Wednesday, September 9, 2015

انٹرویو مقصود احمد





محمد حماد 2k13/MC/69 
(انٹرویو مقصود احمد ) 
س اپنی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیے۔
جواب میرا جو تعلیمی سفر تھا بڑا ہی مفلسی میں گزرا ۔ تین سال تک میں ننگے پیر اسکول جاتا رہا اسکولوں کی حالت بڑی ہی خستہ تھی کلاسوں کا کوئی تصور نہیں تھا ہم زمین پر بیٹھ کر پڑھا کرتے تھ اساتذہ بہت اچھے تھے اور تعلیمی نظام موجودہ دور سے کافی پسماندگی کا شکار تھا۔ 



س آپ نے بنک کی نوکری کا انتخاب کیوں کیا؟
جواب در اصل بات یہ ہے کہ اس وقت بنک کی تنخواہیں دیگر ملازموں سے بہت زیادہ تھی کہ جہاں ایک گورنمنٹ ادارے کے کلرک کی تنخواہ 100سے 120 تھی وہی پر بنک کے کلر کی تنخواہ 200 روپے تھی۔ 



س آپ کو اپنے بنک ک کیرےئر میں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب اگر موجودہ دور کے بنکوں کے نظام کی بات کی جائے تو پرانے زمانے سے بہت جدید اور بہتر ہے کیونکہ پچھلے دور میں بنکوں کے نظام مینوئل تھے کوئی کمپیوٹر کا تصور نہیں تھا ہر کام ہاتھ سے کرنا پڑتا تھا اس لئے حساب کتاب میں بہت دشواری ہوتی تھی اور ایک اور مسئلہ اس گزشتہ دور میں جو نجی اداروں میں عام تھا وہ تبادلے کا تھا کہ ہر ماہ جگہ جگہ شہروں میں سفر کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنہ پڑتا تھا۔ 



س آپ کو اس بنک کیریر میں سب سے بڑی کامیابی کیا حاصل ہوئی؟
جواب سب سے بڑی کامیابی مجھے یہ حاصل ہوئی جب میں ریٹائر ہوا با عزت طریقے سے ریٹائر ہوا مجھ پر کبھی کوئی کسی قسم کا چارج نہیں تھا تو وہ جانچ پڑتال کرتے تھے تو ان پر کوئی کرپشن میں تو ملوث نہیں یا کوئی کسی کے پیسے تونہیں ۔ کامیابی اور خوشی یہ ہوئی ریٹائر منٹ کے بعد ہاتھ صاف تھے اور آج کل عزت ہے کہ میں سینئر بنک آفسر ریٹائر ہوا ہوں اور آج بھٌ بنکوں میں کافی عزت ہے مختلف اور دیانت داری سے کام کیا۔ 



س آپ نئی آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب آنے والے تمام ن ئے نوجوان کو یہ پیغام دنا چاہتا ہوں کہ آپ دانت دار بنے اور کسی بھی شعبے میں جائے تو پوری ایماندای سے اپنا کام سرانجام دیں محبت اور ایمانداری سے لوگوں سے پیش آئیں ہمارے بنک کے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ کسٹمر کو عزت دینی ہے۔ اور پیار سے پیش آنا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment