پروفائل:۔ پروفیسر ڈاکڑ صادق میمن:۔
تحریر: عبدلرافع سہیل:۔
2k13/MC/03
ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور دکھی انسان ذات کی خدمت کرتے ہیں۔اس لیے انہیں مسیحا کہاجاتا ہے۔لوگ اس مرتبے کی بہت عزت کرتے ہیں اور یہ سچ ہے کہ آج کل ایسے بھی نامی گرامی لوگ اس دنیا میں موجود ہیں جو ڈاکٹروں کے نام پر سیاہ دھبہ ہیں ۔بہر حال تمام ڈاکٹر جعلی یا نا اہل نہیں ہوتے اور چند ایسے ڈاکٹر اور طبیب لوگ موجود ہیں جو ہمیں ہمارے معاشرے میں نظرآتے ہیں جو اپنی محنت جستجو اور کوششوں کے دم سے پہچانے جاتے ہیں۔
انہیں میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن ہیں جو26جنوری 1969 میں پاکستان کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔والد کا نام عبدلعزیز میمن تھا ۔ انکے والد ایک نہایت ہی سادہ زندگی گزار پسند آدمی تھے انکا تعلق بھارت کے شہر کاٹھیاوار سے تھا 1947 ء میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے شہر حیدرآباد آگئے اور یہیں پناہ لینے میں اپنی آفیت جانی۔ڈاکٹر صادق میمن نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی اور انٹر میڈیٹ گورمنٹ کالج کالی موری سے پاس کیا۔تعلیم کو ہی اپنا ہتھیار سمھجتے ہوئے ہار نہ مانی ڈاکٹر بنے کا شوق تو بچپن ہی سے تھا اور خواب تھا کہ غریبوں اور مستحکوں کی مدد کروں۔
اپنی اس امید کوقائم رکھتے ہوئے ہار نہ مانی اور 1987 ء میں لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ اینڈ سائنس میں داخلہ لے لیا اور یہیں سے اپنے کیریئر کا آغاز شروع کیا۔اتنے وسائل درپیس نہ ہونے کی صورت میں آپ نے ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ محنت میں شرم محسوس نہ کی اور کلاتھ مارکیٹ حیدرآباد میں ایک کپٹرے کی دکان پر بطور ملازمت اپنی خدمات سر انجام دیں اور اسکے ساتھ
ساتھ بچوں کو گھر گھر جا کر ٹیوشن پڑہاتے اور اپنی میڈیکل کی پڑہائی کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے اپنی اس محنت کی کمائی کی رقم سے اپنی پڑہائی کے اخراجات خود اٹھاتے والد کو کسی قسم کی پریشانی نہیں دیتے۔
1992 ء میں آپ نے اپنا ایم۔ بی۔ بی ۔ایس مکمل کرلیا اور ڈاکٹر کا لقب اپنے نام کے ساتھ جوڑ لیا۔
لیکن MBBS کرنے کے بعدانہوں نے کسی ایک مرض میں مہارت حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی اور پھر ماہر امراض معدہ وجگر کی تعلیمی اسناد حاصل کر چکے ہیں اور اپنے فن میں اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ پورے ملک اور بیرون ممالک میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں پہلے انکا ایک چھوٹا سا کلینک ہوا کرتا تھا لیکن مریضوں کے مرض اور علاج کے لیے اپنا خود کا ہسپتال شروع کیا اور آج انکا ہسپتال ملک کے چند بہترین ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ دیگر ممالک کے بھی دورے کرتے ہیں اور جگر کے مریضوں کو اللہ کی مدد سے شفاء یاب بھی کرتے ہیں بھارتی ڈاکٹروں نے جو جگر کا پہلا ٹرانسپلانٹ کیا تھا آپ بھی اس میں شریک ہوئے تھے ۔جس مریض کا علاج یہاں ممکن نہیں ہوتاتو یہ دیگر ممالک کے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے
ہیں جس میں بھارت کا نام سرفہرست ہے۔
ہیں جس میں بھارت کا نام سرفہرست ہے۔
جگر کے مریض کا ایک علاج جسے ای۔آر۔سی۔پی کہا جاتا ہے جو کہ آغا خان میں 60ہزار سے 1لاکھ تک ہوتا سے وہی علاج آپ کے ہسپتال میں 5سے10ہزار میں کیا جاتا ہے اور اگر جو مریض علاج کا خرچہ نہیں اٹھا سکتا تو آپ اسکا علاج بطور انسانیت مفت میں کرتے ہیں۔
آج کل دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اپنی ذات سے کسی دوسرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں مگر آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے اچھے لوگ مل ہی جاتے ہیں جیسے کہ پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن ہیں انکی شخصیت کو دیکھ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی اس زندگی میں پیسہ کو ہی اپنا سب کچھ نہ سمجھا بلکہ اپنی عزت اور شہرت کو اونچائی پر رکھا۔
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment