Wednesday, September 9, 2015

محمد جنید انٹرویو



انٹرویو: محمد جنید 

تحریر: محسن ٹالپر

رول نمبر: 2k13/MC/61 تاریخ:08-09-2015



’’ شعر جو کام کرتا ہے وہ سو مقرر نہیں کر سکتے ‘‘: جنید ابن سیف

تعارف:محمد جنید ابن سیف نے ۷ آکٹوبر ۱۹۸۶ میں حیدرآباد کے ایک معروف کمپییرئر سیف محمد شیخ کے گھر میں جنم لیا۔ اپنی ابتدائی تعلیم حیدرآباد سے حاصل کی ،اور ۲۰۱۰ میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے اردو اد ب میں ماسٹرکیا اور اپنے کیریئر کا آغاز بحیثیت اردولیکچرار پرنسٹن کالیج حیدرآباد سے کیااس وقت آرمی پبلک کالیج حیدرآباد میں تدیرسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جنید ابن سیف کو اپنے تعلیمی سفر میں گولڈ اور سلور میڈل کا ایوارڈ بھی حاصل ہے اور ان کے افسانے ملک کے معروف رسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

س:آپ کااردو ادب میں آنا کیسے ہوا؟

ج:اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ کی رہنمائی کرنے والا نہ ہوتو پھر آپ کے شعبہ کا انتخاب کسی بھی سمت میں جا سکتا ہے اصل میں انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد ہمارا ایک سال ضایع بھی ہوا تو اس کے بعد سندھ یونیورسٹی میں اردو کے شعبہ میں نام آتے ہی ہم نے اس میں داخلہ لے لیا، اردو ادب سے والد محترم کا بہت زیادہ لگاؤ رہا ہے ا سی لیے ہمارا بھی شگف رہا لیکن بہت زیادہ ذوق بحرحال نہیں تھا۔


س:اردو ادب میں شاعری کا آغاز کس سے اور کیسے ہوا؟

ج: آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ اردو خد ایک زباں کا درجہ نہیں رکھتی تھی بلکہ یہ بہت سی زبانوں کا ایک ملغوبا ہے تو اس میں جتنی بھی اصناف ہیں وہ دوسری زبانوں سے رائج ہیں، ہندوستان میں بولے جانے والی زبان فارسی تھی اور اگر اردو غزل کی ہم بات کریں تو غزل عرب زبان سے فارسی میں آئی اور فارسی کے زیر اثر اردو میں رائج ہوئی تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی بنیاد عرب ہے ۔جبکہ اردو میں سب سے پہلے شاعر کا جو نام ملتا ہے وہ مسعود سعد سلمان کا ہے جن کا ذکر امیر خسرو نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے لیکن ان کا کلام نہیں ملتا۔

س:کیا شاعری صرف ردیف اور قافیہ میں پابند جملوں کا نام ہے؟

ج: نہیں شاعری صرف قافیہ پیمائی کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں شاعر کی سوچ اور فکر ہوتی ہے اس کے مشاہدات ہوتے ہیں کیونکہ ادیب حساس طبعیت کا مالک ہوتا ہے وہ جو چیز محسوس کرتا ہے اس کو شعر کی صورت میں ڈاھلتا ہے اور اس کے لیے وہ پابند ہوتا ہے کہ وہ وزن بھی پورا نبھائے قافیہ پیمائی بھی کرے اور ردیف کا استعمال بھی کرے ،جبکہ شعر کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ شعر جو کام کرتا ہے وہ سو مقرر نہیں کر سکتے اس لیے ہم صرف قافیہ پیمائی کو شاعری نہیں کہہ سکتے۔
س:کیا ایک استاد دوست بن سکتا ہے؟
ج:جی ہاں بلکل کیونکہ اب ہم اس دور سے نکل آئے ہیں جب شاگرد ڈر کی وجہ سے پڑھا کرتے تھے اور یونیورسٹی اور کالیج میں شاگرد اس عمر میں ہوتا ہے کہ آپ سختی نہیں کر سکتے آپ کو دوست بن کر عزت اور شفقت کے ساتھ ہی بات کرنی چاھئیے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ایک حد اور کچھ نہ کچھ فاصلہ ضرور ہونا چاھئیے اور ہوتا بھی ہے، دوست ضرور بنیں لیکن بے تکلف نہ ہوں۔



س: ایک استاد معاشرے میں مثبت تبدیلی لے آنے کے لیے کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ 

ج:کسی بھی قوم کی ذہنی پرورش اور فکری تربیت کرنے کے لئیے استاد معاشرے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، استاد ہی ایک قوم کو قوم بناتاہے۔ اگر قوم تباھی کے دھانے پر جا رہی ہے یا ترقی کی طرف گامزن ہے تو اس کے پیچھے استاد ہی ہے۔اب ہمارا تعلیمی نظام سیاست کے زیر اثر ہے جو کچھ بورڈ آفیس ،اسکول اور کالیجوں میں ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکاچھپا تو ہے نہیں جس کی وجہ سے سندھ کا تعلیمی نظام انتھائی گر چکا ہے استاد معاشرے میں ایک بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے جب کوئی قوم خد سنجیدہ ہو۔

س:اس وقت اردو صرف ادیبوں کی زبان تک محدودنہیں رہ گئی؟ اس کی وجہ؟

ج: اس کی وجہ ہمارا میڈیا ہے، میڈیا میں آج کل جو زبان استعمال ہو رہی ہے وہ اردو تو نہیں ہے بلکہ اس میں انگلش کا اثر زیادہ ہے اور دوسری بات اردو صرف ادیبوں کی زبان رہ گئی ہے میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کیونکہ زبان عوام کی ہوتی ہے وہی اس کے بنانے والے اورپالنے والے ہوتے ہیں ۔اردو جب زبان کے طور پر متارف ہوئی تو اس کے پیچھے بھی ادیب نہیں بلکہ عوام تھی یہ بازاروں میں بنی ہے اورلشکر گاہوں میں پلی بڑھی ہے اسلئیے یہ عوامی زبان ہے۔
س: اردو کے مستقبل کوکیسے دیکھتے ہیں؟
ج:اردو کا مستقبل روشن ہے کیونکہ اب یہ ایک علائقہ کی زبان نہیں رہی ہے بلکہ تمام دنیا میں پڑھائی جا رہی ہے پاکستان میں اگر کوئی اس میں دلچسی نہیں لیتا تو یہ ایک الگ بات ہے لیکن باہر ممالک کی جو یونیورسڑیز ہیں وہاں اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے، جب کینیڈا، چائنا، سری لینکا ،ایران اور دیگر ممالک میں یہ زبان پڑھی جا رہی ہو اور اس پر پی ،ایچ،ڈی ہو رہی ہو ں تو میرا خیال ہے کہ پھر اس کا مستقبل بہت روشن ہے۔



س:طالبِ علموں کے لیئے کو ئی خاص پیغامِ؟

ج: اس کے لیئے ہم سر وقار احمد وقار کا شعر پیش کرتے ہیں

فن کوئی ہو ، اعجاز مہارت کا ہے ممنون

بت گر ہو اگر کوئی تو آذر کی طرح ہو۔
آپ جو کام بھی کریں اسے اپنے اوجِ کمال تک پہنچائیں۔ 

No comments:

Post a Comment