Wednesday, August 19, 2015

مشہود علی- انٹرویو

Edited. final
نوجوان  خود کے ساتھ انصاف کریں: مزاحیہ مقرر مشہود علی
انٹرویو: شاہرخ عباسی
مشہود علی 14جون 1991 ؁کو میر پور خاص میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے آکسفورڈ اسکول میرپور خاص سے میٹر ک اور شاہ عبدالطیف ڈگری کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا ۔ 2014 میں جامع سندھ کے شعبہ ریاضیات میں ڈگری حاصل کی ۔ مشہود علی اس وقت پرسٹن کالج حیدرآباد میں ریاضی بحیثیت لیکچرار پڑھا رہے ہیں۔ وہ صرف اچھے استاد ہی نہیں بلکہ مزاحیہ مقرر بھی ہیں۔ مزاحیہ تقریروں میں انہوں نے کئی اعزازات سے بھی حاصل کئے ۔ آل پاکستان مزاحیہ تقریر میں پہلی پوزیشن اور آل سندھ سولو پرفارمنس میں بھی پہلی پوزیشن حاصل ہے۔

س: مباحثے کے لئے آپ نے مزاحیہ تقریر کو ہی مو ضوع کیوں بنایا؟
ج: مزاحیہ تقریر کا آغاز اس وجہ سے کیا کہ مزاحیہ تقریر کی ہار میں بھی لذت ہے جب انسان ہارتا ہے تو مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ کیونکہ لوگوں کو ہنسانا شاید دنیا کے مشکل کاموں میں سے ایک ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں آپ کو ہر جگہ مایوسی ملے گی۔ وہاں اگر آپ کسی کوکچھ وقت کے لیے خوشی دیں تو یہ بہت بڑی بات ہے ۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ سامعین کی طبعیت میں کافی فراخ دلی پیدا ہو جاتی تھی اور وہ بہت دل کے ساتھ داد دیتے تھے جس کی وجہ سے یہ احساس ہوتا ہے چلیں اس نے کوئی تو ایسا کام کیا جس سے لوگوں کو خوشی ملی۔ اس کے بر عکس سنجیدہ تقریر میں جب انسان ہار جاتا تھا تو بہت افسوس ہوتا ہے اور اسی افسوس نے میرے مزاج میں مزاح پیدا کر دیا ۔

س:آپ کی نظر میں بہترین مزاح نگار کون ہیں؟
ج: مزاح نگاری میں مشتاق احمد یوسفی صاحب نے حدسے زیاد ہ متاثرکیاان سے بہت کچھ سیکھنے کوملتارہتا ہے کیونکہ وہ ادبی حلقوں میں بہترین مزاح نگارہیں۔ چونکہ میں ایک اسٹیج پر فارمر ہوں توبعض اوقات تقریروں میں چھچھو را پن بھی شامل ہو جاتا تھا ۔ مشتاق احمد یوسفی، انورمقصود اور ڈاکٹر یو نس بٹ کو پڑھ کر بہت سی غلطیاں سد ھا رنے کا موقع ملا ۔ یہ بہترین مزاح نگا روں میں سے ہیں۔

س: آپ اتنے سوشل ہیں یہ اچھی بات ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے لئے عملی کام سر انجام دیے ؟
ج: اپنی حیثیت کے مطابق ذاتی طور پر اور دوستوں کی مدد سے کر تا رہتا ہوں۔ حال ہی میں ہم نے ایک یو تھ سیمنار منعقد کیا تھا. جسکا عنوان تھا کے بہترین نوجوان نسل ہی بہترین پاکستان بنا سکتی ہے . آگہی کے حوالے سے یہ اہم تھا۔ ماہ رمضان میں مستحق بچو ں کے لئے روٹی،کپڑا جمع کرنے کے لئے بھی میرے دوست میرے ساتھ رہے۔ اس کے علاوہ سندھ یونیورسٹی میں بلڈ ڈونیشن کیمپ لگوایا۔ امید کرتے ہیں کہ جب صاحب حیثیت لوگ مزید مدد کریں گے تو اس عمل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہیں ۔

س:آپ نے بیچلر میتھا میٹکس میں کیا لیکن ذوق اردو تقریروں کا بناہے۔ شخصیت میں دلچسپ تضاد کی کیا وجہ ہے ۔؟
ج: سادہ سی وجہ یہ ہے کہ مجھے شروع سے ہی تا لیا ں اور داد سنے کا شغف رہا ہے۔ ہر ایک کی خوا ہش ہو تی ہے کہ کوئی اس کی پیٹھ تھپ تھپا ئے آپ کو آکر یہ کہے کہ’’ جو کر رہے ہیں وہ اچھا کر رہے ہو۔‘‘ بس میرا یہ ہی ذوق مجھے اردو کی تقریروں اور مباحثوں کی طرف لے گیا ۔جب میں نے2011میں سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تواس وقت سائنسی سبجیکٹ کا رواج زیادہ تھا اور میں بھی بہتے دریا کی روانی کی طرح ریاضی کے شعبے میں آگیا۔ اب ظاہر ہے یونیورسٹی میں ریاضی کے موضوع پر کوئی سائنسی سیمینار تو ہوا نہیں ورنہ آپ مجھے وہا ں بھی پیش پیش د یکھتے۔

س:مزاحیہ تقریروں میں آپ بہت سے شعروں کا استعمال کرتے ہیں؟
ج:جی ہاں کیو نکہ اسٹیج کا ما حول ایسا ہوتا ہے تو اس لئے کبھی طنزیہ جملوں کے ساتھ ساتھ شعر کی صدارت میں رنگ دکھائی کرنا پڑتا ہے

س: نوجوانوں کے لئے کوئی پیغام؟
ج: نوجوانوں کے لئے میرا پیغام بہت سادہ سا ہے کہ آپ خود کے ساتھ ہمیشہ انصاف کریںآپ کے نام کے ساتھ نوجوان کا جو ٹیگ لگا ہوا ہے آپ د یکھے کہ آپ اسے کہاں استعمال کررہے ہیں ملک اور قوم کی بہتری یا اپنی بہتری کے لئے بھی کررہے ہیںیا نہیں اورکیا مقصد ہے زندگی کا جو مقصد ہے اسے پور اکریں۔

------------------ For Editor and writer  ---------------
مشہود علی (انٹرویو) (مزاح نگاری حسن کا اظھار) 
2k13/mc/102 
نوٹ : ۱) آپ کو پتہ ہوگا کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو الفاظ چاہئیں۔ یہ نو سو سے بھی زائد الفاظ ہیں۔ نہ لکھنے والے نے اور نہ ایڈیٹنگ کرنے والے نے اس کا خیال رکھا۔
۲) سوائے تعرف والے پیرا کے کسی میں بھی کوئی کوما، فل اسٹاپ ہی نہیں۔ 
۳)رپیٹیشن بہت ہے جس کو جملہ از سرنو ترتیب دے کر درست اور سادہ کیا جاسکتا تھا۔
۴) ایڈٹ کرنے والے نے فائیل نام ہی عجیب غریب کردیا ہے۔ 
۵)ہیڈنگ دینا ایڈیٹر کا کام ہوتا ہے۔
۶) انٹرویو کی ہیڈنگ اس کے کہے ہوئے جملوں میں سے نکالی جاتی ہے۔ 
اپ کو جو میل بھیجی ہے اس میں جو بلیو مارکنگ کی ہے، وہ غلطیاں دیکھیں۔

مشہود علی 14جون 1991 ؁کو میر پور خاص میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے 2008 میں آکسفورڈ اسکول میرپور خاص سے میٹر ک پاس
کیا اور 2010 میں انٹرمیڈیٹ شاہ عبدالطیف ڈگری کالج سے مکمل کیا ۔ 2014 میں جامع سندھ کے شعبہ رضیت میں ڈگری حاصل کی ۔ مشہود علی اس وقت پرسٹن کالج حیدرآباد میں شعبہ رضیت بحیثیت لیکچرار کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ ایک اچھے استاد ہی نہیں بلکے مزاحیہ مقرر بھی ہیں۔ مزاحیہ تقریروں میں انہیں کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں آل پاکستان مزاحیہ تقریر میں پہلی پوزیشن اور آل سندھ سولو پرفارمنس میں بھی پہلی پوزیشن حاصل ہے۔ 

س: اردو کے مباحثے کے لئے آپ نے مزاحیہ تقریر کو ہی مو ضوع کیوں بنایا؟
اس پورے پیرا میں کہیں بھی کوئی فل اسٹاپ نہیں۔ کیا ایک جملے میں دو تین بار کیونکہ آسکتا ہے؟ معاشہر اور ملک میں سے کوئی ایک استعمال کرو۔ 
ج: میں نے مزاحیہ تقریر کا آغاز اس وجہ سے کیا کیونکہ اس تقریر کی ہار میں بھی لذامت ہے جب انسان ہارتا ہے تو مایوسی کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ لوگوں کو ہنسانا شاید دنیا کے مشکل کاموں میں سے ایک کام (اضافی ہے)ہے جو ہمارے معاشرے میں یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے ایک ایسا ملک جہاں آپ کو ہر جگہ مایوسی ملے وہاں اگر آپ کسی کوکچھ وقت کے لیے خوشی دیں تو یہ بہت بڑی بات ہے جبکہ اس کی دوسری اہم وجوہات ( دوسری ایک وجہ ہے، اسکو جمع میں نہیں لکھا جاسکتا) یہ ہیں کہ سامعیں گرامی کی طبعیت میں کافی فروخ دلی پیدا ہو جاتی تھی اور وہ بہت دل کے ساتھ (سے) داد دیتے تھے جس کی وجہ سے انسان کو یہ محسوس ہوتا تھاچلیں اس نے کوئی تو ایسا کام کیا جس سے لوگوں کو خوشی ملی جبکہ اس کے بر عکس سنجیدہ تقریر میں جب انسان ہار جاتا تھا تو بہت افسوس ہوتا تھا اور اسی افسوس نے میرے مزاج میں مزاح پیدا کر دیا ۔ 

س: آپ کی نظر میں بہترین (پسندیدہ) مزاح نگار کون ہیں؟
ج: مزاح نگاری میں مشتاق احمد یوسفی صاحب نے حدسے زیاد ہ متاثرکیاان سے بہت کچھ سیکھنے کوملتارہتا ہے کیونکہ وہ ادبی حلقوں میں بہترین مزاح نگارہیں جیسے کہ میں ایک اسٹیج پر فارمر ہوں توبعض اوقات تقریروں میں چھچو را پن بھی شامل ہو جاتا تھا تو پھر مشتاق احمد یوسفی، انور مسود اور ڈاکٹر یو نس بٹ صاحب کو پڑھ کر بہت سی غلطیاں سد ھا رنے کا موقع ملا اسی لیے یہ میرے بہترین ( پسندیدہ)مزاح نگا روں میں سے ہیں۔

