Edited final Issue No 4 Good research, and well written
آرٹیکل: حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی
پٹالہ سے حیدرآباد تک
عبید الحق قریشی
حیدرآباد صد یوں پرانہ شہر ہے اسکا تذکرہ قدیم عہد نامے میں موجود ہے۔ویدیک دور میں اس کا ذکرہے جو ارُونپور کے نام سے ملتا ہے۔ارُون معنٰی ٹھنڈا اور پور معنٰی شہر ۔ اسکی ہوائیں اسکے ہوادان اور اسکی شامیں آج بھی مشہور ہیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے اسکا نام پٹالہ ..پٹالپور..اور نیرون کوٹ کے مختلف ناموں سے بھی ملتا ہے۔مشہورُ محققّ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سندھ ادبی کا نفرنس میں1975 ء میں پیش کئے اپنے مقالے میں کہتے ہیں جس ٹیکری (پہاڑی) پر قلعہ واقع تھا اسے نیرون
کہا جاتا تھاجس کی وجہ سے اس کا نام نیرون اور ٹکر کا کوٹ پڑا۔
حیدرآبادمیں سب سے پہلے آبادی کا تصور صرف پکا قلعہ کی حد تک تھا اور آبادی تقریباً 23400ہزار تھی جب ساتویں صدی عیسوی کے آخر ی عشرے میں مشہور راجہ ’’رائے ڈاہر‘‘یہاں کا حاکم تھا ۔ رعایا بدھ مذہب کی پیروکار تھی۔آٹھویں صدی میں اس قلعہ کو محمد بن قاسم نے فتح کیااس وقت بھی آبادی بہت کم تھی۔ا س شہر کی اصل حالت غلام شاہ کلہوڑا نے بدلی اسکا نا م حضرت علیؓ کے صفاتی نام حیدر پر حیدرآباد رکھا گیا۔شہروں کے عروج وزوال ،ترقی و تنزلی کا دارومدارتاریخ کے رویہ سے منسلک ہے ، کیونکہ تاریخ،انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے اہم کردار اداکر تی آئی ہے۔ غلام شاہ کلہوڑا نے بہت سی آبادیوں جن کا تعلق الگ الگ پیشے اور ذاتوں سے تھاحیدرآباد میں لا کر بسایا اور اسے اپنا تخت بنایا۔
آبادی کے لحاظ سے حیدرآباد پاکستان کاچھٹا اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ انگریز حاکمیت تک حیدرآباد سندھ کا درالخلافہ بھی تھا۔پاکستان میں سب سے زیادہ مہنگی ترین زمینوں کی خریدو فروخت میں حیدرآباد پانچویں نمبر پر آتاہے۔ حیدرآبادمیں پہلے جہاں ایک منزلہ مکان ہواکرتے تھے اُن میں ہوادان ضرور ہوا کرتے تھے لیکن اب یہاں بڑے بڑے پلازے اور شاپینگ مالز بنتے جارہے ہیں اسی میں مشہور رینبو سینٹر ، نسیم سینٹر،طیب کمپلکس،قائد اعظم پلازہ اورانہی میں الرحیم شاپینگ سینٹر ہے جو سندھ کے طویل پلازہ میں سے ایک ہے۔وقت کے ساتھ شہر کی آبادی میں بے حد اِضافہ ہواہے۔ حیدرآباد کوچار تحصلوں میں تقیسم کیا گیا ہے جن میں حیدرآباددیہی ،حیدرآبادسٹی، لطیف آباداور قاسم آباد شامل ہیں۔حیدرآباداولڈ سٹی ایریا میں عام انسان چلنے پھرنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں روڈ نہیں بلکہ کسی پارکنگ ایریا کا منظر پیش کرتی ہیں ۔یہ سڑکیں اسِ بھاری ٹریفک کے لیے ناکافی ہیں کیونکہ انگر یزدور میں جہاں ایک روڈ پر دو طرفہ گاڑیاں چلتی تھی اب یہاں اِ س وقت ایک طرفہ ٹریفک بھی اپنی پوری روانی کیساتھ نہیں چل پاتا ۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی ایک سروے کے مطابق حیدرآباد کے 70%گھروں میں ایک اور ایک سے زائد موٹرسائیکلیں موجود ہیں اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا حال ہے۔ اور اگر فٹ پاتھ پر چلنے کی بات کریں تو ناجائز تجاوزات اور ناجائز پارکنگ کے باعث یہ
جگہیں پہلے سے بُک ہوئی نظر آتی ہیں ۔
حیدرآباد میں پہلی مردم شماری 1872ء میں انگریزوں کے دور میں کرائی گئی ، جب یہاں کی آبادی صرف 45000پر مشتمل تھی جو قلعہ اور اس کے ملحقہ حصوں میں آباد تھے۔پھر 1901ء میں 69400،1941ء میں 135000پھر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ پاکستان وجود میں آیاتوقیامِ پاکستان کے بعد پہلی بار یہاں 1951ء میں مردم شماری گوشواروں کے مطابق تقریباً آبادی241000 سے بھی تجاوز کر گئی۔ 1947 کے بعد بہت بڑی آبادی نے حیدرآباد کا رخُ کیاجس کے باعث بہت سے مسائل بھی درپیش ہوئے تاہم وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔اسی طرح سن2000ء میں آبادی 1375000کے لگ بھگ تھی۔ حیدرآباد کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اب 2015ء میں ایک سروے کے مطابق آبادی 2405000 تک جاپہنچی ہے ۔ جبکہ ضلع حیدرآباد کی آبادی تقریباً 4000000 سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں ہوسڑی ، ٹنڈ وجام و دیگر شامل ہیں۔ لیکن سندھ حکومت کے کرتا دھرتانا جانے کون سی دوائی کھاکر سو رہے ہیں کہ آج بھی سو سال پرانے گھِسے پٹِے طریقے سے نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور کوئی جامع پلان نظر نہیں آرہاجو حیدرآباد کے لیے بہتر ثابت ہو۔
آرٹیکل: حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی
پٹالہ سے حیدرآباد تک
عبید الحق قریشی
حیدرآباد صد یوں پرانہ شہر ہے اسکا تذکرہ قدیم عہد نامے میں موجود ہے۔ویدیک دور میں اس کا ذکرہے جو ارُونپور کے نام سے ملتا ہے۔ارُون معنٰی ٹھنڈا اور پور معنٰی شہر ۔ اسکی ہوائیں اسکے ہوادان اور اسکی شامیں آج بھی مشہور ہیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے اسکا نام پٹالہ ..پٹالپور..اور نیرون کوٹ کے مختلف ناموں سے بھی ملتا ہے۔مشہورُ محققّ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سندھ ادبی کا نفرنس میں1975 ء میں پیش کئے اپنے مقالے میں کہتے ہیں جس ٹیکری (پہاڑی) پر قلعہ واقع تھا اسے نیرون
حیدرآبادمیں سب سے پہلے آبادی کا تصور صرف پکا قلعہ کی حد تک تھا اور آبادی تقریباً 23400ہزار تھی جب ساتویں صدی عیسوی کے آخر ی عشرے میں مشہور راجہ ’’رائے ڈاہر‘‘یہاں کا حاکم تھا ۔ رعایا بدھ مذہب کی پیروکار تھی۔آٹھویں صدی میں اس قلعہ کو محمد بن قاسم نے فتح کیااس وقت بھی آبادی بہت کم تھی۔ا س شہر کی اصل حالت غلام شاہ کلہوڑا نے بدلی اسکا نا م حضرت علیؓ کے صفاتی نام حیدر پر حیدرآباد رکھا گیا۔شہروں کے عروج وزوال ،ترقی و تنزلی کا دارومدارتاریخ کے رویہ سے منسلک ہے ، کیونکہ تاریخ،انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے اہم کردار اداکر تی آئی ہے۔ غلام شاہ کلہوڑا نے بہت سی آبادیوں جن کا تعلق الگ الگ پیشے اور ذاتوں سے تھاحیدرآباد میں لا کر بسایا اور اسے اپنا تخت بنایا۔
آبادی کے لحاظ سے حیدرآباد پاکستان کاچھٹا اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ انگریز حاکمیت تک حیدرآباد سندھ کا درالخلافہ بھی تھا۔پاکستان میں سب سے زیادہ مہنگی ترین زمینوں کی خریدو فروخت میں حیدرآباد پانچویں نمبر پر آتاہے۔ حیدرآبادمیں پہلے جہاں ایک منزلہ مکان ہواکرتے تھے اُن میں ہوادان ضرور ہوا کرتے تھے لیکن اب یہاں بڑے بڑے پلازے اور شاپینگ مالز بنتے جارہے ہیں اسی میں مشہور رینبو سینٹر ، نسیم سینٹر،طیب کمپلکس،قائد اعظم پلازہ اورانہی میں الرحیم شاپینگ سینٹر ہے جو سندھ کے طویل پلازہ میں سے ایک ہے۔وقت کے ساتھ شہر کی آبادی میں بے حد اِضافہ ہواہے۔ حیدرآباد کوچار تحصلوں میں تقیسم کیا گیا ہے جن میں حیدرآباددیہی ،حیدرآبادسٹی، لطیف آباداور قاسم آباد شامل ہیں۔حیدرآباداولڈ سٹی ایریا میں عام انسان چلنے پھرنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں روڈ نہیں بلکہ کسی پارکنگ ایریا کا منظر پیش کرتی ہیں ۔یہ سڑکیں اسِ بھاری ٹریفک کے لیے ناکافی ہیں کیونکہ انگر یزدور میں جہاں ایک روڈ پر دو طرفہ گاڑیاں چلتی تھی اب یہاں اِ س وقت ایک طرفہ ٹریفک بھی اپنی پوری روانی کیساتھ نہیں چل پاتا ۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی ایک سروے کے مطابق حیدرآباد کے 70%گھروں میں ایک اور ایک سے زائد موٹرسائیکلیں موجود ہیں اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا حال ہے۔ اور اگر فٹ پاتھ پر چلنے کی بات کریں تو ناجائز تجاوزات اور ناجائز پارکنگ کے باعث یہ
حیدرآباد میں پہلی مردم شماری 1872ء میں انگریزوں کے دور میں کرائی گئی ، جب یہاں کی آبادی صرف 45000پر مشتمل تھی جو قلعہ اور اس کے ملحقہ حصوں میں آباد تھے۔پھر 1901ء میں 69400،1941ء میں 135000پھر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ پاکستان وجود میں آیاتوقیامِ پاکستان کے بعد پہلی بار یہاں 1951ء میں مردم شماری گوشواروں کے مطابق تقریباً آبادی241000 سے بھی تجاوز کر گئی۔ 1947 کے بعد بہت بڑی آبادی نے حیدرآباد کا رخُ کیاجس کے باعث بہت سے مسائل بھی درپیش ہوئے تاہم وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔اسی طرح سن2000ء میں آبادی 1375000کے لگ بھگ تھی۔ حیدرآباد کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اب 2015ء میں ایک سروے کے مطابق آبادی 2405000 تک جاپہنچی ہے ۔ جبکہ ضلع حیدرآباد کی آبادی تقریباً 4000000 سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں ہوسڑی ، ٹنڈ وجام و دیگر شامل ہیں۔ لیکن سندھ حکومت کے کرتا دھرتانا جانے کون سی دوائی کھاکر سو رہے ہیں کہ آج بھی سو سال پرانے گھِسے پٹِے طریقے سے نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور کوئی جامع پلان نظر نہیں آرہاجو حیدرآباد کے لیے بہتر ثابت ہو۔
Fotos are used only for academic purpose. and with courtesy
2k13/mc/113
Practical work done under supervision of Sir Sohail Sangi
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
Good research, and well written but what is punch line? I have edited it and now its 750 words.
عبید الحق قریشی 2k13/mc/113 آرٹیکل:حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی
حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی
حیدرآباد صد یوں پرانہ شہر ہے اسکا تذکرہ قدیم عہد نامے میں موجود ہے۔ویدیک دور میں اس کا ذکرہے جو ارُونپور کے نام سے ملتا ہے۔ارُون معنٰی ٹھنڈا اور پور معنٰی شہر کے رہے ہیں اسکی ہوائیں اسکے ہوادان اور اسکی شامیں آج بھی مشہور ہیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے اسکا نام پٹالہ ..پٹالپور..اور نیرون کوٹ کے مختلف ناموں سے بھی ملتا ہے۔مشہورُ محققّ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اپنے مقالے میں جو سندھ ادبی کا نفرنس میں1975 ء میں پڑھا گیا کہتے ہیں جس ٹیکری (پہاڑی) پر قلعہ واقع تھا اسے نیرون کہا جاتا تھاجس کی وجہ سے اس کا نام نیرون اور ٹکر کا کوٹ پڑا۔
Practical work done under supervision of Sir Sohail Sangi
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
Good research, and well written but what is punch line? I have edited it and now its 750 words.
عبید الحق قریشی 2k13/mc/113 آرٹیکل:حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی
حید رآباد میں بڑھتی ہوئی آبادی
حیدرآباد صد یوں پرانہ شہر ہے اسکا تذکرہ قدیم عہد نامے میں موجود ہے۔ویدیک دور میں اس کا ذکرہے جو ارُونپور کے نام سے ملتا ہے۔ارُون معنٰی ٹھنڈا اور پور معنٰی شہر کے رہے ہیں اسکی ہوائیں اسکے ہوادان اور اسکی شامیں آج بھی مشہور ہیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے اسکا نام پٹالہ ..پٹالپور..اور نیرون کوٹ کے مختلف ناموں سے بھی ملتا ہے۔مشہورُ محققّ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اپنے مقالے میں جو سندھ ادبی کا نفرنس میں1975 ء میں پڑھا گیا کہتے ہیں جس ٹیکری (پہاڑی) پر قلعہ واقع تھا اسے نیرون کہا جاتا تھاجس کی وجہ سے اس کا نام نیرون اور ٹکر کا کوٹ پڑا۔
حیدرآباد میں سب سے پہلے آبادی کا تصور صرف پکا قلعہ کی حد تک تھا اور
آبادی تقریباً 23400ہزار تھی جب ساتویں صدی عیسوی کے آخر ی عشرے میں مشہور
ہندو راجہ ’’رائے ڈاہر‘‘یہاں کا حاکم تھا ۔ رعایا بدھ مذہب کی پیروکار
تھی۔آٹھویں صدی میں اس قلعہ کو محمد بن قاسم نے فتح کیااس وقت بھی آبادی
بہت کم تھی۔ا س شہر کی اصل حالت غلام شاہ کلہوڑا نے بدلی اسکا نا م حضرت
علیؓ کے صفاتی نام حیدر پر حیدرآباد رکھا گیا۔شہروں کے عروج وزوال ،فناء و
بقا،ترقی و تنزلی کا دارومدارتاریخ کے رویہ سے منسلک ہے ، کیونکہ
تاریخ،انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے اہم کردار اداکر تی آئی ہے۔ غلام شاہ
کلہوڑا نے بہت سی آبادیوں جن کا تعلق الگ الگ پیشے اور ذاتوں سے
تھاحیدرآباد میں لا کر بسایا اور اسے اپنا تخت بنایا۔
آبادی کے لحاظ سے حیدرآباد پاکستان کاچھٹا اور سندھ کا دوسرا
بڑا شہر ہے۔ انگریز حاکمیت تک حیدرآباد سندھ کا درالخلافہ بھی تھا۔پاکستان
میں سب سے زیادہ مہنگی ترین زمینوں کی خریدو فروخت میں حیدرآباد پانچویں
نمبر پر آتاہے۔ حیدرآبادمیں پہلے جہاںیک منزلہ مکان ہواکرتے تھے اُن میں
ہوادان ضرور ہوا کرتے تھے لیکن اب وہاں بڑے بڑے پلازے اور شاپینگ مالز بنتے
جارہے ہیں اسی میں مشہور رینبو سیٹر ، نسیم سینٹر،طیب کمپلکس،قائد اعظم
پلازہ اورانہی میں الرحیم شاپینگ سینٹر ہے جو سندھ کے طویل پلازہ میں سے
ایک ہے۔ ا ایک کھلے دماغ کے ساتھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آبادی میں بے
حد اِضافہ ہواہے۔اس لیے حیدرآباد کوچار تحصلوں میں تقیسم کیا گیا ہے جن میں
حیدرآباددیہی ،حیدرآبادسٹی، لطیف آباداور قاسم آباد شامل ہیں۔حیدرآباداولڈ
سٹی ایریا میں توعام انسان چلنے پھرنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر
گاڑیوں کی لمبی قطاریں ایسی کھڑی محسوس ہو تی ہیں جیسے یہ روڈ نہیں پارکنگ
ایریا ہے ۔یہ سڑکیں اسِ بھاری ٹریفک کے لیے ناکافی ہیں کیونکہ انگر یزدور
میں جہاں ایک روڈ پر دو طرفہ گاڑیاں چلتی تھی اب یہاں اِ س وقت ایک طرفہ
ٹریفک بھی اپنی پوری روانی کیساتھ نہیں چل پاتا ۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی
ایک سروے کیمطابق حیدرآباد کے 70%گھروں میں ایک اور ایک سے زائد
موٹرسائیکلیں موجود ہیں اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا حال ہے۔ اور اگر فٹ
پاتھ پر چلنے کی بات کریں تو ناجائز تجاوزات اور ناجائز پارکنگ کے باعث یہ
جگہیں پہلے سے بُک ہوئی نظر آتی ہیں ۔
حیدرآباد میں پہلی مردم شماری 1872ء میں انگریزوں کے دور میں کرائی گئی
تھی جب یہاں کی آبادی صرف 45000پر مشتمل تھی جو قلعہ اور اس کے ملحقہ حصوں
میں آباد تھے۔پھر 1901ء میں 69400،1941ء میں 135000پھر تبدیلی کے نعرے کے
ساتھ پاکستان وجود میں آیاتوقیامِ پاکستان کے بعد پہلی بار یہاں 1951ء میں
مردم شماری گوشواروں کے مطابق تقریباً آبادی241000 سے بھی تجاوز کر گئی۔
1947 کے بعد بہت بڑی آبادی نے حیدرآباد کا رخُ کیاجس کے باعث بہت سے مسائل
بھی درپیش ہوئے تاہم وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔اسی طرح سنہ2000ء میں
آبادی 1375000کے لگ بھگ تھی۔ حیدرآباد کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور
اب 2015ء میں ایک سروے کے مطابق آبادی 2405000سے بھی انتہاء حد پر آپہنچی
ہے ۔ جبکہ ضلع حیدرآباد کی آبادی تقریباً 4000000 سے تجاوز کر گئی ہے اور
اس میں ہسڑی ، مٹیاری ،بدین، ٹنڈ وجام و دیگر شامل ہیں۔ لیکن سندھ حکومت کے
کرتا دھرتانا جانے کون سی دوائی کھاکر سو رہے ہیں کہ آج بھی سو سال پرانے
گھِسے پٹِے طریقے سے نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور کوئی جامع
پلان نظر نہیں آرہاجو حیدرآباد کے لیے بہتر ثابت ہو۔
No comments:
Post a Comment