اس موضوع پر کئی ریسرچ رپورٹس ہیں ان کا حوالہ دو اور بہتر بناؤکئے ہیں۔
محمد اسد عبا سی رول نمبر 2k13/mc/65
نجی اسکولز کا بڑھتا ہوا رجحان۔(ارٹیکل)
اعلی و معیاری تعلیم کے فروغ کا جو مشن محکمہ تعلیم کے ذمے ہے۔ اس میں سے چالیس فیصد نجی اداروں کو بھی دیا گیا ہے۔ لیکن معیار تعلیم دیکھ کر لگتا ہے کہ اس اہم شعبے کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ حکومت کی اس بدانتظامی کی وجہ سے عام آدمی اپنے بچوں کو نجی اسکولز میں تعلیم دلانے پر مجبور ہے ۔ نجی اسکولز میں بہتر تعلیمی سہولیات اور بہتر نتائج کی وجہ سے ملک کے ہر بڑے شہر میں ہر سال چھ سے آٹھ فیصد نجی اسکولز قائم کئے جاتے ہیں۔
نجی اسکولز کے بارے میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ یہاں تعلیم قومی ذمہ داری کے تحت نہیں بلکہ کاروباری نکتہ نظر کے مطابق فراہم کی جارہی ہے لیکن اس کاروبار میں تمام نجی اسکولز شامل نہیں۔ مگر ایک اندازے اور سروے کے مطابق 80 فیصد نجی اسکولز جو صرف کاروباری نیت سے ہی علم کی روشنی پھیلانے کاڈھونگ رچا رہے ہیں۔ اور یہ ہی نہیں بلکہ کچھ نجی اسکولز کا یہ انکشاف بھی ہوا ہے جو تعلیمی سہولیات کی فراہمی کا جھانسہ دے کر والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اس کام میں نجی اسکولز کا یہ کاروبار اس لئے عروج پر ہوتا جارہا ہے کیونکہ تمام والدین چاہتے ہیں کہ انہیں دو وقت روٹی کاحصول ہی کیوں نہیں مشکل ہو لیکن وہ اپنے بچون کو ہر طریقے سے بہترین تعلیم فراہم کرسکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 80 فیصد والدین ان کاروباری تعلیم فروشوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں بلکہ والدین ہی نہیں جو اساتذہ نجی اسکولز میں پڑھاتے ہیں ان کے ساتھ بھی نہ انصافیاں کی جاتی ۔ اس پیر اگراف میں اسکول فیس، اور دیگر اسکول کے خرچے دو، کہ بڑے، درمیانے اور چھوٹے نجی اکسلوں میں کیا صورتحال ہے۔
اساتذہ کا سب سے اہم مسئلہ ماہانہ تنخواہ کا ہے۔اسکول کو رجسٹر کرانے اورتعلیمی بورڈ سے اجازت لینے کے لئے اساتذہ کی کوالی فیکیشن کے مطابق ماہانہ تنخواہ بڑھا چڑھا کر لکھی جاتی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ ایسے کیس بھی سامنے آ!ے ہیں کہ پندرہ سوروپے سے شروع ہونیوالی تنخواہ 3000روپے پر ختم ہوجاتی ہے۔ اور موسم گرما اور سرما اور دیگر تعطیلات کی تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ بلکہ اگر کوئی ٹیچر بیماری یا کسی مجبوری کے تحت چھٹی کرلے تو اس کی یومیہ تنخواہ سے کٹوتی ہوجاتی ہے۔ نجی اسکولز کے مالکان کا کاروبار چمکتا ہے ۔عوام اوراساتذہ بیروزگاری کے باعث ان نجی اسکولز میں ملازمت کررہے ہیں ان کے پیٹ کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ،محکمہ تعلیم کو ان نجی اسکولز پر نظر رکھ کر اس بازار کو ختم کیا جائے اور سرکاری سطح پر اچھی تعلیم فراہم کی جائے جس سے اس ملک کی عوام غریب اور مجبور اساتذہ کو تحفظ مل سکے۔
اس میں کیا چیز ریوائیز کی ہے؟ نجی اکسلوں کی فیس کے معاملے پر ابھی تو ملک بھر میں تحریک چل رہی ہے۔ مظاہرے ہورہے ہیں۔ ٹھیک سے لکھو، کوئی اعداد وشمار دو۔ نیٹ پر بھی اعداد وشمار موجود ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کو حیدرآباد یا سندھ کی لیول پر لکھو۔ پیرا گراف ٹھیک سے بناؤ۔ اس کے کچھ حصے میں نے ایڈٹ
------------------------------------------
Referred back
U should have sent file with proper file name and on this context ur marks will also be deducted. The format is also BOI, not proper inpage.
محمد اسد عبا سی رول نمبر 2k13/mc/65
نجی اسکولز کا بڑھتا ہوا رجحان۔(ارٹیکل)
اعلی و معیاری تعلیم کے فروغ کا جو مشن محکمہ تعلیم کے ذمے ہے۔ اس میں سے چالیس فیصد نجی اداروں کو بھی دیا گیا ہے۔ لیکن معیار تعلیم دیکھ کر لگتا ہے کہ اس اہم شعبے کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ حکومت کی اس بدانتظامی کی وجہ سے عام آدمی اپنے بچوں کو نجی اسکولز میں تعلیم دلانے پر مجبور ہے ۔ نجی اسکولز میں بہتر تعلیمی سہولیات اور بہتر نتائج کی وجہ سے ملک کے ہر بڑے شہر میں ہر سال چھ سے آٹھ فیصد نجی اسکولز قائم کئے جاتے ہیں۔
نجی اسکولز کے بارے میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ یہاں تعلیم قومی ذمہ داری کے تحت نہیں بلکہ کاروباری نکتہ نظر کے مطابق فراہم کی جارہی ہے لیکن اس کاروبار میں تمام نجی اسکولز شامل نہیں۔ مگر ایک اندازے اور سروے کے مطابق 80 فیصد نجی اسکولز جو صرف کاروباری نیت سے ہی علم کی روشنی پھیلانے کاڈھونگ رچا رہے ہیں۔ اور یہ ہی نہیں بلکہ کچھ نجی اسکولز کا یہ انکشاف بھی ہوا ہے جو تعلیمی سہولیات کی فراہمی کا جھانسہ دے کر والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اس کام میں نجی اسکولز کا یہ کاروبار اس لئے عروج پر ہوتا جارہا ہے کیونکہ تمام والدین چاہتے ہیں کہ انہیں دو وقت روٹی کاحصول ہی کیوں نہیں مشکل ہو لیکن وہ اپنے بچون کو ہر طریقے سے بہترین تعلیم فراہم کرسکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 80 فیصد والدین ان کاروباری تعلیم فروشوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں بلکہ والدین ہی نہیں جو اساتذہ نجی اسکولز میں پڑھاتے ہیں ان کے ساتھ بھی نہ انصافیاں کی جاتی ۔ اس پیر اگراف میں اسکول فیس، اور دیگر اسکول کے خرچے دو، کہ بڑے، درمیانے اور چھوٹے نجی اکسلوں میں کیا صورتحال ہے۔
اساتذہ کا سب سے اہم مسئلہ ماہانہ تنخواہ کا ہے۔اسکول کو رجسٹر کرانے اورتعلیمی بورڈ سے اجازت لینے کے لئے اساتذہ کی کوالی فیکیشن کے مطابق ماہانہ تنخواہ بڑھا چڑھا کر لکھی جاتی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ ایسے کیس بھی سامنے آ!ے ہیں کہ پندرہ سوروپے سے شروع ہونیوالی تنخواہ 3000روپے پر ختم ہوجاتی ہے۔ اور موسم گرما اور سرما اور دیگر تعطیلات کی تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ بلکہ اگر کوئی ٹیچر بیماری یا کسی مجبوری کے تحت چھٹی کرلے تو اس کی یومیہ تنخواہ سے کٹوتی ہوجاتی ہے۔ نجی اسکولز کے مالکان کا کاروبار چمکتا ہے ۔عوام اوراساتذہ بیروزگاری کے باعث ان نجی اسکولز میں ملازمت کررہے ہیں ان کے پیٹ کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ،محکمہ تعلیم کو ان نجی اسکولز پر نظر رکھ کر اس بازار کو ختم کیا جائے اور سرکاری سطح پر اچھی تعلیم فراہم کی جائے جس سے اس ملک کی عوام غریب اور مجبور اساتذہ کو تحفظ مل سکے۔
اس میں کیا چیز ریوائیز کی ہے؟ نجی اکسلوں کی فیس کے معاملے پر ابھی تو ملک بھر میں تحریک چل رہی ہے۔ مظاہرے ہورہے ہیں۔ ٹھیک سے لکھو، کوئی اعداد وشمار دو۔ نیٹ پر بھی اعداد وشمار موجود ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کو حیدرآباد یا سندھ کی لیول پر لکھو۔ پیرا گراف ٹھیک سے بناؤ۔ اس کے کچھ حصے میں نے ایڈٹ
Referred back
U should have sent file with proper file name and on this context ur marks will also be deducted. The format is also BOI, not proper inpage.
