Tuesday, September 1, 2015

رنی کوٹ دیوارِ سندھ - عبدالرافع سہیل, Edited

Edited 
رنی کوٹ دیوارِ سندھ   
عبدالرافع سہیل فیچر:

دنیا کا سب سے بڑا قلعہ "رنی کوٹ"سندھ کے ضلع جامشورو کے علاقے کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے اس کو دیوارِ سندھ بھی کہا جاتا ہے،یہ کسی حد تک دیوارِ چین کی مانند ہے۔ اس دیوار کی لمبائی 32کلو میٹر تقریباََ20میل ہے اور اونچائی 30سے 25فٹ ہے بعض لوگوں کے مطابق اس دیوار کو ایرانی اور بعد میں ٹالپور حکمرانوں نے تعمیر کیا ہے۔
رنی کوٹ ایک ایسی ہی تاریخی عمارت ہے جو رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے یہ ایک منفرد عمارت ہے لیکن بد قسمتی سے اسے ملکی خواہ عالمی سطح پر نظر انداز کیا گیا ۔یونیسیف کی عالمی ورثے میں شامل کی جانے والی عمارات کی میں رنی کوٹ شامل نہیں۔
اس قلعہ کے قریب 5000ہزار سال قبل مسیح "آمری" کی بستی کے آثار ملے ہیں۔ 

یہ امر بھی واضح کرتا ہے کہ علاقہ کھیر تھر تجارتی قافلوں اور افواج کا راستہ رہا ۔ بلوچستان سندھ، پنجاب اور راجستھان کی گزر گاہوں کاوہاں سنگم بن چکا تھا،سیتھی کامیاب رہے اور انہوں نے سندھ پر بھی قبضہ کرلیا تاہم مشرقی ہندوستان پر حکمران ایک اور ایرانی قبائل پارتھیائی ان پر حملے کرتے رہے ۔
یو ں قلعہ رنی کوٹ وجود میں آیا، رفتہ رفتہ سیتھی اور بستیآمری قصہِ پارنیہ بن گئے، مگر قلعہ قائم رہا، اس وقت اس میں برج موجود نہ تھا یہ 45برج 1812ء ؁ میں سندھ کے دو ٹالپور حکمرانوں میر کرم خان، اور میر مراد علی خان نے تعمیر کرائے ، تاکہ وہاں تو پیں رکھی جاسکیں یہ قلعہ آج بھی ایک عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتا ہے ۔سیتھی 400 سال تک موجود ہ سندھ اور ہند کے کئی علاقوں پر حکومت کرتے رہے تاہم آہستہ آہستہ ان کی سلطنت ختم ہوتی گئی۔
رنی کوٹ سندہ کا تاریخی قلعہ ہے جو کے اپنی ایک پہچان رکھتا ہے جس کو حکومت کی جانب سے ہر دور میں نزر انداز کیا جا رہا ہے صدیوں پرانے اس تاریخی قلعہ کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی خا ص اقدامات نہیں کیے گے ۔ اس قلعہ کی مختلف دیواریں خستہ حالی کا شکار ہیں جو کہ دن بہ دن سیاحوں کے لیے نقصان دہ بنتی جا رہی ہیں حکومت کی توجہ نہ ہونے کے باعاعث یہ سندہ کا تاریخی قلعہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک ٹرسٹ کی جانب سے قلعہ کے اندر واقع چھوٹے قلعہ میری کوٹ اور شاہ پیر کی تزئین و از سرنو تعمیر کی گئی ہے۔ 
Editing Muneeba Hafeez
------------------------ FIRST VERSION --------------------------------
عبدالرافع سہیل

2K13/MC/03

فیچر:۔  رنی کوٹ (دیوارِ سندھ)

دنیا کا سب سے بڑا قلعہ "رنی کوٹ"سندھ کے ضلع جامشورو کے علاقے کھیر تھر میں واقع ہے اس کو ملعقہ دیوارِ سندھ بھی کہا جاتا ہے،جو کہ کسی حد تک دیعار چین کی مانند ہے اس دیوار کی لمبائی 32کلو میٹر تقریباََ20میل ہے اور اونچائی 30سے 25فٹ ہے بعض لوگوں کے مطابق اس دیوار سکندرِ اعظم اور ٹالپور حکمرانوں نے تعمیر کیا ہے۔

قلعہ رانی کوٹ حیدرٓباد ے جانب شمال 90کلو میٹر دور کھیر تھر پہاڑوں کے قریب واقع ہے پاکستانیوں کی اکثریت کے مطابق اس نامی گرامی قلعہ کی تاریخ بنیادی معلومات سے نا واقف ہے اس کی خاص یہ ہی وجہ ہے کہ یہ قلعہ بے آباد ویران اور گنجان علاقے میں واقع ہے ۔
رنی کوٹ ایک ایسی ہی تاریخی عمارت ہے جو رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے جس کی چار دیواری 24 کلو میٹر طویل ہے اس اعتبار سے یہ ایک منفرد عمارت ہے لیکن بد قسمتی سے اسے ملکی اور بین لااقوامی سطع پر نزر انداز کیا گیا ہے یوں اسکو جو کہ پوری دنیا کی تہزیب کے نشانات کو مہفوظ رکھنے کا دعواکرتے ہیں کہ اس نے عالمی ورثے میں شامل کی جانے والی عمارات کی جو فہرست بناہی ہے اس میں رنی کوٹ کا نام تک شامل نہیں۔

جب اس کی باریکی سے تحقیق کی گئی تو ایک دلچسپ انکشافات نمایع ہوئے ،دنیا کی اولین انسانی بستیاں دریاؤں کے کنارے آباد ہوئی ناکہ انہیں 24گھنٹے زندگی کا منبع پانی ملتا رہے علاقے کھیر تھر میں ایک بڑی ندی اب رنی کوٹ ندی کے کنارے 5000ہزار سال قبل "امری"نامی بستی کی بنیاد پڑی جس کے آثار قدیم قلعہ رانی کوٹ کے قریب ہی واقع ہے اس ندی کا پانی دریائے سندھ جا ملتا ہے جو کسی دور میں 40میل دور بہتا تھاراستہ بدلنے کی وجہ سے اب اس کی دوری صرف20میل رہے گئی اس بستی کے آثار بتاتے ہیں کہ جب یہ علاقہ انسانوں کی گذر گاہ بن چکا تھا تو خیال ہے کہ یہ بستی وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ اور سندھ راجھستان اور پنجاب کی دیگر بستیوں سے بہ را منسلک تھی۔80کے قبل مسیع میں یونانیباختری سندھ پر حکومت کررہے تھے تب تک سندھ میں مشہور بندرگاہ بھنبھور کی واضح بیل چکی تھی اس بندرگاہ اکے آثار کراچی کے مضافاتی علاقے ، دھابیجی کے نزدیک واقع ہیں انہیں دنوں ایرانی قبائل سیتھی افغانستان میں اپنی سلطنت کرچکے تھے۔

یہ امر بھی واضح کرتا ہے کہ علاقہ کھیر تھر تب تک تجارتی قافلوں اور افواج کا راستہ بن چکا تھا کینوکہ بلوچستان سندھ، پنجاب اور اجھستان کی کئی گزر گاہوں کاوہاں سنگم بن چکا تھا،سیتھی کامیاب رہے اور انہوں نے سندھ پر بھی قبضہ کرلیا تاہم مشرقی ہندوستان پر حکمران ایک اور ایرانی قبائل پارتھیائی ان پر حملے کرتے رہے ۔ 
اسی دور ان ایک اہم عالمی تبدیلی رونماء ہوئی اورایک عظیم سلطنت روما وجود میں آئی جلد ہی وہ اس زمانے کی اکلوتی سپر پاور بن گئی تمام سپر پاور کی مانند رومی بھی دنیا جہاں کی لگژی اشیاء اپنے یہاں منگوانا چاہتے تھے چین، تبت، ہندوستان اور افغانستان سے مختلف سامان، کھالیں ،موتی، قیمتی پھتر، لوہا، اونی کپڑے ،جانور ، مصالحے، ریشم، سوت، شیشم، پھل، چاول، اناج، وغیرہ منگواتے ،رومی سلطنت پہنچنے لگا ، بدلے میں چینی ہندوستانی اور افغانی سونے چاندی کے برتن ، سکے،شراب اور مختلف رنگ درآمد کرتے۔


1ء تک جنوبی اشیاء چین ارو سلطنت روما کے مابین ہونے والی اس تجارت کا سب سے ایک بڑا مرکز بھنبھور کی بندرگاہ بن گئی وجہ تھی کہ وہی سکندریہ اور رومیوں کی دیگر اہم بندرگاہوں کے نزدیک ترین واقع تھی ۔

چنانچہ چین ،افغانستان، تبت ، اور ہندوستان سے کثیر سامان پہلے پھنبھور پہنچتا اور پھر بحری جہازوں کے ذریعے دوسرے ممالک چلا جاتا ،رومیوں نے اس بندرگاکو"بربریکون"کا نام دیا تھا، اس تجارت کے باعث کھیر تھر گذرگاہ نے بہت اہمیت اختیار کرلی ، کیونکہ بیرونِ سندھ سے آنے والے بیشتر تجارتی قافلے وہی س یگزر کر بھنبھور جاتے تھے اس اہم تجارتی راستے دشمنوں کی دسترس محفوظ کرنے کی خاطر سیتھیوں نے بستی امری کے نزدیک بہت بڑا قلعہ بنایا جہاں مستقل طور پر ایک بھاری فوج قیام کرسکے۔
یو ں قلعہ رنی کوٹ وجود میں آٰ ا، رفتہ رفتہ سیتھی اور بستی اَمری قصرِ پارنیہ بن گئے، مگر قلعہ قائم و دائم رہا، اس وقت اس میں برج موجود نہ تھا یہ 45برج 1812ء ؁ میں سندھ کے دو ٹالپور حکمرانوں میر کرم خان، اور میر مراد علی خان، نے تعمیر کرائے ، تاکہ وہاں تو پیں رکھی جاسکیں یہ قلعہ آج بھی ایک عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتا ہے ۔
سیتھی 400تک موجود ہ پاکستان اور بھارت کے کئی علاقوں پر حکومت کرتے رہے تاہم آہستہ آہستہ ان کی 
سلطنت ختم ہوتی رہی ،آخر چندر گیت موریہ نے ان کی یہ حکومت ختم کرڈالی مگر سیتھیوں کے آثا ر آج بھی ختم نہ ہوئے۔

رنی کوٹ سندہ کا تاریخی قلعہ ہے جو کے اپنی ایک پہچان رکھتا ہے جس کو حکومت کی جانب سے ہر دور میں نزر انداز کیا جا رہا ہے صدیوں پرانے اس تاریخی قلہ کے لیے حکومت کی جانب سے کوہی خا ص اقدامات نہیں کیے گے ۔ اس قلے کی مختلف دیواریں خستہ حالی کا شکار ہیں جو کہ دن بہ دن سیاحوں کے لیے نقصان دے بنتی جا رہی ہیں حکومت کی توجہ نہ ہونے کے باعاعث یہ سندہ کا تاریخی قلعہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنتا جا رہا ہے۔
-------------------------------------------------------
عبدالرافع سہیل Referred back 2K13/MC/03



فیچر:۔ رنی کوٹ (دیوارِ سندھ)

قلعہ کے اندر کیا ہے؟ اس کی تفصیلات اور اس وقت کیا حالت ہےَ حکومت کی جانب سے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟ ان کا ذکر ہونا چاہئے۔ فیچر ہمیشہ رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے۔ مطلب اس میں دیکھنے ولاے کا مشاہدہ، متعلقہ لوگوں اور ماہرین سے بات چہیت، تازہ ترین صورتحال وغیرہ ہو۔ آپ کا فیچر تمام کا تمام سیکنڈری ڈیٹا پر ہے۔ 

یہ فیچر کے زمرے میں ہی نہیں آتا۔ 
دنیا کا سب سے بڑا قلعہ "رنی کوٹ"سندھ کے ضلع جامشورو کے علاقے کھیر تھر میں واقع ہے اس کو ملعقہ دیوارِ سندھ بھی کہا جاتا ہے،جو کہ کسی حد تک دیعار چین کی مانند ہے اس دیوار کی لمبائی 32کلو میٹر تقریباََ20میل ہے اور اونچائی 30سے 25فٹ ہے بعض لوگوں کے مطابق اس دیوار سکندرِ اعظم اور ٹالپور حکمرانوں نے تعمیر کیا ہے۔



قلعہ رانی کوٹ حیدرٓباد ے جانب شمال 90کلو میٹر دور کھیر تھر پہاڑوں کے قریب واقع ہے پاکستانیوں کی اکثریت کے مطابق اس نامی گرامی قلعہ کی تاریخ بنیادی معلومات سے نا واقف ہے اس کی خاص یہ ہی وجہ ہے کہ یہ قلعہ بے آباد ویران اور گنجان علاقے میں واقع ہے ۔



جب اس کی باریکی سے تحقیق کی گئی ت ایک دلچسپ انکشافات نمایع ہوئے ،دنیا کی اولین انسانی بستیاں دریاؤں کے کنارے آباد ہوئی ناکہ انہیں 24گھنٹے زندگی کا منبع پانی ملتا رہے علاقے کھیر تھر میں ایک بڑی ندی اب رنی کوٹ ندی کے کنارے 5000ہزار سال قبل "امری"نامی بستی کی بنیاد پڑی جس کے آثار قدیم قلعہ رانی کوٹ کے قریب ہی واقع ہے اس ندی کا پانی دریائے سندھ جا ملتا ہے جو کسی دور میں 40میل دور بہتا تھاراستہ بدلنے کی وجہ سے اب اس کی دوری صرف20میل رہے گئی اس بستی کے آثار بتاتے ہیں کہ جب یہ علاقہ انسانوں کی گذر گاہ بن چکا تھا تو خیال ہے کہ یہ بستی وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ اور سندھ راجھستان اور پنجاب کی دیگر بستیوں سے بہ را منسلک تھی۔80کے قبل مسیع میں یونانیباختری سندھ پر حکومت کررہے تھے تب تک سندھ میں مشہور بندرگاہ بھنبھور کی واضح بیل چکی تھی اس بندرگاہ اکے آثار کراچی کے مضافاتی علاقے ، دھابیجی کے نزدیک واقع ہیں انہیں دنوں ایرانی قبائل سیتھی افغانستان میں اپنی سلطنت کرچکے تھے۔



یہ امر بھی واضح کرتا ہے کہ علاقہ کھیر تھر تب تک تجارتی قافلوں اور افواج کا راستہ بن چکا تھا کینوکہ بلوچستان سندھ، پنجاب اور اجھستان کی کئی گزر گاہوں کاوہاں سنگم بن چکا تھا،سیتھی کامیاب رہے اور انہوں نے سندھ پر بھی قبضہ کرلیا تاہم مشرقی ہندوستان پر حکمران ایک اور ایرانی قبائل پارتھیائی ان پر حملے کرتے رہے ۔



اسی دور ان ایک اہم عالمی تبدیلی رونماء ہوئی اورایک عظیم سلطنت روما وجود میں آئی جلد ہی وہ اس زمانے کی اکلوتی سپر پاور بن گئی تمام سپر پاور کی مانند رومی بھی دنیا جہاں کی لگژی اشیاء اپنے یہاں منگوانا چاہتے تھے چین، تبت، ہندوستان اور افغانستان سے مختلف سامان، کھالیں ،موتی، قیمتی پھتر، لوہا، اونی کپڑے ،جانور ، مصالحے، ریشم، سوت، شیشم، پھل، چاول، اناج، وغیرہ منگواتے ،رومی سلطنت پہنچنے لگا ، بدلے میں چینی ہندوستانی اور افغانی سونے چاندی کے برتن ، سکے،شراب اور مختلف رنگ درآمد کرتے۔



1ء تک جنوبی اشیاء چین ارو سلطنت روما کے مابین ہونے والی اس تجارت کا سب سے ایک بڑا مرکز بھنبھور کی بندرگاہ بن گئی وجہ تھی کہ وہی سکندریہ اور رومیوں کی دیگر اہم بندرگاہوں کے نزدیک ترین واقع تھی ۔



چنانچہ چین ،افغانستان، تبت ، اور ہندوستان سے کثیر سامان پہلے پھنبھور پہنچتا اور پھر بحری جہازوں کے ذریعے دوسرے ممالک چلا جاتا ،رومیوں نے اس بندرگاکو"بربریکون"کا نام دیا تھا، اس تجارت کے باعث کھیر تھر گذرگاہ نے بہت اہمیت اختیار کرلی ، کیونکہ بیرونِ سندھ سے آنے والے بیشتر تجارتی قافلے وہی س یگزر کر بھنبھور جاتے تھے اس اہم تجارتی راستے دشمنوں کی دسترس محفوظ کرنے کی خاطر سیتھیوں نے بستی امری کے نزدیک بہت بڑا قلعہ بنایا جہاں مستقل طور پر ایک بھاری فوج قیام کرسکے۔



یو ں قلعہ رنی کوٹ وجود میں آٰ ا، رفتہ رفتہ سیتھی اور بستی اَمری قصرِ پارنیہ بن گئے، مگر قلعہ قائم و دائم رہا، اس وقت اس میں برج موجود نہ تھا یہ 45برج 1812ء ؁ میں سندھ کے دو ٹالپور حکمرانوں میر کرم خان، اور میر مراد علی خان، نے تعمیر کرائے ، تاکہ وہاں تو پیں رکھی جاسکیں یہ قلعہ آج بھی ایک عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتا ہے ۔



سیتھی 400تک موجود ہ پاکستان اور بھارت کے کئی علاقوں پر حکومت کرتے رہے تاہم آہستہ آہستہ ان کی سلطنت ختم ہوتی رہی ،آخر چندر گیت موریہ نے ان کی یہ حکومت ختم کرڈالی مگر سیتھیوں کے آثا ر آج بھی ختم نہ ہوئے۔

No comments:

Post a Comment