈگری‘ کیا جا رہا ہے۔ میر صاحب غصہ ہوئے اور زوردار لہجے میں کہا کہ ڈگری میں کالج دے رہے ہیں؟ یہ کالج میرے شہر ہی میں بنے گا۔ میر صاحب ’ڈگری ‘ لفظ سے یہ سمجھے کہ شاید یہ کالج ساتھ والے شہر ’ڈگری‘ منتقل کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ وہ اتنے زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن علم کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہونی چاہیے میر صاحب کو اس کا بخوبی ادراک تھا۔



میر صاحب نے ۱۶ یکڑ زمین عطیہ کر کے ایک ایسے خوبصورت درسگاہ کی بنیاد رکھی ۔یہ کالج ۱۹ نومبر ۱۹۶۴ ء میں قائم ہوا جو وقت کے ساتھ اور جواں ہو رہا ہے۔اس کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر سید مسعود علی شاہ تھے ، جب کے ا س وقت پرنسپل کے فرائض پروفیسر قاضی علی محمد انجام دے رہے ہیں ۔اس کا
لج کو یہ فخر حاصل ہے۔



اس کی نگرانی کے فرائض ہمیشہ بہترین اور قابل لوگوں کے ہاتھ میں آئے ہیں جنہوں نے اس کالج کے ترقی کے سفر کو کبھی رکنے نہیں دیا ایسے اساتذہ میں محمد علی لغاری ، عباس علی خان، احسان قدیر آرائیں، غلام محمد ٹالپر اور ظہیر اقبال زیدی جیسیِ علم دوست شخصیات شامل ہیں ۔



کالج کے ابتدائی دنوں میں کلاسز ایم ایچ کے ہائی اسکول کے ہاسٹل میں ہوتی تھیں جب کہ نئی عمارت بننے کے بعد ۱۹۸۳ میں کلاسز موجودہ عمارت میں ہونے لگی۔ کالج کی موجودہ خوبصورت دو منزلہ عمارت سر سبز اور گھنے درختوں کے بیچ میں واقع ہے۔ اس وقت یہ کالج بی ایس سی ۔بی اے اور ایم اے پرائیویٹ کی تدریسی سہولت فراہم کرتا ہے ۔اس کالج سے نہ صرف شہر کے مقامی با شندے تعلیم کے زیور سے آراستہ
ہوئے بلکہ اس کالج نے دور دراز کے لوگوں کی علمی پیاس بھی بجھائی۔



گھنے درختوں کے درمیان چھوٹے قد کی آسمان سے باتیں کرنے والی عمارت نے معاشرے کی اصلاح کا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی ادیب ، ڈاکٹر ،انجنیئر، سائنسدان اور سیاست دان بھی اسی کالج سے تعلیم حاصل کر کے ملک اور بیرونِ ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، جن میں مظہرالحق مہر،سید منطور علی شاہ،ڈاکٹر نوید ٹالپر،محمد خالد حسن ،ڈاکٹر یونس ٹالپر، ماروی کنول ٹالپر، میر
ظفر اللہ اور میر اعجاز ٹالپر کے ساتھ ایک لمبی فہرست شامل ہے۔ 



حال ہی میں مجھے جب اس خوبصورت کالج کو گھومنے کا دوبارہ موقع ملا تو کالج کے ایم اے کے طالب علم وڈیرا فرحان آرائیں نے بتایا کہ یہ کالج اس شہر کے مکینوں کے لیے دل کی طرح ہے جس کے بغیر سانس لینا دشوار ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج یہ کالج ہمارے سینوں میں دل کی طرح دھڑکتا ہے۔ 






رول نمبر:2k13/mc/61 تاریخ:18-08-2015

-----------------FIRST VERSION ----------------
فیچر: پران کی سرزمین کی عظیم درسگاہ

تحریر: محسن علی ٹالپر

رول نمبر:2k13/mc/61 تاریخ:18-08-2015

میرپوخاص سے تقریباً ۵۰ کلو میٹر کی مسافت کے بعد آنے والے شہر ٹنڈو جان محمد کے شہر کے مکین گورنمنٹ ڈگری کالج ٹنڈو جان محمد کا نام سنتے ہی سا بق رکن مغربی پاکستان اسمبلی میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر کو عقیدت کا سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس چھوٹے سے شہر میں علم کی شمع کو روشن کر کے علمی اعتبار سے معتبربنا دیا ۔ اس کالج کے بانی سے متعلق ایک دلچسپ قصہ منسوب ہے کہ مغربی پاکستان کی اسمبلی میں ٹنڈو جان محمد سے تعلق رکھنے والے میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر کو اس وقت کے گورنر نے ملک امیر محمد خان نے مطلع کیا کہ میر صاحب آپ کے شہر کا کا لج ’ڈگری‘ کیا جا رہا ہے۔ میر صاحب غصہ ہوئے اور زوردار لہجے میں کہا کہ ڈگری میں کالج دے رہے ہیں؟ یہ کالج میرے شہر ہی میں بنے گا۔ میر صاحب ’ڈگری ‘ لفظ سے یہ سمجھے کہ شاید یہ کالج ساتھ والے شہر ’ڈگری‘ منتقل کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ وہ اتنے زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن علم کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہونی چاہیے میر صاحب
کو اس کا بخوبی ادراک تھا۔

میر صاحب نے ۱۶ یکڑ زمین عطیہ کر کے ایک ایسے خوبصورت درسگاہ کی بنیاد رکھی ۔یہ کالج ۱۹ نومبر ۱۹۶۴ میں قائم ہوا جو وقت کے ساتھ اور جواں ہو رہا ہے۔اس کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر سید مسعود علی شاہ تھے ، جب کے ا س وقت پرنسپل کے فرائض پروفیسر قاضی علی محمد انجام دے رہے ہیں اس کالیج کو یہ فخر حاصل ہے اس کی نگرانی کے فرائض ہمیشہ بہترین اور قابل لوگوں کے ہاتھ میں آئے ہیں جنہوں نے 

اس کالج کے ترقی کے سفر کو کبھی رکنے نہیں دیا ایسے اساتذہ میں محمد علی لغاری ، عباس علی خان، احسان قدیر آرائیں، غلام محمد ٹالپر اور ظہیر اقبال زیدی جیسیِ علم دوست شخصیات شامل ہیں ۔ کالج کے ابتدائی دنوں میں کلاسز ایم ایچ کے ہائی اسکول کے ہاسٹل میں ہوتی تھیں جب کہ نئی عمارت بننے کے بعد ۱۹۸۳ میں کلاسز موجودہ عمارت میں ہونے لگی۔ کالج کی موجودہ خوبصورت دو منزلہ عمارت سر سبز اور گھنے درختوں کے بیچ میں واقع ہے۔ اس وقت یہ کالج بی ایس سی ۔بی اے اور ایم اے پرائیویٹ کی تدریسی سہولت فراہم کرتا ہے ۔اس کالج سے نہ صرف شہر کے مقامی با شندے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے بلکہ اس کالج نے
دور دراز کے لوگوں کی علمی پیاس بھی بجھائی۔

گھنے درختوں کے درمیان چھوٹے قد کی آسمان سے باتیں کرنے والی عمارت نے معاشرے کی اصلاح کا کام بخوبی سر انجام دے رہی اس کے ساتھ مجھ سمیت کئی صحافی، ادیب ، ڈاکٹر ،انجنیئر، سائنسدان اور سیاست دان بھی اسی کالج سے تعلیم حاصل کر کے ملک اور بیرونِ ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، جن میں عبدلاخالق خاصخیلی، مظہرالحق مہر،سید منطور علی شاہ،ڈاکٹر نوید ٹالپر،محمد خالد حسن ،ڈاکٹر یونس ٹالپر، ماروی کنول ٹالپر، میر ظفر اللہ اور میر اعجاز ٹالپر کے ساتھ ایک لمبی فہرست شامل ہے۔ حال ہی میں مجھے جب اس خوبصورت کالج کو گھومنے کا دوبارہ موقع ملا تو کالج کے ایم اے کے طالب علم وڈیرا فرحان آرائیں نے بتایا کہ یہ کالج اس شہر کے مکینوں کے لیے دل کی طرح ہے جس کے بغیر سانس لینا دشوار ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج یہ کالج ہمارے سینوں میں دل کی 
طرح دھڑکتا ہے۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------

FIRST VERSION

فیچر: گورمنٹ ڈگری کالج ٹنڈو جان محمد
تحریر: محسن علی ٹالپر
رول نمبر:2k13/mc/61 تاریخ:18-08-2015
صوبہ سندھ کے ضلع میرپوخاص سے تقریباً ۵۰ کلو میٹر کی مصافت کے بعد آنے والے شہر ٹنڈو جان محمد کے شہر کے مکیں گورمنٹ ڈگری کالج ٹنڈو جان محمد کا نام سنتے ہی سا بق ایم پی اے مغربی پاکستان اور اس شہر کے بانی’’ میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر‘ کو عقیدت کا سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس چھوٹے مگر علمی اعتبار سے معتبر شہر میں علم کی شمع کو روشن کیا ۔ کالج کے تعارف پر آنے سے پہلے قارئیں کرام سے اس کالج کے بانی کے متعلق ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں یہ بات مشہور ہے کہ مغربی پاکستان کی اسمبلی میں سندھ کے چھوٹے سے شہر ٹنڈو جان محمد کے سابق ایم پی اے ’’ میر حاجی خدا بخش خان ٹالپر ‘ کو اس وقت کے گورنر نے ملک امیر محمد خان نے متلعہ کیا کہ میر صاحب آپ کے شہر کا کا لج ’ڈگری‘ کیا جا رہا ہے تو میر صاحب نے غصے کے عالم میں زوردار لہجے میں کہا کہ ڈگری میں اور کالج دینا یہ کالج میرے شہر ہی میں بنے گا، دراصل میر صاحب ’ڈگری ‘ لفظ سے یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ کالج ان کے ساتھ والے شہر ’ڈگری‘ منتقل کیا جا رہا ہے، کیونکہ وہ اتنے زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن علم سے محبت کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہونی چاہیے میر صاحب کو اس کا بخوبی ادراک تھا۔
میر صاحب نے ۱۶ یکڑ زمین عطیہ کر کے ایک ایسے حسین و جمیل تاج محل کی بنیاد رکھی جی ہاں علم کا یہ حسین تاج محل ۱۹ نومبر ۱۹۶۴ میں قائم ہوا جو ہر گزرے وقت کے ساتھ اور جواں ہو رہا ہے،اس کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر سید مسعود علی شاہ تھے کالج کے شروعاتی دنوں میں کلاسز ایم ایچ کے ہائے اسکول کے ہاسٹل میں ہوتی تہیں جب کہ نئی عمارت بننے کے بعد ۱۹۸۳ میں کلاسز موجودہ عمارت میں ہونے لگی، کالج کی موجودہ خوبصورت عمارت ۲ منزل پر مشتمل ہے جو کہ سر سبز اور گھنے درختوں کے بیچ میں واقع ہے یہ کالج جامشورو میں موجود سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہے اور اس وقت یہ کالج بی ایس سی ۔بی اے اور ایم اے پراہیویٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے ۔اس کالج سے نہ صرف شہر کے مقامی با شندے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے بلکہ اس کالج نے دور دراز کے لوگوں کی علمی پیاس بھی بجھائی اور انہیں سیراب کیا۔
گھنے درختوں کے درمیان چھوٹے قد کی آسمان سے باتیں کرنے والی عمارت نے مجھ سمیت کئی صحافیوں کو جنم دیا جو معاشرے کی اصلاح کا کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی ڈاکٹر ،انجنیئر،جرنل،سائنسدان بھی اسی کالج سے تعلیم حاصل کر کے بیرونِ ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔حال ہی میں مجھے جب اس خوبصورت کالج کو گھومنے کا دوبارہ موقع ملا تو کالج کے ایم اے طالب علم فرحان آرائیں نے بتایا کہ جس طرح انسان اپنے جسم میں موجود دل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا بلکل اسی طرح اس شہر کے مکینوں کے لیے اس کالج کے بغیر سانس لینا دشوار ہے کیونکہ اس کی بنیادوں میں ہمارے شہر کے ہونہار رہنماء کی لگن اور جذبے شامل ہیں شاید اس لیے کہ جب علم حاصل کرنے کی پیاس انسان کی رگوں میں شامل ہو جائے تو وہ درسگاہوں کے بغیر سانس نہیں لے سکتا یہ ہی وجہ ہے کہ آج یہ کالج ہمارے سینوں میں دل کی طرح دھڑکتا ہے۔  

1 comment:

  1. Puran, Tando Jam Muhammad, Mir Mohsin Talpur, Mir Khuda Bux Talpur

    ReplyDelete