Ap kia ho? Asad Abbasi, Muhammad Asad Abbasi, Ya Muhammad Asad? This creates problem in Tagging and search
محمد اسد رول نمبر
2k13/mc/65
نجی اسکولز کا بڑھتا ہوا رجحان۔(ارٹیکل)
اعلی و معیاری تعلیم کے فروغ کا جو مشن محکمہ تعلیم نے اپنے ذمے لیا ہے اس میں سے چالیس فیصد نجی اداروں کو بھی دیا گیا ہے لیکن حکومت کی جانب سے تعلیم ہمارے ملک عزیز کے طالبعلموں کو فراہم کی جارہی ہے اس تعلیم کا کوئی پرسانے حال نہیں ہے۔ حکومت کی اس بدکاری کی وجہ سے ملک عزیز کی عوام اپنے بچوں کون جی اسکولز میں تعلیم دیلانے کو ترجیح دیتی ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہر دور میں نجی اسکولز میں بہترین تعلیمی سہولیات اور بہترن نتائج کی وجہ سے ملک کے ہر بڑے شہر میں ہر سال چھ سے آٹھ فیصد نجی اسکولز قائم کئے جاتے ہیں۔ لیکن اب نجی اسکولز کے بارے میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ یہاں قومی ذمہ دارے کے تحت نہیں بلکہ کاروباری نکتہ نظر کے مطابق فراہم کی جارہی ہے لیکن اس کاروبار میں تمام نجی اسکولز شامل نہیں۔ مگر ایک اندازے اور سروے کے مطابق 80 فیصد نجی اسکولز جو صرف کاروباری نیت سے ہی علم کی روشنی پھیلانے کاڈھونگ رچا رہے ہیں۔ اور یہ ہی نہیں بلکہ کچھ نجی اسکولز کا یہ انکشاف بھی ہوا ہے جو تعلیمی سہولایت کی فراہمی کا جھانسہ دے کر والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اس کام میں نجی اسکولز کا یہ کاروبار اس لئے عروج پر ہوتا جارہا ہے کیونکہ والدین تمام والدین چاہتے ہیں کہ انہیں دو وقت روٹی کا حصول ہی کیوں نہیں مشکل ہو لیکن وہ اپنے بچون خو ہر طریقے سے بہترین تعلیم فراہم کرسکیں اور یہی وجہ ہے کہ 80 فیصد والدے ان کاروباری تعلیم فروشوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں بلکہ والدین ہی نہیں جو اساتذہ نجی اسکولز میں پڑھاتے ہیں ان کے ساتھ بھی نہ انصافیاں اور ظلم ڈھائے جاتے ہیں جبکہ اساتذہ کا سب سے اہم مسئلہ ماہانہ تنخواہ کا ہے۔ نجی اسکولز میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ بلکہ اب تو یہ ان کی پالیسی کا مضبوط حسہ بن چکی ہے کہ محکمہ تعلیم سے اپنے اسکول کو رجسٹر کروانے اورتعلیمی بورڈ سے الحاق لینے کے لئے اساتذہ کی کوالی فیکیشن کے مطابق ماہانہ تنخواہ بڑھا چڑھا کر لکھی جاتی ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ یہاں ایسے کیس بھی سامنے آ!ے ہیں کہ پندرہ سوروپے سے شروع ہونیوالی تنخواہ 3000روپے پر ختم ہوجاتی ہے۔ اور موسم گرما اور سرما اور دیگر تعطیلات کی تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ بلکہ اگر کوئی ٹیچر بیماری یا کسی مجبوری کے تحت کرلے تو اس کی یومیہ تنخواہ سے کٹوتی ہوجاتی ہے۔ نجی اسکولز کے مالکان اپنے اس کاروبار میں مگن ہو کر عوام اور غریب اساتذہ جو جاب نہ ہونے کے باعث ان اسکولز میں ملازمت کررہے ہیں ان کے پیٹ کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں
No comments:
Post a Comment