س: آپ اتنے سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور اتنی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اس کے علاوہ معاشرے کے لئے عملی کام سر انجام دیے ؟
ج: معاشرے میں نوجوانوں کے لئے عملی کام کرنے کی کاوش میں ہمیشہ مشغول رہتاہوں کیو نکہ یہ بات ظاہر ہے کہ میں خود ایک نو جوان ہوں اور طالب علم ہوں تو ہم جو بھی اپنی جیب خرچی اور دوستوں کی مدد سے کر سکتے ہیں تووہ کرتے ہیں جیسے کے حال ہی میں ہم نے ایک یو تھ سیمنار انڈس ہوٹل میں منعقد کیا تھا. جسکا عنوان تھا کے بہترین نوجوان نسل ہی بہترین پاکستان بنا سکتی ہے . جس میں ہمارے استادوں نے معاشرے کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی اس کے علاوہ رمضان ( کیا ماہ رمضان کا نام اس طرح لکھا جاتا ہے؟) میں مستحق بچو ں کے لئے روٹی،کپڑا جمع کرنے کے لئے بھی میرے دوست میرے ساتھ کھڑے ھوے تو ان کی مدد سے جتنا ہم کر سکتے تھے اتنا کیا اور اس کے علاوہ سندھ یونیورسٹی میں بلڈ ڈونیشن کیمپ لگوانے کے عمل کو بھی اپنی منزل تک پہنچایااور یہ ہی امید کرتے ہیں کہ جب صاحب حیثیت لوگ اور زیادہ مدد کریں گے تو اس عمل کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہیں ۔

س: آپ نے بیچلر میتھا میٹکس میں کیا اور آپکا ذوق اردو تقریروں میں نظر آتا ہے۔ اپنی شخصیت میں اتنے دلچسپ تضاد کی کیا وجہ ہے ۔؟
ج: اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کے مجھے شروع سے ہی تا لیا ں اور داد سنے کا شگف رہا ہے ہر انسان کی خوا ہش ہو تی ہے کہ کوئی اس کی پیٹھ تھپ تھپا ئے آپ کو آکر یہ کہے کے جو کر رہے ہیں وہ اچھا کر رہے ہے تو بس میرا یہ ہی ذوق مجھے اردو کی تقریروں اور مبحاثوں کی طرف لے گیا کیونکہ جب مین نے2011میں سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تواس وقت سائنسی سبجیکٹ کا رواج زیادہ تھا اور میں بھی بہتے دریا کی روانی کی طرح ریاضی کے شعبے میں آگیا۔ اب ظاہر ہے یونیورسٹی میں ریاضی کے موضوع پر کوئی سائنسی سیمینار تو ہوا نہیں ورنہ آپ مجھے وہا ں بھی پیش پیش د یکھتے۔

س: مزاحیہ تقریروں میں آپ بہت سے شعروں کا استعمال کرتے ہیں ان میں سے آپکا پسندیدہ شعر کونسا ہے؟
ج: جی ہاں کیو نکہ اسٹیج کا ما حول ایسا ہوتا ہے تو اس لئے کبھی طنزیہ جملوں کے ساتھ ساتھ شعر کی صدارت میں رنگ دکھائی کرنا پڑتا ہے میں نے یہ شعر عامر لیاقت حسین کے شو میں بھی سنا تھا اور مجھے کافی اچھا لگتا ہے ۔
وہ آنکھ بڑی پیاری جو میں نے اسے ماری 
وہ سینڈل بڑی بھاری جو اسنے مجھے ماری 

س: آپ خود ایک نوجوان ہیں اس لئے نوجوانوں کے لئے کوئی خاص پیغام۔ 
ج: بحیثیت نوجوان ، نوجوانوں کے لئے میرا پیغام بہت سادہ سا ہے کہ آپ خود کے ساتھ ہمیشہ انصاف کریںآپ کے نام کے ساتھ نوجوان کا جو ٹیگ لگا ہوا ہے آپ د یکھے کے آپ اسے کہاں استعمال کررہے ہیں ملک اور قوم کی بہتری یا اپنی بہتری کے لئے بھی
کررہے ہیںیا نہیں اورکیا مقصد ہے زندگی کا جو مقصد ہے اسے پور اکریں۔ 

2k13/mc/102
 ------ old version ---- 

شاہ ر خ عباسی 
 2k13/mc/102
مشہود علی (انٹرویو)
مشہود علی 14جون 1991 کو میر پور خاص میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے 2008 میں آکسفورڈ اسکول میں میرپور سے میٹر ک اور 2010 میں شاہ عبدالطیف ڈگری کالج انٹرمیڈیٹ سے کیا ۔ 2014 میں جامع سندھ سے کہ شعبہ ریاضیات میں ڈگری حاصل کی ۔ مشہود علی اس وقت پرسٹن کالج حیدرآباد میں شعبہ رضیت بحیثیت لیکچرار کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ ایک اچھے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ مزاحیہ مقرر بھی ہیں۔ مزاحیہ تقریروں میں انہیں کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں آل پاکستان مزاحیہ تقریر میں پہلی پوزیشن اور آل سندھ سولو پرفارمنس میں بھی پہلی پوزیشن حاصل ہے۔

س: اردو کے مباحثے کے لئے آپ نے مزاحیہ تقریر کو ہی مو ضوع کیوں بنایا؟
ج: مزاحیہ تقریر کا آغاز اس وجہ سے کیا کیونکہ اس تقریر کی ہار میں بھی لذامت ہے جب انسان ہارتا تو مایوسی کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ لوگوں کو ہسانا شاید دنیا کے مشکل کاموں میں سے ایک کام ہے اور ہمارے معاشرے میں تو یہ بہت ہی اہم ہیں ایک ایسا ملک جہاں آپ کو ہر جگہ مایوسی ملے وہاں اگر آپ کسی کوکچھ وقت کے لیے خوشی دیں تو یہ بہت بڑی بات ہے جبکہ اس کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ سامعیں گرامیں کی طبعیت میں کافی فراخ دلی پیدا ہو جاتی تھی اور وہ بہت دل کے ساتھ داد دیتے ہیں اور پیٹھ تبھتبھاتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے چلیں اس نے کوئی تو ایسا کام کیا جس سے لوگوں کو خوشی ملی جبکہ اس کے بر عکس سنجیدہ تقریر میں جب انسان ہار جاتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے اور اسی افسوس نے میرے مزاج میں مزاح پیدا کر دیا ۔

س: آپ کی نظر میں بہترن مزح نگار کون ہیں؟
ج:مزاح نگاری میں مشتاق احمد یوسفی صاحب نے حدسے زیاد ہ متاثرکیاان سے بہت کچھ سیکھنے کوملتارہتا ہے کیونکہ وہ ادبی حلقوں میں بہترین مزاح نگارمیں جیسے کہ میں ایک اسٹیج پر فارمر ہوں توبحض اوقات تقریروں میں چیھچو را پن بھی شامل ہو جاتا تھا تو پھر مشتاق احمد یوسفی، انور قصود اور ڈاکٹر یو نس بٹ صاحب کو پڑھ کر بہت سی غلطیاں سیدھی کیں بہت سے جملوں کی نو ک پلک صحیح سمت میں لے آئے تواسی لیے یہ ہمارے بہترین مزاح نگا روں میں سے ہے۔

س:آپ سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور اتنی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اس کے علاوہ معاشرے کے لئے عملی کام کئے ؟
ج: معاشرے میں نوجوانوں کے لئے عملی کام کرنے کی کاوش میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں کیو نکہ یہ بات ظاہر ہے کہ میں خود ایک نو جوان ہوں اور طالب علم ہوں تو ہم جو بھی اپنی پوکیٹ منی اور دوستوں کی مدد سے کر سکتے ہیں وہ کرتے نظر بھی آتے ہیں جیسے کے حال ہی میں ہم نے ایک یو تھ سیمنار انڈس ہوٹل میں بہترین نوجوان نسل ہی بہترین پاکستان بنا سکتی ہے کہ عنوان سے منعقد ہوا تھا جس میں ہمارے استادوں نے معاشرے کے مختلف پہلؤں پر روشنی ڈالی اس کے علاوہ رمضان میں مستحق بچو ں کے لئے روٹی،کپڑا جمع کرنے کے لئے بھی میرے دوست میرے ساتھ کھڑئے رئے تو ان کی مدد سے جتنا ہم کر سکتے تھے اتنا کیا اور اس کے علاوہ سندھ یونیورسٹی میں بلڈ ڈونیشن کیمپ لگوانے کے عمل کو بھی اپنی پایہ منزل تک پہنچایااور یہ ہی امید کرتے ہیں کہ جب صاحب حیثیت لوگ اور زیادہ مدد کریں گے تو اس عمل کو مزید آگے لے جانے میں آسانی ہوگی۔

س:آپ نے بیچلر میتھمیٹکس میں کیا اور آپکا ذوق اردو تقریروں میں نظر آتا ہے۔ اپنی شخصیت میں اتنے دلچسپ تضاد کی کیا وجہ ہے ۔؟
ج: اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کے مجھے شروع سے ہی تا لیا ں اور داد سنے کا شگف رہا ہے ہر انسان کی خوا ہش ہو تی ہے کہ کوئی اس کی پیٹھ تبھ تبھائے آپ کو آکہ یہ کہے کہ جو کر رہیں ہیں وہ اچھا کر رہے ہے تو بس میرا یہ ہی ذوق مجھے اردو کی تقریروں اور مبحاثوں کی طرف لے گیا اور کیونکہ جب مینے 2011سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تواس وقت سائنسی سبجیکٹ کا رواج زیادہ تھا اور ہم بھی بہتے دریا کی روانی کی طرح ریاضی کے شعبے میں آگئے اب ظاہر ہے یونیورسٹی میں ریاضی کے موضوع پر کوئی سائنس سیمینار تو ہوا نہیں ورنہ آپ مجھے یہاں بھی پیش پیش د یکھتے۔

س:مزاحیہ تقریروں میں آپ بہت سے شعروں کا استعمال کرتے ہے ان میں سے آپکا پسندیدہ شعر کونسا ہے؟
ج: جی ہاں کیو نکہ اسٹیج کا ما حول ایسا ہوتا ہے تو اس لئے کبھی کبھی طنزیہ جملوں کے ساتھ ساتھ شعر کی صدرت میں رنگ دکھائی پڑتا ہے میں نے یہ شعر عامر لیاقت حسین کے شو میں بھی پڑھا تھا اور مجھے کافی اچھا لگتا ہے ۔
وہ آنکھ بڑی پیاری جو میں نے اسے ماری
وہ سینڈل بڑی بھاری جو اسنے مجھے ماری

س: نوجوانوں کے لئے کوئی خاص پیغام۔
ج: نواجوانوں کے لئے پیغام بہت سادہ سا ہے کہ آپ خود کے ساتھ ہمیشہ انصاف کریںآپ کے نام ساتھ نوجوان کا جو ٹیگ لگا ہوا ہے آپ د یکھے آپ اسے کہاں استعمال کررہے ہیں۔ملک کی بہتری کے لئے قوم کی بہتری یا اپنی بہتری کے لئے بھی استعمال کررہے یا نہیں وہ خود کو تراشیں اور خو دیکھے جوسارا دن دوسروں کے متعلق باتیں کرتے رہتے ہے وہ دیکھیں کہ وہ کہاں کھڑے ہے۔

Revised version is on yahoo 
group
نٹرویو میں سوال نمبر نہیں لکھا جاتا۔ سوال کے لئے س اور جواب کے لئے ج لکھا جاتا ہے۔ ایک ایک لائین کے جواب ہے۔ اس میں کوئی معلومات نہیں جس سے کسی کو کوئی فائدہ پہنچے ۔ یہ صرف تعریفی انٹرویو ہے۔

شاہ ر خ عباسی 2k13/mc/102
مشہود علی انٹرویو
 مشہود علی 14جون 1991 کو میر پور خاص میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے 2008 میں آکسفورڈ اسکول میں میرپور سے میٹر ک کیا اور 2010 میں انٹرمیڈیٹ شاہ عبدالطیف ڈگری کالج سے کیا ۔ 2014 میں جامع سندھ سے میتھم میٹکس میں ڈگری حاصل کی ۔ مشہود علی اس وقت پرسٹن کالج حیدرآباد میں بحیثیت میتھمیٹکس ٹیچر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ ایک اچھے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ مزاحیہ مقرر بھی ہیں۔ مزاحیہ تقریروں میں انہیں کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں آل پاکستان مزاحیہ تقریر میں پہلی پوزیشن اور آل سندھ سولو پرفارمنس میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی۔

سوال نمبر 1 اردو کے مباحثے کے لئے آپ نے مزاحیہ تقریر کو ہی موزوں کیوں بنایا؟
جواب مزاحیہ تقریر کا آغاز اس وجہ سے کیا کیونکہ میں پہلے جب سنجیدہ تقریر کیا کرتا تھا تو ہارنے کے بعد بہت افسوس ہوتا تھا۔ اور پھر جب مزاحیہ تقریر کا آغاز کیا اور اس میں جب بھی ہار کا سامنا ہوتا تو شکوہ نہیں ہوا تھا کیونکہ ہارنے کے بعد بھی داد ملتی تھی ۔ اور سب سے اچھی بات لوگوں کو خوشی ملتی تھی۔

سوال نمبر 2 آپ کی بہترن مزح نگار کون ہیں؟اور اس کی وجہ ۔
جواب مزح نگار میرے مشتاق احمد یوسفی صاحب ہیں ، انور مسود ۔ ان سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مزح نگاری میں مشتاق احمد صاحب کا انداز بہت نرالا ہے۔

سوال نمبر 3 آپ اس نے سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور اتنی غیر نصابیاں سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اس کے علاوہ معاشرے کے لئے عملی کام کئے ۔
نواب۔ ہماری یوتھ نے بہت سے عملی کام کئے ہیں معاشرے میں نوجوانوں کے لئے بہت سے سیمنار منعقد کئے بہت سے ایونٹس نوجوانوں کے لئے مفت کئے گئے اس کے علاوہ غریبوں کے لئے راشن اور دوسری ضرورت کی چیزیں جو ہم کرسکتے تھے وہ سب کیا۔



سوال نمبر 4 آپ نے بیچلر میتھم میٹکس میں کیا اور آپکا ذوق اردو تقریروں میں نظر آتا ہے۔ اپنی شخصیت میں اتنے دلچسپ تضاد کی وہ کیا ہے ۔
جواب میرا ذوق و شوق تو شروع سے ہی اسٹیج پروگرام ، تقریریں کرنے کا تھا پر حالات سائنس کی طرف لے گئے۔ اور میں انٹر کلاس سے ہی پڑھانا شروع کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے سائنس کے شعبوں میں داخلا لینا پڑا۔ پر میرے ذوق نے مجھے اسٹیج تک پہنچا۔

سوال نمبر 5 زندگی میں آپکو سب سے زیادہ خوشی کب ہوئی۔
جواب مجھے آج بھی یاد اور ہمیشہ رہے گا 25 دسمبر 2012 آل پاکستان مزاحیہ تقریر میں جب میں نے پہلی پوزیشن قائد اعظم ٹرافی حاصل کی۔

سوال نمبر 6 مزاحیہ شاعری میں آپ کے پسندیدہ شاعر کونسے تھے؟ان کا کوئی خوصورت شعر۔
جواب مزاحیہ شاعری میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کی شاعری بہت پسند ہے۔
وہ آنکھ بڑی پیاری جو میں نے اسے ماری
وہ سینڈل بڑی بھاری جو اسنے مجھے ماری

سوال نمبر 7 آپ خود نوجوان ہیں اس لئے نوجوانوں کے لئے کوئی خاص پیغام۔
جواب نواجوانوں کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ ہمیشہ انصاف کرو اپنے ساتھ۔ خود کو دیکھو کہ کہاں کھڑے ہو۔ کیا مقصد ہے زندگی کا جو مقصد ہے اسے پور اکرو۔

No comments:

Post a Comment