Tuesday, September 1, 2015

پروفائل چاچا فاروق : اسد علی

 Seems ok, foto is required 

نام اسد علی

رول نمبر2k13/MC/17 
پروفائل چاچا فاروق (آنگن کوگلشن بناتے)
ہر شخص کسی نہ کسی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے،ضرورت ہے تو اس صلاحیت کو پہچاننے کی،لوگ اپنے اندر چھپی صلاحیت کو جان کر اپنے مقصد کی جانب رواں دواں ہو جاتے ہیں۔زندگی کا بھی ایک مقصد ہے دوسروں کی خدمت کر نا ان کے کام آنا اگر اس تنازل میں ان لوگوں کو دیکھا جائے تو یہ باصلاحیت لوگ ہمارے معاشرے کا قیمتی اساسہ ہیں،ایسے ہی ایک شخص چا چا فاروق بھی ہیں جو اپنی شجرکاری کی صلاحیت کے ذریعے لوگوں کو قدرتی حسن سے سر شار نایاب پھول پودوں سے اگاہی فراہم کر تے انہیں ان کے گھروں کے باغیچوں کی زینت بنانے میں مصروف ہیں۔
1960 میں ٹنڈو محمد خان کے نواحی گاؤں میں پیدا ہونے والے چاچا فاروق نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال کھیتوں ،فصلوں کے ساتھ موج مستی اور ان کی دیکھ بھال میں گزارے، تعلیم کے لفظ سے ناواقف تھے ہوتے بھی کیسے کیو نکہ نہ گاؤں میں اسکول نہ اس کے آس پاس،رنگینیوں کے شوقین تھے چناچہ شہر سے آنے والوں سے خوب کچہری جمتی، وہ شہری جنت کی تعریفیں کئے جاتے اور یہ اس گنگا میں بھتے چلے جاتے،آخر کارچاچا جی نے گاؤں کی مٹی کی دھیمی خوشبو سے سر شار صبح اور سورج ڈوبتی حسین شاموں سے رخصت لی،اور شہر کی چار دیواریوں کو اپنے لئیے منتخب کر تے ہوئے حیدرآباد کا رخ کیا۔
شہر کی چار دن کی چاندنی کے بعد جب بھوک کی شدت سے پیٹ میں طوفان جنم لینے لگے تو شدت بھوک پر غالب آنے کے لیئے ہوٹل میں بہرے کی جگہ سنبھال لی، اور کرتے بھی کیا کوئی ہنر تو تھا نہیں کچھ عرصہ لوگوں کو کھانا پیش کر تے کرتے تھک گئے تھے یا شاید توہین سمجھنے لگے، رخصت لی اور شہر کی سڑکوں کا جائزہ لینے لگے، ایک بار پھر پیٹ کی آگ نے جو جوش مارا تو وہ آگ انہیں مزید آگ کے قریب لے آئی اور جناب نے اس دفعہ سر یا فیکٹری کا انتخاب کیا، شعلوں سے دہکتی بھٹی میں ابلتے لو ہے کو سر یوں میں تبدیل کر نا روز کا معمول تھا۔ایک روز لال لپٹوں کے اس محل سے واپسی پر نر سری کیس قریب سے گزر ہوا، قطاروں میں لگے ننھے پھولوں نے گاؤں کی یاد تازہ کر دی اسطرح آپ نے اپنے فن شجرکاری کو آزمانے پر نظر ڈالی۔
بچپن میں جن پھولوں کے گرد اپنی زندگی کا آغاز کیا آج وہی پھول زندگی کا واحد سہارا ہیں، چاچا فاروق کو دوسروں کے باغ،باغیچوں، کیاریوں میں پھولوں کے گلشن سجاتے تقریباٌ15 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، صبح سویرے نرسری سے پھولوں کی کھیپ ہاتھ گاڑی پر سجائے نکل پڑتے ہیں،ان کی منزل کی جانب،جہاں سے سداء آتی وہیں بکھیر دیتے پھولوں کا چمن۔ آپ اب تک ہزاروں پودے لگا چکے ہیں شہر کی شاراہوں پر جو شاید درخت بن کر اپنے سائے سے ہمیں راحت بخش رہے ہیں۔
ان کا مقصد لو گوں کو قدرت کے تخلیق کردہ نباتات کے قریب لانا ہے،جو دن بدن ہماری نظروں سے اوجھل ہو تے جارہے ہیں۔ یہ نہ صرف قدرتی حسن کو اجاگر کر تے ہیں بلکہ ہمارے ماحول کے لیئے بھی سازگار ہیں،
یہی وجہ ہے کہ آپ اس کام کو روزگار کے ساتھ ایک فلاحی کام بھی سمجھتے ہیں۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment