Monday, August 17, 2015

چھوٹکی گھٹی آج اور کل

 Published in issue No 1   چھوٹکی گھٹی آج اور کل Un edited.
محترم مصنف نے فائیل کانام نہ صحیح لکھا اور نہ ارٹیکل کے اندر اس کا نام ہے نہ فائیل پر ۔ تصویر چاہئے۔
رول نمبر بھی نہیں پتہ

فائیل کا نام اور آرٹیکل کے اندر اپنا نام لکھنا ضروری ہے۔ تھرڈ ایئر کے آکری سیسٹر میں ہو، اسائنمٹ دینا تو سیکھو۔ کیا میں رائٹنگ پیسز کے فارمیٹ اور مواد کو دیکھنے کے بجائے آپ لوگوں کے فائل نیم وغیرہ ٹھیک کرتا رہوں؟

اس میں چھوٹکی گھٹی کی تصویر بھی چاہئے۔ اگر پرانی مل جائے تو اور بھی اچھا ہے  

عبیدالحق  قریشی

سندھ کا قدیم شہر حیدرآباد جو کہ اپنی ٹھنڈی شاموں، ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے آج بھی پورے ملک میں انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے ۔دورِ قدیم میں حیدرآباد شہر پکا قلعہ سے شروع ہوکر چھوٹی گھٹی پر اختتام پذیر ہوا کرتا تھا ۔انگریزدور میں یہاں مزید وسعت ہوئی اور پھر چھوٹکی گھٹی کوشاہی بازار سے لیکر گھنٹہ گھر تک پہنچا یا گیا یہ گھنٹہ گھر نول رائے کلاک ٹاور کہلاتا ہے اسکی تعمیر گھوتک طرزِ تعمیر ہے اور یہ تتلی کی شکل کا ہے جسے آج ہم مارکیٹ ٹاور کے نام سے 
جانتے ہیں ۔

شاہی بازار جو کہ پا کستان کا سب سے بڑا بازار کہلاتا ہے۔ اس ہی کی ایک گلی چھوٹکی گھٹی ہے ۔ چھوٹکی گھٹی کے

 لغوی معنٰی چھال والی گلی کے ہیں قیام پاکستان سے پہلے یہاں دانداسا،مسواک، درختوں کی چھالیں ملا کرتی تھی جو چمڑا رنگنیں کے بھی کام آتی تھیں ۔سندھی زبان میں پیڑ کی چھال کو چھوڈ کہتے ہیں۔ چھوڈ سے پہلے اسکانام سمی چاڑی تھا ۔سمی سندھی زبان میں ابھرے ہوئے ٹیلے کو کہتے ہیں۔چھوٹکی گھٹی کا نام کئی اطوار میں تبدیل ہوا چھوڈ کی گھٹی ،چھوٹی گھٹی،چھاڈ کی گھٹی ۔گھٹی سے مراد گلی کے ہیں اُ س دور میں گلی کا تصور ہوا کرتا تھا ۔

چھوٹکی گھٹی آج سندھ کا دوسرا بڑا معاشی حب کہلاتاہے ۔مگر پہلے یہاں کچے مقانات ،دکانیں ہوا کرتی تھی اور جب شام

ہوتی تھی لوگ چھتوں پر چھڑکاؤ کیا کرتے تھے اور شام کا کھانا چھتوں پر کھاتے تھے ۔ حالات بدل گئے ہیں مگر آج بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے وہ اسطرح کہ نیچے دکانیں ہونے کے باعث لوگ کھانا تو بالائی منزل پر ہی کھاتے ہیں ۔

 یہاں کہ راستوں کی بات کی جائیں تو چھوٹکی گھٹی سے اگر ہم مشرق کی طرف جائیں تو اسکا راستہ فقیر کے پڑ کی طرف جاتا ہے شمال کی طرف جائیں تو پکا قلعہ جنوب کی طرف جائیں تو حید رآباد کی پہلی پوش آبادی ہیرآباد سے جا ملتی ہیاور اگر مغرب کی طرف آتے ہیں تو یہ کچے کا علاقہ کہلاتا ہے جو اسٹیشن روڈکی طرف جاتا ہے اس سے آگے لجپت روڈ ہے جو کسی دور میں جنگل ہوا کرتا تھا۔


چھوٹکی گھٹی کی چاڑی سے منسلک حیدرآباد کا پہلا تھانہ موجود ہے جو سٹی تھانہ کہلاتا ہے پہلے اس تھانے کا نام تھانہ پڑ فقیرا تھااسی تھانے سے متصل پولیس اہلکاروں کے گھر ہوا کرتے تھے۔جہاں پر آج نئے گھر اور روشنیوں سے جگ مگ کرتی ہوئی دکانیں موجودہیں ۔اسی تھانے کے برابر میں انتہائی قدیم عمارت پر مشتمل بلدیہ اعلٰی حیدرآباد کا دفتر ہے۔اس بلدیہ اعلٰی میں پاکستان کے نامور لوگوں کے شادی کے ریکارڈ ، پیدائش کے ریکارڈ،اموات کے ریکارڈ ،جائیداد کے ریکارڈ اور ٹیکسس کے ریکارڈ موجود ہیں ۔اسی کے دامن میں پہلے یہاں اخبارات کے دفاترتھے جو کہ آج کمرشل ایریاہیں جس میں الیکٹرو نک ما رکیٹ موجود ہے۔


بلدیہ کے دفتر سے متصل چاڑی پر محمدی مسجد تھی یہ حیدرآباد کی پہلی عیدگاہ تھی ۔پھریہاں ہندو مسلم فسادات کی بناء پر اس عیدگاہ کو کینٹ پر منتقل کر دیا گیا۔


 چاڑی کے ساتھ اوپر چلیں تو دائیں جانب ساٹی پاڑہ ہوا کرتا تھا جہاں مچھلی فروش مچھلی فروخت کرنے کیلے لایا کرتے تھے اب اسے اردو بازار کہا جاتا ہے ۔ایسی کتابیں جو بچوں کو پورے حیدرآباد میں نہیں ملتیں تو وہ اردو بازار میں سستے داموں با آسانی دستیاب ہوتی ہیں ۔اردو بازار کے سامنے ہی ایڈوانی گھٹی ہے یہاں ہندو ذات کے لوگ ایڈوانی رہا کرتے تھے ۔ ایل ۔کے ایڈوانی جو بھارت کے وزیر بھی رہے اُن کا تعلق یہی سے تھا ان کی حاویلی آج بھی یہاں قائم ہے جسے ایڈوانی گھٹی کو آج لوگ بابری لین کے نام سے جانتے ہیں حیدرآباد کی سب سے بڑی میڈیکوس ہول سیل مارکیٹ یہی موجود ہیں ۔ایڈوانی گلی سے متصل چندی رمانی گلی ہے۔بھارتی اداکارہ شیلا رمانی کا تعلق اسی گلی سے تھا پھر وہ ممبئی منتقل ہوگئی تھی۔
اب بات پورانی عمارتوں کی . 1929سے پہلے جو عمارتیں تعمیر ہوئیںیہ عمارتیں راجھستانی پتھرسے بنائی جاتی تھی جو اونگر سے لائے جاتے تھے ۔اِن عمارتوں میں یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ بالکونی ہو،لکڑی کی تذین و آرائش ،روشن دان اور ہوادان موجود ہوں اِن گھروں کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ صحن بڑے اور کمرے چھوٹے ہوتے تھے ۔بیت الخلاء اور 

باورچی خانے بھی چھوٹے ہوتے تھے اور گھر میں عبادت گاہیں لازمی ہوتی تھی جس میں ہندو پوجا پاٹ کرتے تھے ۔
 قیام پاکستان کے بعد جہاں پوجا پاٹ ہوا کرتا تھا یہاں مسلمان آبادہوئے جو آج بھی بیراجمان ہیں ۔آج بھی یہ عمارتیں
دیکھنے کے قابل ہیں کیونکہ ان کی بناوٹ میں خوبصورتی نمایاں ہے ۔

 August 2015 
 Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment