صحیح ہے۔ ایڈیٹنگ ہونی ہے. Un edited
اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
حیدرآباد کی سبزی منڈی
تروتازہ سبزیوں اور پھلوں کے حصول کے لئے عموماٌ لوگ سبزی منڈیوں کا رخ کر تے ہیں.جہاں سے نہ صرف انہیں تازہ اور معیاری سبزیاں باآسانی مل جاتی ہیں،بلکہ ان کے دام شہر کی دیگر مارکیٹوں جو کہ محلہ اور ٹاؤن کی سطح پر ہوتی ہیں ان کے مقابلے میں کافی کم ہوتے ہیں۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے خریدار یہاں سے خریداری کو تر جیع دیتا ہے۔
ملک کے دیگر شہروں کی طرح حیدرآباد کی سبزی منڈی جو کہ پہلے حیدرآباد کے گنجان آباد علاقے ٹاور مارکیٹ میں واقع تھی،جگہ کی کمی کے باعث نہ صرف وہاں کاروبار سے منسلک کاروباری حضرات کو مشکلات درپیش تھیں، بلکہ دشوار گزار رستوں کے باعث ٹریفک کی آمدورفت بھی متاثر ہورہی تھی۔ ان تمام پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ضلع حکومت حیدرآباد نے سبزی منڈی کو حیدرآباد ریلوے اسٹیشن سے چند منٹ کے فاصلے پر نیا پل حیدرآباد سے منسلک تمام سہولتوں سے آراستہ جگہ پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔اس سبزی منڈی میں122دکانیں جبکہ400 سے زائد پاتھارے ہیں۔اس مارکیٹ میں حیدرآباد سے منسلک سندھ کے دیگر شہروں میرپورخاص،بدین،تھرپارکر،ماتلی، گولارچی،ٹھٹہ،مٹیاریااور ٹنڈو محمد خان سے نہ صرف پھل سبزیاں لائی جاتی ہیں، بلکہ پنجاب کے دیگر اضلع سے بھی سبزیاں اور پھل یہاں لائے جاتے ہیں اور بھیجے جاتے ہیں۔اس مارکیٹ سے15000 سے20000 لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے جبکہ یہاں یومیہ10 سے 12 لاکھ کا کاروبار ہوتا ہے۔
چلیں آگے کا احوال ہم آپ کو وہیں چل کر سناتے ہیں، صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی جب تمام شہر ویرانی کی چادر اوڑھے سو رہا ہوتا ہے، ماسوائے دودھ والے کے جو بے دھڑک بلاخوف اپنی ماٹرسائیکل کو سنسان راستوں پر دوڑاتا نظر آتا ہے۔اس دوران شہر کی فضا گرد آلود ہواؤں سے پاک تاہم سبزی منڈی کی فضائیں تروتازہ سبزیوں اور پھلوں کی مہک سے پر لطف ہو جاتی ہیں۔بیوپاری جو کہ دیگر شہروں سے اپنا مال لے کر یہاں پہنچتے ہیں،بولی کا آغازکرتے ہیں خریدار بولی کو آگے بڑھاتے ہوئے مال کی قیمت لگاتے ہیں، ان میں سے کچھ خریدار کامیاب ہوجاتے ہیں تو کچھ نا کام یہ وہ خریدار ہیں جو سبزیوں کو شہر کی دیگر مارکیٹوں میں فروخت کرتے ہیں۔سورج کی کرنیں جب زور پکڑتی ہیں تو سوئے ہوئے شہری اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سبزیوں کے حصول کے لئے مارکیٹوں کا رخ کرتے ہیں۔خواتین اور مرد حضرات خریداری میں پیش پیش دیکھائی دیتے ہیں، مرد حضرات بھاؤ تاؤ میں زرا کمزور جبکہ خواتین بھاؤ تاؤ میں کافی مہارت رکھتی ہیں ،اس بات کا اندازہ دکاندار کی پیشانی سے جھلکتے پسینے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔تہوار ہوں اور سبزیاں مہنگی نہ ہوں ایسا ہو نہیں سکتا، بادشاہ آلوہویا پرنس ٹماٹر،ملکہ مرچ ہویا انکل ادرک سب غریب کی دسترس سے دور ہوجاتے ہیں۔ چلیں اب واپس چلتے ہیں ارے رکئیے، بادل گرج رہے ہیں لگتا ہے مون سون آگیاتو پھر بارش تو جم کرہوگی،جی ہاں بارش کے باعث جمع شدہ پانی تالاب کا منظر پیش کرتا ہے اور عرصہ دراز تک اپنے ہو نے کا احساس دلاتا ہے۔
مارکیٹ کی مجموعی صورت حال کے بارے میں جب ہماری بات مارکیٹ کے صدر جبار خان اور دیگر دکانداروں سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ جگہ جگہ پڑے گندگی کے ڈھیر اور صفائی کے ناقص انتظامات انتطامیہ کی نااہلی کا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کے سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن تاجروں اور دکانداروں کو رقم سے محروم کردیا جاتا ہے، جو کہ ایک تشویشناک بات ہے۔ تاجر اور دکاندار حضرات ضلع حکومت حیدرآباد سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کی مناسب دیکھ بھال کے لئے عملہ فراہم کیا جائے اور ان کے تحفظ کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں۔ ضلع حکومت حیدرآبادنے یہاں کے مسائل کو خاطر میں رکھتے ہوئے اس کے متبادل کے طور پر مشرف دور میں شہر سے باہر ہالاناکہ بائی پاس پر سبزی منڈی بنائی گی ، جس کا ترقیاتی کام تاحال سست روی کا شکار ہے۔ ترقیاتی کام مکمل ہو تے ہی اس مارکیٹ کو وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔
اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
حیدرآباد کی سبزی منڈی
تروتازہ سبزیوں اور پھلوں کے حصول کے لئے عموماٌ لوگ سبزی منڈیوں کا رخ کر تے ہیں.جہاں سے نہ صرف انہیں تازہ اور معیاری سبزیاں باآسانی مل جاتی ہیں،بلکہ ان کے دام شہر کی دیگر مارکیٹوں جو کہ محلہ اور ٹاؤن کی سطح پر ہوتی ہیں ان کے مقابلے میں کافی کم ہوتے ہیں۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے خریدار یہاں سے خریداری کو تر جیع دیتا ہے۔
ملک کے دیگر شہروں کی طرح حیدرآباد کی سبزی منڈی جو کہ پہلے حیدرآباد کے گنجان آباد علاقے ٹاور مارکیٹ میں واقع تھی،جگہ کی کمی کے باعث نہ صرف وہاں کاروبار سے منسلک کاروباری حضرات کو مشکلات درپیش تھیں، بلکہ دشوار گزار رستوں کے باعث ٹریفک کی آمدورفت بھی متاثر ہورہی تھی۔ ان تمام پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ضلع حکومت حیدرآباد نے سبزی منڈی کو حیدرآباد ریلوے اسٹیشن سے چند منٹ کے فاصلے پر نیا پل حیدرآباد سے منسلک تمام سہولتوں سے آراستہ جگہ پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔اس سبزی منڈی میں122دکانیں جبکہ400 سے زائد پاتھارے ہیں۔اس مارکیٹ میں حیدرآباد سے منسلک سندھ کے دیگر شہروں میرپورخاص،بدین،تھرپارکر،ماتلی، گولارچی،ٹھٹہ،مٹیاریااور ٹنڈو محمد خان سے نہ صرف پھل سبزیاں لائی جاتی ہیں، بلکہ پنجاب کے دیگر اضلع سے بھی سبزیاں اور پھل یہاں لائے جاتے ہیں اور بھیجے جاتے ہیں۔اس مارکیٹ سے15000 سے20000 لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے جبکہ یہاں یومیہ10 سے 12 لاکھ کا کاروبار ہوتا ہے۔
چلیں آگے کا احوال ہم آپ کو وہیں چل کر سناتے ہیں، صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی جب تمام شہر ویرانی کی چادر اوڑھے سو رہا ہوتا ہے، ماسوائے دودھ والے کے جو بے دھڑک بلاخوف اپنی ماٹرسائیکل کو سنسان راستوں پر دوڑاتا نظر آتا ہے۔اس دوران شہر کی فضا گرد آلود ہواؤں سے پاک تاہم سبزی منڈی کی فضائیں تروتازہ سبزیوں اور پھلوں کی مہک سے پر لطف ہو جاتی ہیں۔بیوپاری جو کہ دیگر شہروں سے اپنا مال لے کر یہاں پہنچتے ہیں،بولی کا آغازکرتے ہیں خریدار بولی کو آگے بڑھاتے ہوئے مال کی قیمت لگاتے ہیں، ان میں سے کچھ خریدار کامیاب ہوجاتے ہیں تو کچھ نا کام یہ وہ خریدار ہیں جو سبزیوں کو شہر کی دیگر مارکیٹوں میں فروخت کرتے ہیں۔سورج کی کرنیں جب زور پکڑتی ہیں تو سوئے ہوئے شہری اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سبزیوں کے حصول کے لئے مارکیٹوں کا رخ کرتے ہیں۔خواتین اور مرد حضرات خریداری میں پیش پیش دیکھائی دیتے ہیں، مرد حضرات بھاؤ تاؤ میں زرا کمزور جبکہ خواتین بھاؤ تاؤ میں کافی مہارت رکھتی ہیں ،اس بات کا اندازہ دکاندار کی پیشانی سے جھلکتے پسینے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔تہوار ہوں اور سبزیاں مہنگی نہ ہوں ایسا ہو نہیں سکتا، بادشاہ آلوہویا پرنس ٹماٹر،ملکہ مرچ ہویا انکل ادرک سب غریب کی دسترس سے دور ہوجاتے ہیں۔ چلیں اب واپس چلتے ہیں ارے رکئیے، بادل گرج رہے ہیں لگتا ہے مون سون آگیاتو پھر بارش تو جم کرہوگی،جی ہاں بارش کے باعث جمع شدہ پانی تالاب کا منظر پیش کرتا ہے اور عرصہ دراز تک اپنے ہو نے کا احساس دلاتا ہے۔
مارکیٹ کی مجموعی صورت حال کے بارے میں جب ہماری بات مارکیٹ کے صدر جبار خان اور دیگر دکانداروں سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ جگہ جگہ پڑے گندگی کے ڈھیر اور صفائی کے ناقص انتظامات انتطامیہ کی نااہلی کا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کے سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن تاجروں اور دکانداروں کو رقم سے محروم کردیا جاتا ہے، جو کہ ایک تشویشناک بات ہے۔ تاجر اور دکاندار حضرات ضلع حکومت حیدرآباد سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کی مناسب دیکھ بھال کے لئے عملہ فراہم کیا جائے اور ان کے تحفظ کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں۔ ضلع حکومت حیدرآبادنے یہاں کے مسائل کو خاطر میں رکھتے ہوئے اس کے متبادل کے طور پر مشرف دور میں شہر سے باہر ہالاناکہ بائی پاس پر سبزی منڈی بنائی گی ، جس کا ترقیاتی کام تاحال سست روی کا شکار ہے۔ ترقیاتی کام مکمل ہو تے ہی اس مارکیٹ کو وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔
اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment