Wednesday, September 9, 2015

حیدرآباد کا ایکسپو سینٹر

شاہ رخ عباسی
فیچر

رول نمبر۔2k13/mc/102


حیدرآباد کا ایکسپو سینٹر


سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جو کہ چوڑیوں کی سب سے بڑی پیداوار او ر اپنی ٹھنڈی راتوں کی وجہ سے معروف ہے۔لیکن اسی شہر میں گزرتے وقت کے سا تھ کئی تفریحی مقامات تاریخ کا حصہ بنتے جارہے ہیں اور صرف کتابوں اور رسالوں میں ان کی تصویریں ان کے وجود کا عکس پیش کرتی رہتی ہیں۔اس ہی طرح حیدرآباد میں ایکسپوہ سینڑ آج کل اسی تاریخ کی زندھ تصویر بنا ہوا ہے۔ ا یکسپوہ سینڑ کی بنیاد اکتوبر 2008 میں رکھی گئی اس کی افتتاح گورنر سندھ عشرت العباد او ر ڈاکڑفاورق ستار نے کی اور تاریخ کے چمکتے اور آگے بڑھتے ہوئے سورج نے 2012 کا ھندسادیکھتے ہی اس ا یکسپو سینڑ کو ما ضی کی
علامت بنادیا۔
ا یکسپوہ سینڑ کی تاریخ میں پہلا نمائشی پروگرام ناسہ انڑنیشنل کی طرف سے 2010 اپریل 16تا18 ہوا جس میں مختلف قسم کے اسٹل لگائے گئے جن میں نئے ڈیذائن کے کپڑے، چوڑیاں،کاسمیٹک،شوز اور دیگر چیزوں کی نما ئش ہوئی پھر آنے والے سال دوسرا نمائشی پروگرام (HCCI) حیدرآباد چیمبر آف کامرس انڈسڑی اور (TDAP) ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پاکستان کی طرف سے 2011 جون 23تا25 ہو ا، جس میں15 اسٹل اور25قسم کے آم کی نمائشی ہوئی ۔ اس نمائش میں سندھ کے مختلف شہروں سے لوگوں نے شرکت کی اور پھلوں کے بادشاہ آم کی قسموں سے آراستہ ہوئے،سنہرا،لال بادشاہ،چونسہ،بیگن پھلی،انوار اٹول۔ یہ وہ ایکسپوہ سینڑ ہے جس نے اپنے مختصر وقت میں تاریخ کے بہت سے خو بصورت منظر دیکھے کبھی یہاں پر کتابو ں کی نمائش ہوتی تھی تو ادیبوں کے چہرے کی مسکراہٹ حیدرآباد کے بہترین مستقبل کی ضمانت بن جاتی تھی تو کبھی پھلوں کے بادشاہ آم کی نمائش پر وقت کے کڑوے لموں میں سے بھی انسان میٹھہ ذائقہ حا صل کر کے اپنے مزاجو ں میں فراخ دلی پیدا کرتا رہتا تھا۔ کیونکہ کچھ مقامات محض بجری اور اینٹوں سے بنی ہوئی بلڈنگ نہیں ہوتی،بلکہ معاشرے کے اہم ستون ہوتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر معشارہ پلتا ہے اور اس کی آنے والی نسلیے پروان چڑھتی ہیں اور ان کی سوچوں میں وسعت اور دلوں میں محبت کے جذبے جواں ہوتے ہیں ۔
اگر ایسی ہی چیزیں جو کہ وقت اور معاشرے کی اہم ضرورت ہی بند ہو جائیں تو انسان کے رویہ بدل جاتے ہیں۔ مجھے یہ مثال پیش کرنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ میں خوداس کا ضامن ہوں کہ جب 2011 میں پھلوں کے بادشاہ آم کی نمائش کے پروگرام میں جانے کے بعد واپس گھر آرہا تھا تومزاج میں
وسعت پیدا ہوگئی تھی اور فضا کی خوشبوں میری رگوں میں سمانے لگی تھی۔
اس کے بر عکس اس مضمون کو اپنے منتقی انجام تک پہچانے کے لیے جب حالی میں ایکسپوہ سینڑ گھو منے گیا تو اس کے کالے دروازے پر موٹا کالا تالا دیکھ کر میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور میرے اندر مایوسی پیدا ہوگئی میں واپس جب گھر آنے لگا تو فضامیں مایوسی تھی اور اس بند دروازے پر لگے جالے باربار میری بینائی کے سامنے آنے لگی اور مجھے ہلکی آواز میں کہنے لگی جب انسانوں کے زہنوں جالے لگ جائیں تو معاشرے کو اپنے نقط عروج پر پہچانے والی عمارتوں کو تالے ہی لگتے ہیں۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment