Showing posts with label حیدرآباد. Show all posts
Showing posts with label حیدرآباد. Show all posts

Tuesday, September 8, 2015

حیدرآباد شہر کی ٹریفک

Too  short


نام: دیال داس 2k13\32\mc

آرٹیکل : شہر کی ٹریفک

یہ بات درست ہے کہ کسی نظام کوچلانے کے لیے قانون ن؂بنائے جاتے ہیں اور ایسے قانون ہر محاشرے کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ایسے نظام کے لیے قانون کا لاگو ہونا ضروری ہوتا ہے نہیں تو ایک نظام سے دوسرے نظا م بھی درہم برہم ہوجاتے ہیں۔قانون بنانے کا مقصد نظام کو وقت پر چلنے اورلوگوں کو پریشانی سے دور رکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ نظام ایک طور طریقے سے چلتا رہے ۔لیکن ہمالے محاشرے میں ایسا نہیں ہوتا سب سے پہلے قانون بنانے والے لوگ ہی اس کو توڑ دیتے ہیں ایسا ہی حال کچھ حیدرآباد کا بھی ہے ۔


حیدرآباد شہر میں بڑتی ہوئی آبادی کے ساتھ بڑہتا ہوا کاروبار اور اس سے زیادہ بھڑتی ہوئی ٹریفک لوگ اعلی تعلیم اور کاروبار کی وجہ سے شہر کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔اس شہر کی چھو ٹی تنگ گلیاں اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں پو بڑی بڑی عمارتیں اور شاپنگ مال جن کے لئے کسی قسم کی پارکنگ نہیں رکھی جاتی لوگ روڈوں پر ہی پارکنگ بنادیتے ہیں ایک طرف سڑکوں پر دوکانوں کا سامان اور دوسری جانب گدھا گاڑیاں بھی 

 سڑکوں پر لوگاڑی پارک اس طرح کرتے ہیں جیسے کہ روڈخریدا ہوا ہو ۔ٹاور مارکیٹ اور شاہی بازار حیدرآباد کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔جہاں ہر چیز خریدنے کے لئے لوگ شہر کا رخ کرتے ہیں جبکہ ان بازاروں اور مین شاراہوں پر ہر وقت ٹریفک جام رہتا ہے اس کی وجہ موٹر سائیکلوں کا عام ہونا جو کہ 80% فیصد نوجوان شوق کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ سڑکوں پر دوکانوں کا سامان نظر آتا ہے ٹاور مارکیٹ پر بس ،وین اور ٹیمپو کے اڈے ہیں جس کے باعث کئی علاقوں میں ٹریفک جام رہتا ہے جبکہ ہر گلی کوچوں میں چھوٹے بڑے ٹھئے اور پان کے کیبن والوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور دوسری جانب گڈز ٹرانسپورٹ کے بڑے بڑے اڈے شہر کے اندر موجود ہیں جبکہ حیدرآباد شہر کی انتطامیہ نے مال بردار ٹرک اور ٹرالروں کو شہر میں اندر آنے کی اجازت 9بجے کے بعد دی جاتی ہے مگر گڈز ٹرانسپورٹ والے قانون کی خلاف ر؂ورزی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔

اس ٹریفک کی وجہ سے اسکول سے واپس آنے والے طتبحلموں کو بھی اس ٹریفک سے بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بحض اوقات حادثہ بھی پیش آجاتا ہے ۔اس وجہ سے گورنمنٹ نے بھی پرائیوٹ اسکولوں کو شہر میں سے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔

اس نظام کو بہتر اور اعلی بنانے کے لئے گورنمنٹ کو چاہئے کہ غیر قانونی اسٹاپ اور پارکینگ کو ختم کر کے انھیں قانونی طور پر علیدہ جگہ دی جائے اور گڈز ٹرانسپورٹ کو شہر سے باہر منتقل کیا جائے ۔ غیر قانونی قبضے خالی کرائے جائیں تاکہ سڑکیں بڑی ہوں اور ٹریفک جام نہ ہوں ۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Thursday, August 27, 2015

حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی

Edited final Issue No 4   Good research, and well written   

  آرٹیکل: حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی 
پٹالہ سے حیدرآباد تک

عبید الحق قریشی
حیدرآباد صد یوں پرانہ شہر ہے اسکا تذکرہ قدیم عہد نامے میں موجود ہے۔ویدیک دور میں اس کا ذکرہے جو ارُونپور کے نام سے ملتا ہے۔ارُون معنٰی ٹھنڈا اور پور معنٰی شہر ۔ اسکی ہوائیں اسکے ہوادان اور اسکی شامیں آج بھی مشہور ہیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے اسکا نام پٹالہ ..پٹالپور..اور نیرون کوٹ کے مختلف ناموں سے بھی ملتا ہے۔مشہورُ محققّ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سندھ ادبی کا نفرنس میں1975 ء میں پیش کئے اپنے مقالے میں کہتے ہیں جس ٹیکری (پہاڑی) پر قلعہ واقع تھا اسے نیرون
کہا جاتا تھاجس کی وجہ سے اس کا نام نیرون اور ٹکر کا کوٹ پڑا۔ 

حیدرآبادمیں سب سے پہلے آبادی کا تصور صرف پکا قلعہ کی حد تک تھا اور آبادی تقریباً 23400ہزار تھی جب ساتویں صدی عیسوی کے آخر ی عشرے میں مشہور راجہ ’’رائے ڈاہر‘‘یہاں کا حاکم تھا ۔ رعایا بدھ مذہب کی پیروکار تھی۔آٹھویں صدی میں اس قلعہ کو محمد بن قاسم نے فتح کیااس وقت بھی آبادی بہت کم تھی۔ا س شہر کی اصل حالت غلام شاہ کلہوڑا نے بدلی اسکا نا م حضرت علیؓ کے صفاتی نام حیدر پر حیدرآباد رکھا گیا۔شہروں کے عروج وزوال ،ترقی و تنزلی کا دارومدارتاریخ کے رویہ سے منسلک ہے ، کیونکہ تاریخ،انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے اہم کردار اداکر تی آئی ہے۔ غلام شاہ کلہوڑا نے بہت سی آبادیوں جن کا تعلق الگ الگ پیشے اور ذاتوں سے تھاحیدرآباد میں لا کر بسایا اور اسے اپنا تخت بنایا۔

آبادی کے لحاظ سے حیدرآباد پاکستان کاچھٹا اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ انگریز حاکمیت تک حیدرآباد سندھ کا درالخلافہ بھی تھا۔پاکستان میں سب سے زیادہ مہنگی ترین زمینوں کی خریدو فروخت میں حیدرآباد پانچویں نمبر پر آتاہے۔ حیدرآبادمیں پہلے جہاں ایک منزلہ مکان ہواکرتے تھے اُن میں ہوادان ضرور ہوا کرتے تھے لیکن اب یہاں بڑے بڑے پلازے اور شاپینگ مالز بنتے جارہے ہیں اسی میں مشہور رینبو سینٹر ، نسیم سینٹر،طیب کمپلکس،قائد اعظم پلازہ اورانہی میں الرحیم شاپینگ سینٹر ہے جو سندھ کے طویل پلازہ میں سے ایک ہے۔وقت کے ساتھ شہر کی آبادی میں بے حد اِضافہ ہواہے۔ حیدرآباد کوچار تحصلوں میں تقیسم کیا گیا ہے جن میں حیدرآباددیہی ،حیدرآبادسٹی، لطیف آباداور قاسم آباد شامل ہیں۔حیدرآباداولڈ سٹی ایریا میں عام انسان چلنے پھرنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں روڈ نہیں بلکہ کسی پارکنگ ایریا کا منظر پیش کرتی ہیں ۔یہ سڑکیں اسِ بھاری ٹریفک کے لیے ناکافی ہیں کیونکہ انگر یزدور میں جہاں ایک روڈ پر دو طرفہ گاڑیاں چلتی تھی اب یہاں اِ س وقت ایک طرفہ ٹریفک بھی اپنی پوری روانی کیساتھ نہیں چل پاتا ۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی ایک سروے کے مطابق حیدرآباد کے 70%گھروں میں ایک اور ایک سے زائد موٹرسائیکلیں موجود ہیں اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا حال ہے۔ اور اگر فٹ پاتھ پر چلنے کی بات کریں تو ناجائز تجاوزات اور ناجائز پارکنگ کے باعث یہ
جگہیں پہلے سے بُک ہوئی نظر آتی ہیں ۔

حیدرآباد میں پہلی مردم شماری 1872ء میں انگریزوں کے دور میں کرائی گئی ، جب یہاں کی آبادی صرف 45000پر مشتمل تھی جو قلعہ اور اس کے ملحقہ حصوں میں آباد تھے۔پھر 1901ء میں 69400،1941ء میں 135000پھر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ پاکستان وجود میں آیاتوقیامِ پاکستان کے بعد پہلی بار یہاں 1951ء میں مردم شماری گوشواروں کے مطابق تقریباً آبادی241000 سے بھی تجاوز کر گئی۔ 1947 کے بعد بہت بڑی آبادی نے حیدرآباد کا رخُ کیاجس کے باعث بہت سے مسائل بھی درپیش ہوئے تاہم وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔اسی طرح سن2000ء میں آبادی 1375000کے لگ بھگ تھی۔ حیدرآباد کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اب 2015ء میں ایک سروے کے مطابق آبادی 2405000 تک جاپہنچی ہے ۔ جبکہ ضلع حیدرآباد کی آبادی تقریباً 4000000 سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں ہوسڑی ، ٹنڈ وجام و دیگر شامل ہیں۔ لیکن سندھ حکومت کے کرتا دھرتانا جانے کون سی دوائی کھاکر سو رہے ہیں کہ آج بھی سو سال پرانے گھِسے پٹِے طریقے سے نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور کوئی جامع پلان نظر نہیں آرہاجو حیدرآباد کے لیے بہتر ثابت ہو۔
Fotos are used only for academic purpose. and with courtesy  2k13/mc/113
Practical work done under supervision of Sir Sohail Sangi
----------------------------------------------------------------------------------------------------- 
Good research, and well written but what is punch line? I have edited it and now its 750 words.

عبید الحق قریشی 2k13/mc/113 آرٹیکل:حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی
حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی


حیدرآباد صد یوں پرانہ شہر ہے اسکا تذکرہ قدیم عہد نامے میں موجود ہے۔ویدیک دور میں اس کا ذکرہے جو ارُونپور کے نام سے ملتا ہے۔ارُون معنٰی ٹھنڈا اور پور معنٰی شہر کے رہے ہیں اسکی ہوائیں اسکے ہوادان اور اسکی شامیں آج بھی مشہور ہیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے اسکا نام پٹالہ ..پٹالپور..اور نیرون کوٹ کے مختلف ناموں سے بھی ملتا ہے۔مشہورُ محققّ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اپنے مقالے میں جو سندھ ادبی کا نفرنس میں1975 ء میں پڑھا گیا کہتے ہیں جس ٹیکری (پہاڑی) پر قلعہ واقع تھا اسے نیرون کہا جاتا تھاجس کی وجہ سے اس کا نام نیرون اور ٹکر کا کوٹ پڑا۔
 
حیدرآباد میں سب سے پہلے آبادی کا تصور صرف پکا قلعہ کی حد تک تھا اور آبادی تقریباً 23400ہزار تھی جب ساتویں صدی عیسوی کے آخر ی عشرے میں مشہور ہندو راجہ ’’رائے ڈاہر‘‘یہاں کا حاکم تھا ۔ رعایا بدھ مذہب کی پیروکار تھی۔آٹھویں صدی میں اس قلعہ کو محمد بن قاسم نے فتح کیااس وقت بھی آبادی بہت کم تھی۔ا س شہر کی اصل حالت غلام شاہ کلہوڑا نے بدلی اسکا نا م حضرت علیؓ کے صفاتی نام حیدر پر حیدرآباد رکھا گیا۔شہروں کے عروج وزوال ،فناء و بقا،ترقی و تنزلی کا دارومدارتاریخ کے رویہ سے منسلک ہے ، کیونکہ تاریخ،انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے اہم کردار اداکر تی آئی ہے۔ غلام شاہ کلہوڑا نے بہت سی آبادیوں جن کا تعلق الگ الگ پیشے اور ذاتوں سے تھاحیدرآباد میں لا کر بسایا اور اسے اپنا تخت بنایا۔
 
آبادی کے لحاظ سے حیدرآباد پاکستان کاچھٹا اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ انگریز حاکمیت تک حیدرآباد سندھ کا درالخلافہ بھی تھا۔پاکستان میں سب سے زیادہ مہنگی ترین زمینوں کی خریدو فروخت میں حیدرآباد پانچویں نمبر پر آتاہے۔ حیدرآبادمیں پہلے جہاںیک منزلہ مکان ہواکرتے تھے اُن میں ہوادان ضرور ہوا کرتے تھے لیکن اب وہاں بڑے بڑے پلازے اور شاپینگ مالز بنتے جارہے ہیں اسی میں مشہور رینبو سیٹر ، نسیم سینٹر،طیب کمپلکس،قائد اعظم پلازہ اورانہی میں الرحیم شاپینگ سینٹر ہے جو سندھ کے طویل پلازہ میں سے ایک ہے۔ ا ایک کھلے دماغ کے ساتھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آبادی میں بے حد اِضافہ ہواہے۔اس لیے حیدرآباد کوچار تحصلوں میں تقیسم کیا گیا ہے جن میں حیدرآباددیہی ،حیدرآبادسٹی، لطیف آباداور قاسم آباد شامل ہیں۔حیدرآباداولڈ سٹی ایریا میں توعام انسان چلنے پھرنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں ایسی کھڑی محسوس ہو تی ہیں جیسے یہ روڈ نہیں پارکنگ ایریا ہے ۔یہ سڑکیں اسِ بھاری ٹریفک کے لیے ناکافی ہیں کیونکہ انگر یزدور میں جہاں ایک روڈ پر دو طرفہ گاڑیاں چلتی تھی اب یہاں اِ س وقت ایک طرفہ ٹریفک بھی اپنی پوری روانی کیساتھ نہیں چل پاتا ۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی ایک سروے کیمطابق حیدرآباد کے 70%گھروں میں ایک اور ایک سے زائد موٹرسائیکلیں موجود ہیں اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا حال ہے۔ اور اگر فٹ پاتھ پر چلنے کی بات کریں تو ناجائز تجاوزات اور ناجائز پارکنگ کے باعث یہ جگہیں پہلے سے بُک ہوئی نظر آتی ہیں ۔
 
حیدرآباد میں پہلی مردم شماری 1872ء میں انگریزوں کے دور میں کرائی گئی تھی جب یہاں کی آبادی صرف 45000پر مشتمل تھی جو قلعہ اور اس کے ملحقہ حصوں میں آباد تھے۔پھر 1901ء میں 69400،1941ء میں 135000پھر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ پاکستان وجود میں آیاتوقیامِ پاکستان کے بعد پہلی بار یہاں 1951ء میں مردم شماری گوشواروں کے مطابق تقریباً آبادی241000 سے بھی تجاوز کر گئی۔ 1947 کے بعد بہت بڑی آبادی نے حیدرآباد کا رخُ کیاجس کے باعث بہت سے مسائل بھی درپیش ہوئے تاہم وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔اسی طرح سنہ2000ء میں آبادی 1375000کے لگ بھگ تھی۔ حیدرآباد کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اب 2015ء میں ایک سروے کے مطابق آبادی 2405000سے بھی انتہاء حد پر آپہنچی ہے ۔ جبکہ ضلع حیدرآباد کی آبادی تقریباً 4000000 سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں ہسڑی ، مٹیاری ،بدین، ٹنڈ وجام و دیگر شامل ہیں۔ لیکن سندھ حکومت کے کرتا دھرتانا جانے کون سی دوائی کھاکر سو رہے ہیں کہ آج بھی سو سال پرانے گھِسے پٹِے طریقے سے نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور کوئی جامع پلان نظر نہیں آرہاجو حیدرآباد کے لیے بہتر ثابت ہو۔

Tuesday, August 25, 2015

فیچر: شاہین آرکیڈ : طلحہ شیخ

طلحہ شیخ 2k13/MC/111 (Revised)
شاہین آرکیڈ (فیچر )
موجودہ دور فیشن کا دور ہے ۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ ایک دوسرے اچھا دکھے ۔ اور بظاہر اچھا دکھنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ہے ان میں کپڑے ،جیولری، لڈیز بیگز ،جوتے اور سینڈل شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے دن بہ دن نت نئے فیشن لوگوں کے درمیان متعاورف کروائے جارہے ہیں ۔ لیکن ہمارے ملک زیادہ تر طبقہ ایسا ہے جو آجکل کے مہنگا ترین فیشن تک رسائی نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کے باوجود حیدرآباد میں ایک ایسی مارکیٹ موجود ہے جہاں ہر فیشن کے کپڑے ، جیولری، اور سینڈل شوز وغیرہ رعایتی داموں میں مل جاتے ہیں۔ اور یہ مارکیٹ آج کل لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

جی ہاں آج ہم حیدرآباد کی شاہین آرکیڈ کی بات کررہے ہیں۔ شاہین آرکیڈ یونٹ8میں واقع ہے ۔ اس مارکیٹ کا قیام 1998میں کیا گیا تھا۔ یہ لطیف آباد کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں کپڑوں کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں با آسانی مل جاتی ہیں۔ یہ مارکیٹ 2حصوں پر مشتمل ہے ایک طرف کپڑوں اور جوتوں کی دکانیں ہیں تو دوسری طرف موبائل مارکیٹ ۔اس مارکیٹ میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ اس مارکیٹ کے عقب میں لذیز کھانوں کے ہوٹلز اور بریانی کے اسٹالز بھی موجود ہیں۔ بات کی جائے مارکیٹ کی تو یہاں کم و بیش 50دکانیں موجود ہیں۔ اس مارکیٹ کے اندر درزیوں نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنا ڈیرہ جمع لیا ہے کیونکہ یہاں پر کپڑوں کی اسٹیچنگ اور آلٹر کرنے کا کا کام عروج پر ہے۔ یہاں کی مقبول ترین دکانیں میں ایڈوانس جینٹس گارمینٹس، الفیصل گارمینٹس، لوک مسٹراور کلاسک گارمینٹس فور جینٹس اینڈ چائیلڈ وےئر ہیں۔

شاہین آرکیڈ کے علاوہ شہر میں دوسری بڑی مارکیٹ بھی موجود ہیں جن میں گل سینٹر، صدر، ریشم گلی، کلاتھ مارکیٹ شامل ہیں۔ اگر ان مارکیٹوں سے شاہین آرکیڈ کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں واضح فرق نظر آتا ہے کیونکہ اگر دوسری مارکیٹوں میں کپڑے اچھے ہیں تو مہنگے بھی بہت ہیں جو کہ مڈل کلاس لوگوں کی پہنچ سے باہرہیں اور جہاں کپڑوں کے دام کم ہیں وہاں پرانے فیشن اور بیکار ورائٹی نے اپنا ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایسی چیز لینا چاہتے ہیں کہ جب وہ کسی اور کو دکھائیں تو انہیں اچھا فیڈ بیک ملے۔

دکان داروں کا کہنا ہے وہ ہر طرح کسٹمر کو ڈیل کرنا بخوبی جانتے ہیں اور ان کی سائیکی بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انہی ریٹس میں کام کرتے ہیں جن میں انہیں فائدہ ہو اور خریدار کو بھی کسی قسم کا کوئی نقصان نہ ہو کیونکہ اس سے مارکیٹ کا نام خراب ہوتا ہے اور دکان کی value میں کمی واقع ہوتی۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں دکانیں میں آپس میں کافی کمپیٹیشن پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی خریدار کو اپنا کسٹمر بنانا چاہتا ہے اور ایسی چیز دینا چاہتا ہے جس کو دیکھ کر اسے اس دکان پر دوبارہ آنے کا من کرے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مارکیٹ کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اس بات کا اندازہ آپکو یہاں پر ہونے والے رش سے بخوبی ہوسکتا ہے۔

Thursday, August 20, 2015

حیدرآباد میں انٹری ٹیسٹ کا کاروبار

حیدرآباد میں انٹری ٹیسٹ کا کاروبار

تحریر اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
ہرسال جیسے ہی بارہویں جماعت کے طلبہ امتحانات سے فارغ ہوتے ہیں، ان کے سامنے ایک نیا چیلنج سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے،جسے انٹری ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے لیا جاتا ہے۔ داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے حوالے سے حیدرآباد میں بہت سے پرائیویٹ ادارے موجود ہیں جو اس ٹیسٹ کی تیاری کرا تے ہیں۔ 

حیدرآباد میں ان اداروں کی تعداد50 کے قریب ہے۔جس میں 25 حیدرآباد سٹی میں،10 قاسم آباد جبکہ15لطیف آباد میں موجود ہیں۔جہاں تقریباً7000 سے8000 طالبعلم اپنے روشن مستقبل کے لئے تیاری کرتے ہیں۔ہر ادارے میں طلبہ کی تعداد تقریباً 800 سے1000 ہوتی ہے۔ان اداروں میں طلباء کو اچھی شہرت کے اساتذہ کی خدمات حاصل ہوتی ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے والے طالبعلموں میں ہر سال 500طالبعلم اپنی خواہش کے مطابق
 انجینئرنگ یا میڈیکل میں داخلہ حاصل کر پاتے ہیں،جو مجموعی تعداد کاصرف 6.5% فیصد ہی ہے۔

ان اداروں کی فیس ہر سال بڑھادی جاتی ہے، جس کا جواز زائد اخراجات بتائے جا تے ہیں۔جن اداروں کی فیس 2013 میں 15000 روپے تھی، وہ 2014 میں بڑھاکر 20000 روپے کردی گئی جبکہ2015 میں 25000روپے تک وصول کی جارہی ہے۔ ان کی آمدن کاتخمینہ لگایا جائے یہ معاملہ وہ لاکھوں میں کروڑوں تک جاپہنچتا ہے، جس پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی انتظام سرے سے موجود نہیں۔ 

پرائیویٹ اسکولوں کی طرح یہ بڑا کاروبار ہے۔ ہزاروں طلبہ ایسے ہیں جن کے والدین انٹری ٹیسٹ اداروں کی فیس اور بچوں کی دوسرے شہر میں رہائش کا مالی بوجھ برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ ٹیسٹ کی تیاری کے لئے ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں اضافے سے لگتا ہے کہ تعلیم کو اب مکمل کاروبار کی شکل دے کر غریب عوام کی پہنچ سے دور کیا جارہا ہے۔

حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ،جس کی وجہ سے سندھ کے دیگر شہروں بدین، میرپورخاص، ڈگری، ٹنڈوالہیار، دادو،لاڑکانہ اور کشمور کے علاقوں سے طالبعلم اپنے آبائی گھروں سے دور اپنے روشن مستقبل کا خواب سجائے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

یہ طلبہ شہر کے مختلف علاقوں لطیف آباد، قاسم آباد،جی - او- آر کالونی میں 2 سے3 کمروں کے فلیٹس میں6 سے8 کی تعداد میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ان فلیٹس کا کرایہ5000 سے10000 تک ماہوار ہوتا ہے۔زائد فیس اور کرائے ان پر مزید گراں گزرتی ہے۔ اگر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت بہتر کردی جائے اور وہ اساتذہ جو پرائیویٹ اداروں میں تو اپنی ڈیوٹی اور فرائض ایمانداری سے نبھاتے ہیں، اگر ان کی حاضری سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بھی اسی طرح ممکن بنادی جائے تو ان بچوں کو کبھی پرائیویٹ اداروں کا سہارا نہ لینا پڑے۔
------------- Un edited --------------------------   
 اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
حیدرآباد میں انٹری ٹیسٹ کا بازار سرگرم
جب طلباء و طالبات بارہویں جماعت کے امتحانات دے کر فارغ ہوتے ہیں،تو ایک نیا چیلنج ان کے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے،جسے انٹری ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔انٹری ٹیسٹ مختلف یونیورسٹیوں ک میں داخلے کے لئے لیا جاتا ہے۔ ٹیسٹ میں 100یا100سے زائد سوالات دیئے جاتے ہیں،ہر سوال کے جواب میں چار آپشن ہوتے ہیں،جن میں سے امیدوار کو ایک درست آپشن کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔جو اس کسوٹی پر پورے اتر تے ہیں اور اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں اور یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے حوالے سے شہر میں بہت سے پرائیویٹ ادارے ہیں، جو حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں کام کر رہے ہیں ہیں۔
حیدرآباد میں ان سینٹرز کی تعداد50 کے قریب ہے۔5 2 حیدرآباد سٹی میں،10 قاسم آباد جبکہ15لطیف آباد میں ہیں۔جہاں تقریباٌ7000 سے8000 طالبعلم اپنے روشن مستقبل کے لئے قسمت آزماتے نظر آتے ہیں۔ ایک سینٹر میں طالبعلموں کی تعداد تقریبا 800 سے1000 ہوتی ہے، جبکہ کلاسوں کی تعداد8 سے10 جن میں 40 طالبعلم باآسانی بیٹھ سکتے ہیں۔ان سینٹرز میں طلباء کو اچھی شہرت کے اساتذہ کی خدمات حاصل ہوتی ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے والے طالبعلموں میں 500طالبعلم اپنی خواہش کے مطابق انجینئرنگ یا میڈیکل میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،جو مجموعی تعداد کا صرف6.5% فیصد ہی ہے۔ ان اداروں کی فیس ہر سال بڑھادی جاتی ہے، جس کا جواز زائد اخراجات بتائے جا تے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں3000 سے5000 روپے بڑھادیئے جاتے ہیں،جس ادارے کی فیس 2013 میں 15000 روپے تھی،2014 میں بڑھاکر 20000 کردی گئی جبکہ2015 میں 25000روپے تک وصول کی جارہی ہے۔ اگر ان کی آمدن کاتخمینہ لگایا جائے تو وہ لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک جاپہنچی ہے، جس پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی خاص انتظام نظر نہیں آتا۔ والدین اس حوالے سے کافی پریشان دیکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں اضافے سے یوں لگتا ہے کہ تعلیم اب محض تعلیم نہیں رہی بلکہ اسے کاروبار کی شکل دے کر غریب عوام کی پہنچ سے دور کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ،جس کی وجہ سے سندھ کے دیگر شہروں بدین، میرپورخاص، ڈگری، ٹنڈوالہیار، دادو،لاڑکانہ اور کشمور کے علاقوں سے متعدد طالبعلم انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔یہ طالبعلم شہر کے مختلف علاقوں لطیف آباد، قاسم آباد،جی - او- آر کالونی میں 2 سے3 کمروں کے فلیٹس میں6 سے8 طالبعلم رہائش پذیر ہوتے ہیں، ان فلیٹس کا کرایہ5000 سے10000 تک ماہوار ہوتا ہے۔یہ طالبعلم اپنے آبائی گھروں سے دور اپنے روشن مستقبل کا خواب سجائے خوب محنت کر تے دیکھائی دیتے ہیں۔زائد فیسوں اور کرایوں پر یہ پر دیسی بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہمارے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار بہتر کردی جائے اور وہ اساتذہ جو پرائیویٹ اداروں میں تو اپنی ڈیوٹی اور فرائض ایمانداری سے نبھاتے ہیں، اگر ان کی حاضری سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بھی اسی طرح ممکن بنادی جائے تو ان بچوں کو کبھی پرائیویٹ اداروں کا سہارا نہ لینا پڑے۔
 Asad Ali BS-III Second semester, August 2015
Practical work done under supervision of Sir Sohail Sangi 
Key words: Entry Test business

حیدرآبا د میں لوکل بسّو ں میں کمی

بلال حسن رول نمبر 2k13/MC/28 2nd writing piece
آرٹیکل لوکل بسّو ں میں کمی

سفر انسان کی زندگی کا اہم ترین حصّہ اور ضرورت ہے۔اگرذریعہ سفر پرنظرڈالی جائے تو ماضی میں بہت ہی کم زریعے نظر آتے ہیں لوگ زیادہ تر پیدل اور اونٹ پر سفر کیا کرتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جدّت اور ترقی ہوتی گئی اور موجودہ دور میں لوگ بس ،ٹرین ، جہاز اور اپنی زاتی سواری میں سفر کرتے ہیں اگر یہ ذریعے کم یا پھر ختم ہو جائیں لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ایسا ہی کچھ حال لطیف آبا د کا ہے جہاں لوکل بسیں نہ ہو نے کے برابر ہیں۔


اگر حیدرآبا د میں بسّوں کی تا ر یخ پر نظر ڈا لی جائے تو 1960 میں بسّوں کے سفرکاآغاز ہوااور اس وقت صرف گورنمٹ کی بس چلا کرتی تھیں جس کا کرایہ ایک آنہ تھا پھر اسکے کچھ عرصے بعد ڈبل ٹیکر بسیں چلنے لگی جو کہ اس وقت کی مشہور بس تھی اور اس میں کافی تعداد میں مسافر سفر کرتے تھے اوراس بس کا کرا یہ صرف 2آنے تھا اور یہ دونوں بسیں لطیف آباد نمبر9 7,سے لیکر کچہ قلعہ،اسٹیشن اور مارکیٹ تک جاتی تھیں ۔

  ۔ 1971کے بعد ڈبل ٹیکر بسیں چلنا بند ہو گئیں اسکے بعد A1 بسیں چلنا شروع ہوئی جو کہ آج تک چل رہی ہیں۔


اب حیدر آبا د میں موجودہ بسّوں کی تعداد پر نظر ڈالی جائے تو 1998 میں بسّوں کی تعداد ۱150 سے زائد تھی جس میں 108 لطیف آبادکی اور باقی سٹی ایریااور قاسم آباد کی تھیں اور۱س وقت بھی 150 سے زائد ہیں مگر ا س کے باوجودحیدرآباد میں لوکل بسیں سڑکوں پر کم نظر آرہی ہیں۔ کئی علاقے مثلا پھلیلی، پریٹ آباد، ہالہ ناکہ ، فقیر کا پڑ، سستی سفری سہولیات سے محروم ہیں۔ حسین آباد، جی او آر کالونی کے رہائشیوں کو کوٹری کی بس کا سہارا ہے۔ 

شہر سے قاسم آباد تک کوئی بس نہیں چلتی۔ یہاں بسنے والے لاکھوں لوگوں کو سوزکیوں یا رکشاء کے ذریعے شہر آنا پڑتا ہے جو ان کی آمدن کے حساب سے گراں گزرتا ہے۔ یہی صورتحال لطیف آباد کی ہے جبکہ لطیف آباد کی آبادی 7لاکھ سے زائد ہے۱سکی موضوع پر بس ڈرائیور سے بات کی گئی تو بہت ساری وجوہات سامنے آئی۔ شہر میں ناجائز تجاوزات بڑھنے کی وجہ سے سڑکوں کا تنگ ہونا، بھتہ خوری، سی این جی کی قلت ،کم کرایہ، پبلک سواری میں اضافہ جس میں سوزوکی ،منی ٹیکسی،چنچی اور موٹر سا ئیکل وغیرہ شامل ہے  

ایک اور اہم وجہ جس پر ایک بس کے مالک اقبال علی نے بہت زور دیا اور وہ وجہ تھی سی این جی رکشہ اسکا کہنا تھا کہ ان رکشوں کی وجہ سے بسّوں کے مسافروں پر بہت اثر پڑا ہے کیونکہ یہ سی این جی رکشے بسّوں کے مسافرو ں کو اپنی جانب کھنچ رہے ہیں ویسے تو رکشے ذاتی سواری کے طور پر استعمال ہو تے ہیں مگر سی این جی رکشوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کے بعد مسافر کم ہو گئے ہیں اور رکشے کو پبلک سواری بنا لیا ہے اور کرایہ صرف10 سے 15روپے فی سواری ہے مگر اس سے لوکل بسّو ں پر بہت اثر پڑا ہے۔

لوکل بسّو ں کے مالکان کا مطالبہ ہے کے سب سی پہلے سی این جی رکشوں کو پبلک سواری کے طور پر چلانے کی پابندی لگائی جائے ۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Tuesday, August 18, 2015

باشاہی بنگلہ

بلال حسن رول نمبر 2  k13/MC/28  
فیچر باشاہی بنگلہ حیدرآباد

 Unedited
 fotos will be required
قد یم مقامات ہر شہر کے تاریخی ورثے ہوتے ہیں۔اور ان مقاما ت کے ساتھ بہت سی یادیں اور تہذیب وابستہ ہوتی ہیں ایسے ہی حیدرآباد کے چند قدیم مقاما ت جو کہ حیدرآباد کی تاریخی تعمیرات کا ایک دلکش نمونہ ہیں جس میں کچا قلعہ ،ٹالپور کے مقبرے،مکھی ہاوس او ر بھی بہت سی تعمیرات جس میں سے ایک بادشاہی بنگلہ بھی ہے جسکو میروں کی حویلی بھی کہا جاتا ہے او ر یہ بنگلہ لطیف آبا د نمبر 4ٹنڈر تالپور میں واقع ہے۔


اگر بادشاہی بنگلہ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بنگلہ 1863میں میر نصیر خان تالپور نے اپنے آخری حکمران فرزند میر حسن تالپور کے لیے کروایا تھااور 1970میں سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کی جانب سے چند سالوں کے لیے اس بنگلہ پرپابندی لگائی گئی پھر کچھ عرصے بعد ہٹا دگئی یہ شاندار محل نہ حکومت کی طرف سے بحا ل کیا اور نہ ہی اسکے مالکان کو اس کو برقراررکھنے کی اجازت دی گئی پھر بعد میں بعض وزرات کی ؂جانب سے ان کے مالکان کو واپس کیا گیا اور اس کے موجودہ مالک بہت سے ہیں جس میں میرفتح تالپور،میر حیدر تالپوروغیرہ شامل ہیں۔


اب اس بنگلے کی خوبصورتی اور نقش ونگار کی بات کی جائے تو کیا ہی دلکش منظر زہن میں آتا ہے کہ اس کے عتراف میں چاروں طرف ہریالی اور باغات اس کی اس کی شان و شوکت بڑھا دیتے ہیں اور جیسے ہی اس کے عتراف میں قدم رکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم بادشاہو ں کے دور میں آگئے ہوں اور اسکے نقش و نگار اور بناوٹ اس کے حسن کی گواہی دیتے ہیں ۔ یہ بنگلہ تین منزلوں پر مشتمل ہے اس کی بناوٹ اور سجاوٹ میں زیادہ تر استعمال لکڑی اور شیشے کا کیا گیا ہے۔محل میں لگی رنگ برنگی شیشے کی کھڑکیاں اس کو اور زیادہ خوبصورت بنا دیتی ہیں اور دیواروں پرہوا شیشے کا کام بنگلہ کی اندرونی خوبصورتی کو اورسنوار دیتا ہے۔ اور بہت سی قیمتی اور علیشان چیزیں ،جنھوں نے اس محل کی ذینت کو آج بھی قائم رکھا ہوا ہے۔

ایسی ہی بہت سی تاریخی تعمیرات اور مقاما ت جو حیدرآبادکا حصّہ ہیں اور حیدرآباد کو ایک الگ اور منفردپہچان دیتی ہیں جنہیں دیکھنے کے ساتھ ساتھ لوگ ان کی تاریخ سے بھی واقف ہوتے ہیں اور یہ سچ ہے کے یہی تاریخی نشانیاں ہمیں ماضی کو یاد رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔

Bilal Hassan    k13/MC/28  
Second semester BS-III 

August 2015 
Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi 

Monday, August 17, 2015

چھوٹکی گھٹی آج اور کل

 Published in issue No 1   چھوٹکی گھٹی آج اور کل Un edited.
محترم مصنف نے فائیل کانام نہ صحیح لکھا اور نہ ارٹیکل کے اندر اس کا نام ہے نہ فائیل پر ۔ تصویر چاہئے۔
رول نمبر بھی نہیں پتہ

فائیل کا نام اور آرٹیکل کے اندر اپنا نام لکھنا ضروری ہے۔ تھرڈ ایئر کے آکری سیسٹر میں ہو، اسائنمٹ دینا تو سیکھو۔ کیا میں رائٹنگ پیسز کے فارمیٹ اور مواد کو دیکھنے کے بجائے آپ لوگوں کے فائل نیم وغیرہ ٹھیک کرتا رہوں؟

اس میں چھوٹکی گھٹی کی تصویر بھی چاہئے۔ اگر پرانی مل جائے تو اور بھی اچھا ہے  

عبیدالحق  قریشی

سندھ کا قدیم شہر حیدرآباد جو کہ اپنی ٹھنڈی شاموں، ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے آج بھی پورے ملک میں انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے ۔دورِ قدیم میں حیدرآباد شہر پکا قلعہ سے شروع ہوکر چھوٹی گھٹی پر اختتام پذیر ہوا کرتا تھا ۔انگریزدور میں یہاں مزید وسعت ہوئی اور پھر چھوٹکی گھٹی کوشاہی بازار سے لیکر گھنٹہ گھر تک پہنچا یا گیا یہ گھنٹہ گھر نول رائے کلاک ٹاور کہلاتا ہے اسکی تعمیر گھوتک طرزِ تعمیر ہے اور یہ تتلی کی شکل کا ہے جسے آج ہم مارکیٹ ٹاور کے نام سے 
جانتے ہیں ۔

شاہی بازار جو کہ پا کستان کا سب سے بڑا بازار کہلاتا ہے۔ اس ہی کی ایک گلی چھوٹکی گھٹی ہے ۔ چھوٹکی گھٹی کے

 لغوی معنٰی چھال والی گلی کے ہیں قیام پاکستان سے پہلے یہاں دانداسا،مسواک، درختوں کی چھالیں ملا کرتی تھی جو چمڑا رنگنیں کے بھی کام آتی تھیں ۔سندھی زبان میں پیڑ کی چھال کو چھوڈ کہتے ہیں۔ چھوڈ سے پہلے اسکانام سمی چاڑی تھا ۔سمی سندھی زبان میں ابھرے ہوئے ٹیلے کو کہتے ہیں۔چھوٹکی گھٹی کا نام کئی اطوار میں تبدیل ہوا چھوڈ کی گھٹی ،چھوٹی گھٹی،چھاڈ کی گھٹی ۔گھٹی سے مراد گلی کے ہیں اُ س دور میں گلی کا تصور ہوا کرتا تھا ۔

چھوٹکی گھٹی آج سندھ کا دوسرا بڑا معاشی حب کہلاتاہے ۔مگر پہلے یہاں کچے مقانات ،دکانیں ہوا کرتی تھی اور جب شام

ہوتی تھی لوگ چھتوں پر چھڑکاؤ کیا کرتے تھے اور شام کا کھانا چھتوں پر کھاتے تھے ۔ حالات بدل گئے ہیں مگر آج بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے وہ اسطرح کہ نیچے دکانیں ہونے کے باعث لوگ کھانا تو بالائی منزل پر ہی کھاتے ہیں ۔

 یہاں کہ راستوں کی بات کی جائیں تو چھوٹکی گھٹی سے اگر ہم مشرق کی طرف جائیں تو اسکا راستہ فقیر کے پڑ کی طرف جاتا ہے شمال کی طرف جائیں تو پکا قلعہ جنوب کی طرف جائیں تو حید رآباد کی پہلی پوش آبادی ہیرآباد سے جا ملتی ہیاور اگر مغرب کی طرف آتے ہیں تو یہ کچے کا علاقہ کہلاتا ہے جو اسٹیشن روڈکی طرف جاتا ہے اس سے آگے لجپت روڈ ہے جو کسی دور میں جنگل ہوا کرتا تھا۔


چھوٹکی گھٹی کی چاڑی سے منسلک حیدرآباد کا پہلا تھانہ موجود ہے جو سٹی تھانہ کہلاتا ہے پہلے اس تھانے کا نام تھانہ پڑ فقیرا تھااسی تھانے سے متصل پولیس اہلکاروں کے گھر ہوا کرتے تھے۔جہاں پر آج نئے گھر اور روشنیوں سے جگ مگ کرتی ہوئی دکانیں موجودہیں ۔اسی تھانے کے برابر میں انتہائی قدیم عمارت پر مشتمل بلدیہ اعلٰی حیدرآباد کا دفتر ہے۔اس بلدیہ اعلٰی میں پاکستان کے نامور لوگوں کے شادی کے ریکارڈ ، پیدائش کے ریکارڈ،اموات کے ریکارڈ ،جائیداد کے ریکارڈ اور ٹیکسس کے ریکارڈ موجود ہیں ۔اسی کے دامن میں پہلے یہاں اخبارات کے دفاترتھے جو کہ آج کمرشل ایریاہیں جس میں الیکٹرو نک ما رکیٹ موجود ہے۔


بلدیہ کے دفتر سے متصل چاڑی پر محمدی مسجد تھی یہ حیدرآباد کی پہلی عیدگاہ تھی ۔پھریہاں ہندو مسلم فسادات کی بناء پر اس عیدگاہ کو کینٹ پر منتقل کر دیا گیا۔


 چاڑی کے ساتھ اوپر چلیں تو دائیں جانب ساٹی پاڑہ ہوا کرتا تھا جہاں مچھلی فروش مچھلی فروخت کرنے کیلے لایا کرتے تھے اب اسے اردو بازار کہا جاتا ہے ۔ایسی کتابیں جو بچوں کو پورے حیدرآباد میں نہیں ملتیں تو وہ اردو بازار میں سستے داموں با آسانی دستیاب ہوتی ہیں ۔اردو بازار کے سامنے ہی ایڈوانی گھٹی ہے یہاں ہندو ذات کے لوگ ایڈوانی رہا کرتے تھے ۔ ایل ۔کے ایڈوانی جو بھارت کے وزیر بھی رہے اُن کا تعلق یہی سے تھا ان کی حاویلی آج بھی یہاں قائم ہے جسے ایڈوانی گھٹی کو آج لوگ بابری لین کے نام سے جانتے ہیں حیدرآباد کی سب سے بڑی میڈیکوس ہول سیل مارکیٹ یہی موجود ہیں ۔ایڈوانی گلی سے متصل چندی رمانی گلی ہے۔بھارتی اداکارہ شیلا رمانی کا تعلق اسی گلی سے تھا پھر وہ ممبئی منتقل ہوگئی تھی۔
اب بات پورانی عمارتوں کی . 1929سے پہلے جو عمارتیں تعمیر ہوئیںیہ عمارتیں راجھستانی پتھرسے بنائی جاتی تھی جو اونگر سے لائے جاتے تھے ۔اِن عمارتوں میں یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ بالکونی ہو،لکڑی کی تذین و آرائش ،روشن دان اور ہوادان موجود ہوں اِن گھروں کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ صحن بڑے اور کمرے چھوٹے ہوتے تھے ۔بیت الخلاء اور 

باورچی خانے بھی چھوٹے ہوتے تھے اور گھر میں عبادت گاہیں لازمی ہوتی تھی جس میں ہندو پوجا پاٹ کرتے تھے ۔
 قیام پاکستان کے بعد جہاں پوجا پاٹ ہوا کرتا تھا یہاں مسلمان آبادہوئے جو آج بھی بیراجمان ہیں ۔آج بھی یہ عمارتیں
دیکھنے کے قابل ہیں کیونکہ ان کی بناوٹ میں خوبصورتی نمایاں ہے ۔

 August 2015 
 Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

حیدرآباد کی سبزی منڈی . Un edited

صحیح ہے۔ ایڈیٹنگ ہونی ہے. Un edited
اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
حیدرآباد کی سبزی منڈی
تروتازہ سبزیوں اور پھلوں کے حصول کے لئے عموماٌ لوگ سبزی منڈیوں کا رخ کر تے ہیں.جہاں سے نہ صرف انہیں تازہ اور معیاری سبزیاں باآسانی مل جاتی ہیں،بلکہ ان کے دام شہر کی دیگر مارکیٹوں جو کہ محلہ اور ٹاؤن کی سطح پر ہوتی ہیں ان کے مقابلے میں کافی کم ہوتے ہیں۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے خریدار یہاں سے خریداری کو تر جیع دیتا ہے۔
ملک کے دیگر شہروں کی طرح حیدرآباد کی سبزی منڈی جو کہ پہلے حیدرآباد کے گنجان آباد علاقے ٹاور مارکیٹ میں واقع تھی،جگہ کی کمی کے باعث نہ صرف وہاں کاروبار سے منسلک کاروباری حضرات کو مشکلات درپیش تھیں، بلکہ دشوار گزار رستوں کے باعث ٹریفک کی آمدورفت بھی متاثر ہورہی تھی۔ ان تمام پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ضلع حکومت حیدرآباد نے سبزی منڈی کو حیدرآباد ریلوے اسٹیشن سے چند منٹ کے فاصلے پر نیا پل حیدرآباد سے منسلک تمام سہولتوں سے آراستہ جگہ پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔اس سبزی منڈی میں122دکانیں جبکہ400 سے زائد پاتھارے ہیں۔اس مارکیٹ میں حیدرآباد سے منسلک سندھ کے دیگر شہروں میرپورخاص،بدین،تھرپارکر،ماتلی، گولارچی،ٹھٹہ،مٹیاریااور ٹنڈو محمد خان سے نہ صرف پھل سبزیاں لائی جاتی ہیں، بلکہ پنجاب کے دیگر اضلع سے بھی سبزیاں اور پھل یہاں لائے جاتے ہیں اور بھیجے جاتے ہیں۔اس مارکیٹ سے15000 سے20000 لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے جبکہ یہاں یومیہ10 سے 12 لاکھ کا کاروبار ہوتا ہے۔
چلیں آگے کا احوال ہم آپ کو وہیں چل کر سناتے ہیں، صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی جب تمام شہر ویرانی کی چادر اوڑھے سو رہا ہوتا ہے، ماسوائے دودھ والے کے جو بے دھڑک بلاخوف اپنی ماٹرسائیکل کو سنسان راستوں پر دوڑاتا نظر آتا ہے۔اس دوران شہر کی فضا گرد آلود ہواؤں سے پاک تاہم سبزی منڈی کی فضائیں تروتازہ سبزیوں اور پھلوں کی مہک سے پر لطف ہو جاتی ہیں۔بیوپاری جو کہ دیگر شہروں سے اپنا مال لے کر یہاں پہنچتے ہیں،بولی کا آغازکرتے ہیں خریدار بولی کو آگے بڑھاتے ہوئے مال کی قیمت لگاتے ہیں، ان میں سے کچھ خریدار کامیاب ہوجاتے ہیں تو کچھ نا کام یہ وہ خریدار ہیں جو سبزیوں کو شہر کی دیگر مارکیٹوں میں فروخت کرتے ہیں۔سورج کی کرنیں جب زور پکڑتی ہیں تو سوئے ہوئے شہری اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سبزیوں کے حصول کے لئے مارکیٹوں کا رخ کرتے ہیں۔خواتین اور مرد حضرات خریداری میں پیش پیش دیکھائی دیتے ہیں، مرد حضرات بھاؤ تاؤ میں زرا کمزور جبکہ خواتین بھاؤ تاؤ میں کافی مہارت رکھتی ہیں ،اس بات کا اندازہ دکاندار کی پیشانی سے جھلکتے پسینے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔تہوار ہوں اور سبزیاں مہنگی نہ ہوں ایسا ہو نہیں سکتا، بادشاہ آلوہویا پرنس ٹماٹر،ملکہ مرچ ہویا انکل ادرک سب غریب کی دسترس سے دور ہوجاتے ہیں۔ چلیں اب واپس چلتے ہیں ارے رکئیے، بادل گرج رہے ہیں لگتا ہے مون سون آگیاتو پھر بارش تو جم کرہوگی،جی ہاں بارش کے باعث جمع شدہ پانی تالاب کا منظر پیش کرتا ہے اور عرصہ دراز تک اپنے ہو نے کا احساس دلاتا ہے۔
مارکیٹ کی مجموعی صورت حال کے بارے میں جب ہماری بات مارکیٹ کے صدر جبار خان اور دیگر دکانداروں سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ جگہ جگہ پڑے گندگی کے ڈھیر اور صفائی کے ناقص انتظامات انتطامیہ کی نااہلی کا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کے سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن تاجروں اور دکانداروں کو رقم سے محروم کردیا جاتا ہے، جو کہ ایک تشویشناک بات ہے۔ تاجر اور دکاندار حضرات ضلع حکومت حیدرآباد سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کی مناسب دیکھ بھال کے لئے عملہ فراہم کیا جائے اور ان کے تحفظ کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں۔ ضلع حکومت حیدرآبادنے یہاں کے مسائل کو خاطر میں رکھتے ہوئے اس کے متبادل کے طور پر مشرف دور میں شہر سے باہر ہالاناکہ بائی پاس پر سبزی منڈی بنائی گی ، جس کا ترقیاتی کام تاحال سست روی کا شکار ہے۔ ترقیاتی کام مکمل ہو تے ہی اس مارکیٹ کو وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔
اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17

This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi

پروفائیل: شبیر تابش

اچھا لکھا ہوا ہے۔ کچھ ایڈیٹنگ کی ضرورت ہے۔ اور تھوڑا سا طویل بھی ہے۔ پیراگرافنگ نہیں تھی جو کردی ہے۔ پروفائل والی شخصیت کی فوٹو چاہئے.
 Un -edited
محمد مہد ، رول نمبر 122، بی ایس پارٹ 3
پروفائیل: شبیر تابش حیدرآباد کی تاریخ کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہیں

شبیر احمد تابش حیدرآباد میں اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنا مقام آپ رکھتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت انہوں نے کچھ اس طرح سے دیا کہ وہ حیدرآباد سے کتنا پیار کرتے ہیں شبیر احمد تابش نے حیدرآباد کی تاریخ کو بے پناہ پڑھااور حیدرآباد کی ایک ایک گلی،ٹنڈوز،چوراہوں کی تاریخ کو اس طرح سے ڈھونڈا اور مکمل ریسرچ کی جس کی وجہ سے شبیر احمد تابش حیدرآباد کی تاریخ کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہیں۔انہوں نے لاتعداد فیچرز ،ڈرامے،افسانے ،کالم مختلف ٹی وی چینلزاور اخباروں کے لئے لکھیں۔اس کے علاوہ پی ٹی وی،بی بی سی،نیشنل جیوگرافک اور ڈسکوری جیسے بڑے ٹی وی چینلز کے لئے بھی ڈاکیومینٹری لکھی ہیں۔۔
آپ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک ہیں اور لوگوں کے ساتھ محبت سے پیش آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں بے حد مقبول ہیں۔
13 اگست 1965کوحیدرآباد کے علاقے سرفراز کالونی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد نصیرالدین حکمت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ بنیادی تعلیم کالونی میں واقع مدرستہ السلام سے حاصل کی۔ اس اسکول میں داخلے کے لئے ایک دلچپ واقع ہوا۔اور وہ واقع یہ تھا کہ جب اس وقت اسکولوں میں داخلہ دیا جاتا تھا تو بچے کی عمر کم سے کم پانچ سال ہونا شرط ہوتی تھی۔ تعلیم حاسل کرنے کا اس حد تک شوق تھا کہ جس کی وجہ سے اسکول میں داخلہ لینے ازخود ہی پہنچ گئے جبکہ اس وقت ان کی عمر چار سال تھی ۔ماسٹر نے پوچھا کہ عمر کتنی ہے؟ کم عمر ہونے کی وجہ سے انہیں داخلے دینے سے منع کر دیا اور کہا کہ پانچ سال کے ہو جاؤ تو آجانا۔مگر آپکو تعلیم کا بے حد شوق تھا تو تعلیم حاصل کرنے کے حصول کے لئے آپ دو یاتین ہفتے بعد پھر سے چلے گئے اور یقین تھا کہ وہی سوال پھر سے کیا جائے گا،اور وہی سوال ہواتو آپ نے جھوٹ بولا کہ آپکی عمر پانچ سال ہے اور یہ آپکی زندگی کا پہلا جھوٹ تھا اور وہیں سے زندگی میں جھوٹ کی شروعات ہوئی۔
پرائمری تعلیم حاصل کرنے کے بعدتلک چاڑہی پر واقع جامعہ عربیہ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ہائی اسکول کی تعلیم کے زمانے میں ان کے والد مختلف اخبارات گھرلے کر آتے تھے۔ اس وقت جنگ اخبار میں ٹارزن کی کہانی شائع ہوتی تھی جو وہ بہت شوق سے پڑھتے۔ان کے ذہن میں ہمیشہ ایک ہی سوال جنم لیتا تھا کہ ایک اکیلا انسان جنگل کس طرح زندہ رہتا ہے اور وہ مرتا کیوں نہیں ہے۔ آٹھویں جماعت میں ہی آپ نے اپنی پہلی تحریر لکھی جس کا عنوان سچ پر تھاجو کہ جنگ میں شائع ہوئی اور اس طرح وہاں سے انہوں نے لکھنے کا آغاز کیا ۔
انہوں نے سندھ کامرس آف کالج سے بی کام کی ڈگری حاصل کی۔اس دوران آپ کے لکھنے کا آغاز روزنامہ جنگ اور چٹان سمیت مختلف اخباروں سے لکھتے رہے۔آپ نے روزنامہ انقلاب میں ضیاالحق کے دور میں بھی کام کیا کہ جب خبریں سنسر ہوتی تھیں۔ ایک خبر کی جگہ دوسری خبر شائع نہیں ہوسکتی تھی اور خالی جگہ کے ساتھ اخبار شائع ہوجاتے تھے۔ اس دور میں بھی کام کیا۔
پھر میگزن کی طرف بھی مائل ہوئے کیوں کہ جب شوبز کا دور تھااور فلمیں چلا کرتی تھیں تو فلمیں دیکھنے کا بھی بہت شوق تھا وہید مراد اور ندیم کی فلمیں سب سے زیادہ دیکھیں جس کے گانے آج تک آپکو یاد ہیں۔اسکے علاوہ ماہانامہ میگزین میں صبح روپ ،اجالا ،روزنامہ عوام اور اسی طرح کے میگزین اور اخبارات کے لئے فلمی خبریں لکھا کرتے تھے۔
آپ شوبیز کی خبریں اس لئے بھی لکھا کرتے کہ اس میں کوئی لڑائی جھگڑا اور کسی کے خلاف بات نہیں ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ آپ نے کئی مضامین بھی لکھے،آپ نے فیچر نگاری کرنی شروع کر دی جس میں آپکے استاد اس وقت کے اخبار جہاں کے سینئر ایڈیٹر غلام محی الدین تھے جنہوں نے آپکی ہمیشہ رہنمائی کی۔
آپکو شاعری کا بہت شوق تھا آپ نے کئی غزلیں بھی لکھیں جبکہ شاعری میں آپکے استاد الیاس شاہد تھے اور ان کے استاد جناب احسان دانش تھے جو کہ شاعر مزدو ر بھی رہے جنہیں گورنمنٹ آف پاکستان نے ستارہ امتیاز بھی دیاتو وہ میرے پر استاد رہے۔
محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں ریڈیو سے بھی وابستگی رہی اور ادبی پروگرام مجلہ میں بھی اسکرپٹ لکھے اور شاعری کی اور ڈرامے بھی لکھے آپ کے پہلا ڈرامہ روشنی کے نام سے نشر ہوا ۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف شہروں کی تاریخ اور شخصیات کے حوالے سے کرنٹ افیئر کے پروڈیوسر محمد عارف نے حوصلہ افزائی کی اور ان کی وجہ سے اندرون سندھ دیکھنے ،سمجھنے اور لکھنے کا موقع ملا جسے ضامعین نے بے حد سراہااس بات کا اندازہ ضامعین کے خطوط سے لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے پی ٹی وی،بی بی سی ، ڈسکوری اور نیشنل جیو گرافک جیسے بڑے ٹی وی چینلز کے لئے بھی ڈاکیومینڑی لکھیں ہیں اور ایک نئی ڈاکیومینٹری ڈسکوری کے لئے استاد جی کے نام سے لکھ رہے ہیں۔ جبکہ آپ کو زیادہ پزیرائی میڈوک کی وجہ سے ملی ۔ آپ کا کہنا ہے کہ وہ جہاں رہتے تو ان پر لازم ہے کہ آپ حیدرآباد کی تاریخ ،تہذیب،تمدن ،صخافت اور اد ب کے حوالے سے لکھیں،جبکہ آپ کا کہنا ہے کہ حیدرآباد کا نام جو شہرت کا حامل تھا اس کی شناخت دوبارہ بحال کی جائے۔۔۔

 
محمد مہد ، رول نمبر 122، بی ایس پارٹ 3 سیکنڈ سیمسٹر
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi

اگست  2015