اس کا انٹرو کچھ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تھوڑا سا انٹری ٹیسٹ کو ڈیفائین کرو.
Un eidted
تحریر: اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
حیدرآبادمیں انٹری ٹیسٹ کا بازار سرگرم
تعلیم حاصل کرنا ہر خاص و عام کا بنیادی حق ہے۔چاہے وہ امیر کا بچہ ہوہویا کسان کا، صنعت کا ر کا لخت جگر ہویا فیکٹریوں میں محنت کرتے مزدوروں کے جگر گوشے، ان تمام کی بہتر تعلیم وتربیت کا ذمہ ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ ان کو معیاری تعلیم فراہم کر کے معاشرے کا باشعور فرد بنائے جو اپنی صلاحیتوں سے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ بدحالی کا شکار سرکاری اسکول اس نظرئیے کے بلکل بر عکس معلوم ہوتے ہیں۔جس کے باعث والدین بچوں کو پرائیویٹ اسکول اور کالجز میں پڑھانے پر مجبور ہیں، اس کے علاوہ آج کل پرائیویٹ انٹری ٹیسٹ ادارے جو کہ والدین کو ان کے بچوں کے روشن مستقبل کا خواب دیکھا کر خوب اپنا کاروبار چمکانے میں سر گرم عمل ہیں۔
حیدرآباد میں ان سینٹرز کی تعداد50 کے قریب ہے۔5 2 حیدرآباد سٹی میں،10 قاسم آباد جبکہ15لطیف آباد میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سینٹرز میں تقریباٌ7000 سے8000 طالبعلم اپنے روشن مستقبل کے لئے قسمت آزماتے نظر آتے ہیں۔اگر ایک سینٹر کی بات کی جائے تو اس سینٹر میں طالبعلموں کی تعداد800 سے1000 ہوتی ہے، جبکہ کلاسوں کی تعداد8 سے10 جن میں 40 طالبعلم باآسانی بیٹھ سکتے ہیں۔ان سینٹرز میں طالبعلموں کو اعلی پائے کے اساتذہ کی خدمات حاصل ہوتی ہیں،جو اپنی فیلڈ میں مہارت کے ساتھ کئی سالوں کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے والے طالبعلموں میں 500طالبعلم اپنی خواہش کے مطابق انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،جو مجموعی تعداد کا صرف6.5% فیصد ہی ہے۔ ان اداروں کی فیس ہر سال بڑھادی جاتی ہے، جس کا جواز زائد اخراجات بتائے جا تے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں3000 سے5000 روپے بڑھادیئے جاتے ہیں،جس ادارے کی فیس 2013 میں 15000 تھی،2014 میں بڑھاکر 20000 کردی گئی جبکہ2015 میں 25000تک وصول کی جارہی ہے۔ اگر ان کی آمدن کاتخمینہ لگایا جائے تو وہ لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک جاپہنچی ہے، جس پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی خاص انتظام نظر نہیں آتا۔ والدین اس حوالے سے کافی پریشان دیکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں اضافے سے یون لگتا ہے کہ تعلیم اب محض تعلیم نہیں رہی بلکہ اسے کاروبار کی شکل دے کر غریب عوام کی پہنچ سے دور کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ،جس کی وجہ سے سندھ کے دیگر شہروں بدین، میرپورخاص، ڈگری، ٹنڈوالہیار، دادو،لاڑکانہ اور کشمور کے علاقوں سے متعدد طالبعلم تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔یہ طالبعلم شہر کے دیگر علاقوں لطیف آباد، قاسم آباد،جی - او- آر کالونی میں 2 سے3 کمروں کے فلیٹس میں6 سے8 طالبعلم رہائش پذیر ہوتے ہیں، ان فلیٹس کا کرایہ5000 سے10000 تک مہوار ہوتا ہے۔یہ طالبعلم اپنے آبائی گھروں سے دور اپنے روشن مستقبل کا خواب سجائے خوب محنت کر تے دیکھائی دیتے ہیں۔زائد فیسوں اور کرایوں پر یہ پر دیسی بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہمارے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار بہتر کردی جائے اور وہ اساتذہ جو پرائیویٹ اداروں میں تو اپنی ڈیوٹی اور فرائض ایمانداری سے نبھاتے ہیں، اگر ان کی حاضری سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بھی اسی طرح ممکن بنادی جائے تو ان بچوں کو کبھی پرائیویٹ اداروں کا سہارا نہ لینا پڑے۔
تحریر: اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
حیدرآبادمیں انٹری ٹیسٹ کا بازار سرگرم
تعلیم حاصل کرنا ہر خاص و عام کا بنیادی حق ہے۔چاہے وہ امیر کا بچہ ہوہویا کسان کا، صنعت کا ر کا لخت جگر ہویا فیکٹریوں میں محنت کرتے مزدوروں کے جگر گوشے، ان تمام کی بہتر تعلیم وتربیت کا ذمہ ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ ان کو معیاری تعلیم فراہم کر کے معاشرے کا باشعور فرد بنائے جو اپنی صلاحیتوں سے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ بدحالی کا شکار سرکاری اسکول اس نظرئیے کے بلکل بر عکس معلوم ہوتے ہیں۔جس کے باعث والدین بچوں کو پرائیویٹ اسکول اور کالجز میں پڑھانے پر مجبور ہیں، اس کے علاوہ آج کل پرائیویٹ انٹری ٹیسٹ ادارے جو کہ والدین کو ان کے بچوں کے روشن مستقبل کا خواب دیکھا کر خوب اپنا کاروبار چمکانے میں سر گرم عمل ہیں۔
حیدرآباد میں ان سینٹرز کی تعداد50 کے قریب ہے۔5 2 حیدرآباد سٹی میں،10 قاسم آباد جبکہ15لطیف آباد میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سینٹرز میں تقریباٌ7000 سے8000 طالبعلم اپنے روشن مستقبل کے لئے قسمت آزماتے نظر آتے ہیں۔اگر ایک سینٹر کی بات کی جائے تو اس سینٹر میں طالبعلموں کی تعداد800 سے1000 ہوتی ہے، جبکہ کلاسوں کی تعداد8 سے10 جن میں 40 طالبعلم باآسانی بیٹھ سکتے ہیں۔ان سینٹرز میں طالبعلموں کو اعلی پائے کے اساتذہ کی خدمات حاصل ہوتی ہیں،جو اپنی فیلڈ میں مہارت کے ساتھ کئی سالوں کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے والے طالبعلموں میں 500طالبعلم اپنی خواہش کے مطابق انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،جو مجموعی تعداد کا صرف6.5% فیصد ہی ہے۔ ان اداروں کی فیس ہر سال بڑھادی جاتی ہے، جس کا جواز زائد اخراجات بتائے جا تے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں3000 سے5000 روپے بڑھادیئے جاتے ہیں،جس ادارے کی فیس 2013 میں 15000 تھی،2014 میں بڑھاکر 20000 کردی گئی جبکہ2015 میں 25000تک وصول کی جارہی ہے۔ اگر ان کی آمدن کاتخمینہ لگایا جائے تو وہ لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک جاپہنچی ہے، جس پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی خاص انتظام نظر نہیں آتا۔ والدین اس حوالے سے کافی پریشان دیکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں اضافے سے یون لگتا ہے کہ تعلیم اب محض تعلیم نہیں رہی بلکہ اسے کاروبار کی شکل دے کر غریب عوام کی پہنچ سے دور کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ،جس کی وجہ سے سندھ کے دیگر شہروں بدین، میرپورخاص، ڈگری، ٹنڈوالہیار، دادو،لاڑکانہ اور کشمور کے علاقوں سے متعدد طالبعلم تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔یہ طالبعلم شہر کے دیگر علاقوں لطیف آباد، قاسم آباد،جی - او- آر کالونی میں 2 سے3 کمروں کے فلیٹس میں6 سے8 طالبعلم رہائش پذیر ہوتے ہیں، ان فلیٹس کا کرایہ5000 سے10000 تک مہوار ہوتا ہے۔یہ طالبعلم اپنے آبائی گھروں سے دور اپنے روشن مستقبل کا خواب سجائے خوب محنت کر تے دیکھائی دیتے ہیں۔زائد فیسوں اور کرایوں پر یہ پر دیسی بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہمارے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار بہتر کردی جائے اور وہ اساتذہ جو پرائیویٹ اداروں میں تو اپنی ڈیوٹی اور فرائض ایمانداری سے نبھاتے ہیں، اگر ان کی حاضری سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بھی اسی طرح ممکن بنادی جائے تو ان بچوں کو کبھی پرائیویٹ اداروں کا سہارا نہ لینا پڑے۔
اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment