اس میں اس کتاب کے بارے میں کچھ لکھا ہوا نہیں۔ دیگر جو آپ بیتی لکھی گئی
ہیں اس میں اسکا کیا مقام ہے۔ اسکو دوبارہ لکھنے اور ٹھیک کرنے کی ضرورت
ہے
منیبہ حفیظ MC/2k13/76
آئینے کے سامنے (عطیہ داؤد) بک رویو۔
پاکستان کے ضلع نوشہرو فیروز کے ایک پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقے کے ایک چھوٹے گاؤں سے نکلنے والی لڑکی عطیہ داؤد نڈر، بے خوف اور بلند جذبے رکھنے والی اپنی آپ بیتی بھارت کے دورے کے دوران سنسکرتی کندرا میں 3 ماہ رہنے کا موقع نہ ملتا تو شاید وہ آپ بیتی نہ لکھ پاتی۔
انھوں نے اپنی آپ بیتی میں دیہی زندگی کے مسائل کو بہت ہی واضع طریقہ اور صاف لفظوں میں بیان کیا ہے کہ کس طرح خواتین ایک غیر ترقی یافتہ اور ان پڑھ ماحول میں قدم قدم پر مشکلات ،تلخیوں اورصنفی عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی کتاب دیہی سندھ کے دیہاتی گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک آواز بن کے ابھری ہے۔
عطیہ داؤد نے جس طرح خاندانی پس منظر، دیہی زندگی، باپ کی موت ،معاشی جدوجہد ، دوستوں کا بچھڑنا، ادبی سرگرمیاں ، تحریکی ساتھیوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت اورکامیابی کو بہت تفصیل اور سادہ طریقے سے بیان کیا ہے وہ قابل تعریف ہے شاید ہمیں پھر ایسی آپ بیتی پڑھنے کو نا ملے جس میں دیہی اورشہری زندگی، نفرتیں یا اختلافات، اعتماد، پیار ، جیون ساتھی، جدوجہد اور روشن مستقبل اور ایک مکمل زندگی سب شامل ہو۔
عطیہ کے والد کا خاندا ن ’’ملاّ‘‘ خاندان کے طور پر جانا جاتا تھا خاندان کا ابائی پیشہ مذہب تھا محمد داؤد دل سے پکا ملاّ نہیں تھے خاندانی پیشے سے بغاوت کی اور گھر چھوڑ کر بھاگ گئے قریب کے گاؤں کسی کے زیرِ نظر تعلیم حاصل کی اور واپس گاؤں آکر پرائمری ا سکول کی بنیاد رکھی اور اپنی بیوی اور بچوں کو بھی تعلیم دلوائی ریٹائرمنٹ کے بعد خاندانی پیشہ سمبھال لیا۔
عطیہ لاڑک آٹھو یں کلاس میں تھی جب پہلی بار سندھی اخبار’’ ہلال پاکستان‘‘ میں ایک نظم شائع کی جس پر چھوٹے بھائی اور اسکی بیوی سے اختلافات کی وجہ سے انھوں نے بڑے بھائی کو لندن میں شکایتی خط لکھا اور اخبار میں نا م اشاعت ہونے کی صورت پر بڑے بھائی نے کہا کہ تم خاندان کا نام اچھال رہی ہو کیا اسی لئے تم حیدرآباد آئی تھیں تب عطیہ نے عطیہ لاڑک سے عطیہ داؤد بننے کا فیصلہ کیاکہ آپ خاندان کا تو نام چھین سکتے ہے پر باپ کا نام نہیں ا نھیں بھائیوں سے سوچ اور شعور ملا اورآج دکھ مایوسی بھی ملی ،زندگی میں اس کو خود سے کچھ کرنا، اس کے خواب امیدیں اور کچھ کردکھانے کا عظم ایک دیہی سے شہری ماحول میں آنا ، منفرد سفر، ادبی سرگرمیاں شہرت کی بلندیوں کے ساتھ مسائل اور رکاوٹوں کو بہت خو ب انداز میں نبھایا ہے کچھ بننے کی لگن ایک چھوٹے سے گاؤں سے نکل کر اپنا آپ منوانا اور ہمت سے کام لینا شاید ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ برے حالات کو اچھے حالات میں بدل سکے۔
مصنفہ کے بارے
عطیہ داؤد 1958 میں سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں حاصل کی اور اس کے بعد سندھ یونیورسٹی جامشورو میں سندھی ادب میں M.A کیاایک نامور شاعر ہ، مصنف اور پاکستان کی طرف سے خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ایک ناریواری اور نجی ٹی وی چینل میں بحیثیت اسکرپٹ ایڈیٹر اور ڈراما نویس خدامات سرانجام دے رہی ہیں ان کے مضامین مختلف رسالے میں شائع ہوتے رہتے ہے ان تحریروں کے ذریعے روایات کے نام پر پاکستانی معاشرے میں عورتوں پر ظلم کو بیان کیا گیا ہے۔
ممبئی میں اکھل بھرت سندھی اور سا ھیت سبھا سے سندھی ادیب ایوارڈ کے ساتھ نوازا گیااسکی نظموں میں ایک مظبوط کردار کی عورت نظر آتی ہے جیسے وہ خود ہے اپنی شاعری میں وہ عورتوں کے مساوی حقوق کے لئے لڑنے اور انہیں با اختیار بنانے ،صنفی مسائل، امن و انصاف کے لئے آواز بلند کرتی نظر آتی ہیں ۔
عطیہ داؤد کو پاکستان میں اور بیرونی ملک میں بھی سہرایا گیا ہے ان کی نظمیں جرمن ، انگریزی اور اردو ترجموں میں شائع ہوئی ہیں ان کی آب تک چھ کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں شرافت جی پل صرات، سندھی عورتوں کی کہانی ہیں آج سندھ میں سب سے زیادہ سندھی ناریواری لکھنے والوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
Muneeba Hafeez
Second Semester August 2015
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
منیبہ حفیظ MC/2k13/76
آئینے کے سامنے (عطیہ داؤد) بک رویو۔
پاکستان کے ضلع نوشہرو فیروز کے ایک پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقے کے ایک چھوٹے گاؤں سے نکلنے والی لڑکی عطیہ داؤد نڈر، بے خوف اور بلند جذبے رکھنے والی اپنی آپ بیتی بھارت کے دورے کے دوران سنسکرتی کندرا میں 3 ماہ رہنے کا موقع نہ ملتا تو شاید وہ آپ بیتی نہ لکھ پاتی۔
انھوں نے اپنی آپ بیتی میں دیہی زندگی کے مسائل کو بہت ہی واضع طریقہ اور صاف لفظوں میں بیان کیا ہے کہ کس طرح خواتین ایک غیر ترقی یافتہ اور ان پڑھ ماحول میں قدم قدم پر مشکلات ،تلخیوں اورصنفی عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی کتاب دیہی سندھ کے دیہاتی گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک آواز بن کے ابھری ہے۔
عطیہ داؤد نے جس طرح خاندانی پس منظر، دیہی زندگی، باپ کی موت ،معاشی جدوجہد ، دوستوں کا بچھڑنا، ادبی سرگرمیاں ، تحریکی ساتھیوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت اورکامیابی کو بہت تفصیل اور سادہ طریقے سے بیان کیا ہے وہ قابل تعریف ہے شاید ہمیں پھر ایسی آپ بیتی پڑھنے کو نا ملے جس میں دیہی اورشہری زندگی، نفرتیں یا اختلافات، اعتماد، پیار ، جیون ساتھی، جدوجہد اور روشن مستقبل اور ایک مکمل زندگی سب شامل ہو۔
عطیہ کے والد کا خاندا ن ’’ملاّ‘‘ خاندان کے طور پر جانا جاتا تھا خاندان کا ابائی پیشہ مذہب تھا محمد داؤد دل سے پکا ملاّ نہیں تھے خاندانی پیشے سے بغاوت کی اور گھر چھوڑ کر بھاگ گئے قریب کے گاؤں کسی کے زیرِ نظر تعلیم حاصل کی اور واپس گاؤں آکر پرائمری ا سکول کی بنیاد رکھی اور اپنی بیوی اور بچوں کو بھی تعلیم دلوائی ریٹائرمنٹ کے بعد خاندانی پیشہ سمبھال لیا۔
عطیہ لاڑک آٹھو یں کلاس میں تھی جب پہلی بار سندھی اخبار’’ ہلال پاکستان‘‘ میں ایک نظم شائع کی جس پر چھوٹے بھائی اور اسکی بیوی سے اختلافات کی وجہ سے انھوں نے بڑے بھائی کو لندن میں شکایتی خط لکھا اور اخبار میں نا م اشاعت ہونے کی صورت پر بڑے بھائی نے کہا کہ تم خاندان کا نام اچھال رہی ہو کیا اسی لئے تم حیدرآباد آئی تھیں تب عطیہ نے عطیہ لاڑک سے عطیہ داؤد بننے کا فیصلہ کیاکہ آپ خاندان کا تو نام چھین سکتے ہے پر باپ کا نام نہیں ا نھیں بھائیوں سے سوچ اور شعور ملا اورآج دکھ مایوسی بھی ملی ،زندگی میں اس کو خود سے کچھ کرنا، اس کے خواب امیدیں اور کچھ کردکھانے کا عظم ایک دیہی سے شہری ماحول میں آنا ، منفرد سفر، ادبی سرگرمیاں شہرت کی بلندیوں کے ساتھ مسائل اور رکاوٹوں کو بہت خو ب انداز میں نبھایا ہے کچھ بننے کی لگن ایک چھوٹے سے گاؤں سے نکل کر اپنا آپ منوانا اور ہمت سے کام لینا شاید ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ برے حالات کو اچھے حالات میں بدل سکے۔
مصنفہ کے بارے
عطیہ داؤد 1958 میں سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں حاصل کی اور اس کے بعد سندھ یونیورسٹی جامشورو میں سندھی ادب میں M.A کیاایک نامور شاعر ہ، مصنف اور پاکستان کی طرف سے خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ایک ناریواری اور نجی ٹی وی چینل میں بحیثیت اسکرپٹ ایڈیٹر اور ڈراما نویس خدامات سرانجام دے رہی ہیں ان کے مضامین مختلف رسالے میں شائع ہوتے رہتے ہے ان تحریروں کے ذریعے روایات کے نام پر پاکستانی معاشرے میں عورتوں پر ظلم کو بیان کیا گیا ہے۔
ممبئی میں اکھل بھرت سندھی اور سا ھیت سبھا سے سندھی ادیب ایوارڈ کے ساتھ نوازا گیااسکی نظموں میں ایک مظبوط کردار کی عورت نظر آتی ہے جیسے وہ خود ہے اپنی شاعری میں وہ عورتوں کے مساوی حقوق کے لئے لڑنے اور انہیں با اختیار بنانے ،صنفی مسائل، امن و انصاف کے لئے آواز بلند کرتی نظر آتی ہیں ۔
عطیہ داؤد کو پاکستان میں اور بیرونی ملک میں بھی سہرایا گیا ہے ان کی نظمیں جرمن ، انگریزی اور اردو ترجموں میں شائع ہوئی ہیں ان کی آب تک چھ کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں شرافت جی پل صرات، سندھی عورتوں کی کہانی ہیں آج سندھ میں سب سے زیادہ سندھی ناریواری لکھنے والوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
Muneeba Hafeez
Second Semester August 2015
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
acha he mgr us ki zindagi k kuch ahm lamhat mis hain
ReplyDelete