محمد اسد عباسی 2k13/MC/65
یوسف ناگوری پروفائیل
حیدرآباد بلکہ پاکستان صحافت میں اہم کردار ادا کرنے والے صحافیوں میں سے ایک نام یوسف ناگوری کا بھی ہے ۔ فوٹو گرافی کی حیثیت سے صحافت کے پیشے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جبکہ انہوں نے ئی ہزار تصویروں سے خبر کو اجاگر کیا اور ان کی کئی ایسی بے مثال کاوشیں اپنے پیشے کے ساتھ ہیں جسے آج بھی سنہری حرفوں سے لکھا جاسکتا ہے۔ یوسف ناگاری حیدرآباد کے چھوٹے سے علاقے کھاتہ چوک میں 4 اپریل 1956 میں آنکھ کھولی اور آپ کے والد کا نام محمد بھائی ناگوری تھا جو کہ ایک ٹرانسپورٹر تھے آپ نے بنیادی تعلیم میمن انجمن پرائمری اسکول سے حاصل کی اور اسی دوران آپ ابھی پانچویں جماعت میں تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔
آپکو پڑھنے اور ڈاکٹر بننے کا بے حد شوق تھا جس کے باعث آپ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ہوٹل پر کام کیا جہاں آپ جائے فروخت کرنے کے لئے سڑکوں پر مارے مارے پھرا کرتے تھے جس میں آپکو پورے دن کی دیہاڑی 1 روپیہ ملتا تھا ۔ جس سے آپ اپنے گھر کا خرچہ بھی چلاتے تھے اور اپنے تعلیمی سفر کو بھی جاری رکھا۔ اور اس محنت کے باوجود آپ نے میمن انجمن سے ہی میٹرک کیا ۔
اور میٹر کرنے کے بعد کئی نوکریاں اور کیں اور پھر آپ نے وہیں پر موجود سندھ کامرس کالج سے انٹر جبکہ آپکو ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا جس کے لئے آپ نے کئی خواب دیکھے تھے مگر وہ خواب آپ کے پورے نہ ہوسکے ۔ آپ نے میڈیکل کے شعبے کو ہی چنتے ہوئے او ٹی ٹیکنیشن کے ڈپلومے میں ایڈمیشن لے لیا۔
اپنی جدو جہد کو جاری رکھا اور اسی وقت پر بننے والے والی بھائی راجپوتانی ہسپتال میں آپ نے اپنی قابلیت پر جاب حاصل کی۔ اسی دوران آپ کے بھانجے کی روزہ کشائی کی ایک تصویر قومی اخبار میں شایع کرانے کے لئے چلے گئے جہاں آپ کی تصویر کو بہت سراہا گیا اور آپ کو نوکری کی پیشکش کی گئی بطور فوٹو گرافر۔ 1985 میں آپ نے فوٹو گرافی کے بعد صحافتی زندگی میں قدم رکھ لیا اس وقت داؤد خان پٹھان کے 4 زبانوں میں اخبار نکلا کرتے تھے جو کہ پشتو، سندھی ، اردو اور انگلش میں تھے اس کا نام سندھ گارجین تھا لیکن آپ نے اس جگہ کام کرنے کے سے انکار کردیا اور آپکو ڈان میں فوٹوگرافر کے فرائض انجام دینے کی پیشکش کی جو آپ رد نا کرسکے۔
اس طرح 1991 سے آپ نے اپنے کیرےئر کا آغاز ڈان نیوز پیپر سے کیا جو کہ اب تک چل رہا ہے ایسی کئی مثال واقع ہیں جو کہ آج بی صحافت کے پیشے میں یاد رکھی جاتی ہیں جو صحافت کے پیشے کو آج بھی سر فخر سے بلند کرنے پر مجبور
کردیتا ہے۔
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
آپکو پڑھنے اور ڈاکٹر بننے کا بے حد شوق تھا جس کے باعث آپ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ہوٹل پر کام کیا جہاں آپ جائے فروخت کرنے کے لئے سڑکوں پر مارے مارے پھرا کرتے تھے جس میں آپکو پورے دن کی دیہاڑی 1 روپیہ ملتا تھا ۔ جس سے آپ اپنے گھر کا خرچہ بھی چلاتے تھے اور اپنے تعلیمی سفر کو بھی جاری رکھا۔ اور اس محنت کے باوجود آپ نے میمن انجمن سے ہی میٹرک کیا ۔
اور میٹر کرنے کے بعد کئی نوکریاں اور کیں اور پھر آپ نے وہیں پر موجود سندھ کامرس کالج سے انٹر جبکہ آپکو ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا جس کے لئے آپ نے کئی خواب دیکھے تھے مگر وہ خواب آپ کے پورے نہ ہوسکے ۔ آپ نے میڈیکل کے شعبے کو ہی چنتے ہوئے او ٹی ٹیکنیشن کے ڈپلومے میں ایڈمیشن لے لیا۔
اپنی جدو جہد کو جاری رکھا اور اسی وقت پر بننے والے والی بھائی راجپوتانی ہسپتال میں آپ نے اپنی قابلیت پر جاب حاصل کی۔ اسی دوران آپ کے بھانجے کی روزہ کشائی کی ایک تصویر قومی اخبار میں شایع کرانے کے لئے چلے گئے جہاں آپ کی تصویر کو بہت سراہا گیا اور آپ کو نوکری کی پیشکش کی گئی بطور فوٹو گرافر۔ 1985 میں آپ نے فوٹو گرافی کے بعد صحافتی زندگی میں قدم رکھ لیا اس وقت داؤد خان پٹھان کے 4 زبانوں میں اخبار نکلا کرتے تھے جو کہ پشتو، سندھی ، اردو اور انگلش میں تھے اس کا نام سندھ گارجین تھا لیکن آپ نے اس جگہ کام کرنے کے سے انکار کردیا اور آپکو ڈان میں فوٹوگرافر کے فرائض انجام دینے کی پیشکش کی جو آپ رد نا کرسکے۔
اس طرح 1991 سے آپ نے اپنے کیرےئر کا آغاز ڈان نیوز پیپر سے کیا جو کہ اب تک چل رہا ہے ایسی کئی مثال واقع ہیں جو کہ آج بی صحافت کے پیشے میں یاد رکھی جاتی ہیں جو صحافت کے پیشے کو آج بھی سر فخر سے بلند کرنے پر مجبور
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
Yousuf Nagori, Hyderabad, Journalism in Hyderabad, Photojournalist
ReplyDelete