منیبہ حفیظ رول نمبر76/mc/2k13 موہاٹا پیلس
Unedited
ایک ایسا محل جو کراچی کے سا حلی علاقے کلفٹن میں واقع ہے ویسے تو کراچی میں بہت تاریخی جگہ ہے کچھ آزادی سے پہلے کی اور آزادی کے بعد کی، پر موہٹہ پیلس کراچی کی سب سے نایاب اور قیمتی عمارت میں سے ایک ہے موہٹہ پیلس کلفٹن کے دائیں طرف واقع ہے یہ عمارت ۷حاتم الوی روڈ پہ واقع ہے جو وہاں کے چلتے پھرتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیعمارت کے۱ندر چاروں اطراف خوبصورت اور وسیع باغ ہیں، باغ کی ہر یالی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتی ہے اور رنگ برنگے پھولوں کی کیاریوں کے پاس مور کا ٹہلنا اس عمارت کی خوبصورت میں اور اضافہ کرتا ہے پیلس کے اطراف میں شیر اور موہٹہ کا موجسمہ بیتے دینوں کی یاد دلاتا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد 1947 میں موہاٹا بھارت چلے گئے یوں یہ عمارت حکومت پاکستان کی تحویل میں آگئی، ابتدا میں حکومت نے اس میں وزارت خارجہ کا دفتر قائم کیا بعد ازاں یہ عمارت محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش گاہ کے طور پر دے دی گئی اور اس عمارت کا نام قصر فاطمہ رکھ دیا گیا پر ان کی وفات کے بعد حکومت سندھ نے اسے واپس اپنی تحویل میں لے لیا1925 میں حکومت سندھ کی درخواست پر بینظیر بھٹو حکومت نے سندھ کے شعبہ سخافت کو یہ پیلس خریدنے اور اس کو بحال کرکے میوزیم میں منتقل کرنے کیلئے 70 لاکھ روپے دئے ۔
موہاٹا پیلس نمائش میں پرانے قدیم ثقافت اور تاریخی کلچر اور اُس کے رہن سہن اور ازدواجی زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں اور ہاتھ سے بنے ملبوسات ،کڑھائیاں اور اشیاء کی نمائش، شاندار پینٹنگ اور نایا ب نقشے کی نمائش ہمیں قدیم ثقافت کی جھلک دکھلاتی ہے وہاں پر آئی ہوئی خاتون کا کہنا ہے ’’میرے خیال میں یہ ایک بہت نایا ب نمائش ہے میں سب سے یہ ہی کہوں گی کہ وہ آکر دیکھیں جو تصویروں میں یہ چیز یں نظر نہیں آتی ان کی باریکیاں دھاگو اور ٹانکوں سے بنائے گئے یہ خوش نماں پھولوں کو چھو کے محسوس کر سکتے ہیں میں سمجھتی ہوں یہ ہماری ثقافت کا اعلیٰ معیار ہے دھرتی سے محبت کا اظہار ثقافت کو اپنا کر کیا جائے جو ہم آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں۔
موہاٹا پیلس میں لگنے والی نمائش A Flower of Ever Medown خواتین کی گہری دلچسپی کا مرکز رہی یہاں ملبوثات پہ ہاتھوں سے بنی جدید ایمبرائیڈری ، قالین، شال، کھیس، اجرک اور کھڈی پر بنے کپڑے رکھے گئے موہاٹا پیلس تعمیر کرانے کا مقصد کچھ اس طرح بتایا جاتا ہے کہ مارواڑ راجستان بھارت کے مشہور معروف تاجر شیو رتن چند رتن موہٹہ کی بیوی ایک محلق بیماری میں مبتلا ہوگئی تھی ڈاکٹروں نے یہ اعلاج تجویز کیا کہ اگر مریض کو مسلسل سمندر کی تازہ ہوا میں رکھا جائے تو بلکل صحتیاب ہوسکتی ہیں چونچہ شیو رتن موہٹہ نے بھارت کے پہلے معروف آرکیٹیکچر آغا احمد حسین کو ایک راجستانی طرز کا محل ڈیزائن مقرر کرنے کیلئے کہا آغا احمد حسین نے 1933 سے 1935 کے دوران جے پور فن تعمیر کے زیر اثر انگلو مغل انداز میں پیلے گزری اور گلابی جودھ پوری پتھروں کے امتراج کے ساتھ یہ محل تعمیر کیا۔
یہ بھی ایک دلچسپ اور محبت بھری کہانی ہے بلکل اُسی طرح جس طرح شا ہ جہاں نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز کی یاد میں تاج محل تعمیر کروایا تھاشا ہ جہاں نے تاج محل تعمیر کروایا تھا پر ممتاز کے مرنے کے بعدمگر موہٹہ نے یہ عمارت بیوی کو مرنے سے بچانے کیلئے بنوائی تھی،،
موہٹہ پیلس کے اندر کا منظر باہر سے بلکل منفرد ہے پیلس میں داخل ہوتے ہی نمائش سے متعلق Paintings لگی ہوئی دکھائی دی پیلس کے اندر ایک ایسا ماحول بنا دیا گیاکہ جسے ہم قدیم تاریخی دور میں آگئے ہیں ہلکا سا میوزیک اور ٹائے اینڈ ڈائے کا سازو سامان بہت ہی عمدہ طریقے سے سجایا گیا پرانے وقتوں میں رنگوں سے کپڑوں پر بنائے گئے پھول بلاک کی صورت میں نہایت ہی خوبصورت لگ رہے ہیں ہر کمرے کو بہت ہی خوبصورت انداز میں سجایا گیا نمائش کے لحاظ سے جہاں پر اجرک پر جدیدایمبڑائیڈری بہت بھلی لگی وہاں پہ ا یک خاتون کا کہناہے کہ’’ ہر چیز ہماری کلچر سے نکلتی ہے اس لئے ہمارا ملک بہت امیر ہے رنگ میں ثقافت میں، جدیدایمبڑائیڈری میں، کپڑوں میں، ہماری ٹیکسٹائل اینڈسٹری نے بہت ترقی کی ہے یہ ایک نمائش پرانے زمانے کا اور modern interpretation کا ایک ملاپ ہے۔
نمائش کا اختتام ایک بہت ہی خوبصورت سے کمرے میں ہوا جہاں آنے والے اس گفٹ روم سے جاتے وقت کچھ نہ کچھ ضرور لیکر جاتے ہیں کمرہ بہت ہی خوبصورت سازو سامان سے آراستہ کیا گیا ہے جہاں ہاتھوں سے بنے ہوئے ٹرک ، پین ، ٹی شرٹ، بیگ، کیچن، کپ اور کارڈز بھی ہیں کارڈز پر موہاٹا پیلس کی تصویر بہت نمایاں اور خوبصورت اندازمیں جلواہ افروز ہے۔
پچھلی صدی میں تعمیرات کردہ یہ خوبصورت عمارت 18500 اسکوائر فٹ پر محیط ہے یہ دو منزل عمارت ہے اس کی دونوں منزلوں میں 16 کمرے ہیں عمارت کے سامنے کا روخ خوبصورت کھڑکیوں پتھر کی دیواروں ، منار اور محرابوں سے ترتیب دیا گیا ہے جن میں عمدہ اور نفیس ریلینگ ڈیزائن کی گئی ہیں گراؤنڈ فلور پر بڑے اور پرآسائش کمرے ہیں اوپر کی منزل پر مزید سہولیات دی گئی ہیں جہاں سے سمندر کا حسین منظر بھی نظر آتا ہے عمارت کے چاروں اطراف اور درمیان میں گنبد شدید دھوپ سے محفوظ رکھتا ہے اس کے علاوہ ایک خوبصورت ٹاور عمارت کے اطراف میں موجود ہے شام کے وقت اس عمارت کی چھت سے سمندر کا نظارہ بہت دلکش لگتا ہے سمندر کی تازہ ہوا پرسکون ماحول پیدا کرتی ہے۔
عمارت کی چھتوں کا کام بھی نہایت نفیس انداز میں کیا گیا ہے جس میں خوبصورت بیل بوٹوں کو منفرد انداز میں چھت پر بنایا گیا اور مختلف رنگوں سے نقوش بنائے گئے ہیںیہ عمارت پرانے دور کی فن تعمیر کی بھرپور عکاسی کرتی ہے یہاں پر غیر ملکی سیاح بھی آتے ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والوں کے لیے بھی کشش رکھتی ہے اسکول کے بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی یہاںآتی رہتی ہے
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
Unedited
ایک ایسا محل جو کراچی کے سا حلی علاقے کلفٹن میں واقع ہے ویسے تو کراچی میں بہت تاریخی جگہ ہے کچھ آزادی سے پہلے کی اور آزادی کے بعد کی، پر موہٹہ پیلس کراچی کی سب سے نایاب اور قیمتی عمارت میں سے ایک ہے موہٹہ پیلس کلفٹن کے دائیں طرف واقع ہے یہ عمارت ۷حاتم الوی روڈ پہ واقع ہے جو وہاں کے چلتے پھرتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیعمارت کے۱ندر چاروں اطراف خوبصورت اور وسیع باغ ہیں، باغ کی ہر یالی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتی ہے اور رنگ برنگے پھولوں کی کیاریوں کے پاس مور کا ٹہلنا اس عمارت کی خوبصورت میں اور اضافہ کرتا ہے پیلس کے اطراف میں شیر اور موہٹہ کا موجسمہ بیتے دینوں کی یاد دلاتا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد 1947 میں موہاٹا بھارت چلے گئے یوں یہ عمارت حکومت پاکستان کی تحویل میں آگئی، ابتدا میں حکومت نے اس میں وزارت خارجہ کا دفتر قائم کیا بعد ازاں یہ عمارت محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش گاہ کے طور پر دے دی گئی اور اس عمارت کا نام قصر فاطمہ رکھ دیا گیا پر ان کی وفات کے بعد حکومت سندھ نے اسے واپس اپنی تحویل میں لے لیا1925 میں حکومت سندھ کی درخواست پر بینظیر بھٹو حکومت نے سندھ کے شعبہ سخافت کو یہ پیلس خریدنے اور اس کو بحال کرکے میوزیم میں منتقل کرنے کیلئے 70 لاکھ روپے دئے ۔
موہاٹا پیلس نمائش میں پرانے قدیم ثقافت اور تاریخی کلچر اور اُس کے رہن سہن اور ازدواجی زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں اور ہاتھ سے بنے ملبوسات ،کڑھائیاں اور اشیاء کی نمائش، شاندار پینٹنگ اور نایا ب نقشے کی نمائش ہمیں قدیم ثقافت کی جھلک دکھلاتی ہے وہاں پر آئی ہوئی خاتون کا کہنا ہے ’’میرے خیال میں یہ ایک بہت نایا ب نمائش ہے میں سب سے یہ ہی کہوں گی کہ وہ آکر دیکھیں جو تصویروں میں یہ چیز یں نظر نہیں آتی ان کی باریکیاں دھاگو اور ٹانکوں سے بنائے گئے یہ خوش نماں پھولوں کو چھو کے محسوس کر سکتے ہیں میں سمجھتی ہوں یہ ہماری ثقافت کا اعلیٰ معیار ہے دھرتی سے محبت کا اظہار ثقافت کو اپنا کر کیا جائے جو ہم آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں۔
موہاٹا پیلس میں لگنے والی نمائش A Flower of Ever Medown خواتین کی گہری دلچسپی کا مرکز رہی یہاں ملبوثات پہ ہاتھوں سے بنی جدید ایمبرائیڈری ، قالین، شال، کھیس، اجرک اور کھڈی پر بنے کپڑے رکھے گئے موہاٹا پیلس تعمیر کرانے کا مقصد کچھ اس طرح بتایا جاتا ہے کہ مارواڑ راجستان بھارت کے مشہور معروف تاجر شیو رتن چند رتن موہٹہ کی بیوی ایک محلق بیماری میں مبتلا ہوگئی تھی ڈاکٹروں نے یہ اعلاج تجویز کیا کہ اگر مریض کو مسلسل سمندر کی تازہ ہوا میں رکھا جائے تو بلکل صحتیاب ہوسکتی ہیں چونچہ شیو رتن موہٹہ نے بھارت کے پہلے معروف آرکیٹیکچر آغا احمد حسین کو ایک راجستانی طرز کا محل ڈیزائن مقرر کرنے کیلئے کہا آغا احمد حسین نے 1933 سے 1935 کے دوران جے پور فن تعمیر کے زیر اثر انگلو مغل انداز میں پیلے گزری اور گلابی جودھ پوری پتھروں کے امتراج کے ساتھ یہ محل تعمیر کیا۔
یہ بھی ایک دلچسپ اور محبت بھری کہانی ہے بلکل اُسی طرح جس طرح شا ہ جہاں نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز کی یاد میں تاج محل تعمیر کروایا تھاشا ہ جہاں نے تاج محل تعمیر کروایا تھا پر ممتاز کے مرنے کے بعدمگر موہٹہ نے یہ عمارت بیوی کو مرنے سے بچانے کیلئے بنوائی تھی،،
موہٹہ پیلس کے اندر کا منظر باہر سے بلکل منفرد ہے پیلس میں داخل ہوتے ہی نمائش سے متعلق Paintings لگی ہوئی دکھائی دی پیلس کے اندر ایک ایسا ماحول بنا دیا گیاکہ جسے ہم قدیم تاریخی دور میں آگئے ہیں ہلکا سا میوزیک اور ٹائے اینڈ ڈائے کا سازو سامان بہت ہی عمدہ طریقے سے سجایا گیا پرانے وقتوں میں رنگوں سے کپڑوں پر بنائے گئے پھول بلاک کی صورت میں نہایت ہی خوبصورت لگ رہے ہیں ہر کمرے کو بہت ہی خوبصورت انداز میں سجایا گیا نمائش کے لحاظ سے جہاں پر اجرک پر جدیدایمبڑائیڈری بہت بھلی لگی وہاں پہ ا یک خاتون کا کہناہے کہ’’ ہر چیز ہماری کلچر سے نکلتی ہے اس لئے ہمارا ملک بہت امیر ہے رنگ میں ثقافت میں، جدیدایمبڑائیڈری میں، کپڑوں میں، ہماری ٹیکسٹائل اینڈسٹری نے بہت ترقی کی ہے یہ ایک نمائش پرانے زمانے کا اور modern interpretation کا ایک ملاپ ہے۔
نمائش کا اختتام ایک بہت ہی خوبصورت سے کمرے میں ہوا جہاں آنے والے اس گفٹ روم سے جاتے وقت کچھ نہ کچھ ضرور لیکر جاتے ہیں کمرہ بہت ہی خوبصورت سازو سامان سے آراستہ کیا گیا ہے جہاں ہاتھوں سے بنے ہوئے ٹرک ، پین ، ٹی شرٹ، بیگ، کیچن، کپ اور کارڈز بھی ہیں کارڈز پر موہاٹا پیلس کی تصویر بہت نمایاں اور خوبصورت اندازمیں جلواہ افروز ہے۔
پچھلی صدی میں تعمیرات کردہ یہ خوبصورت عمارت 18500 اسکوائر فٹ پر محیط ہے یہ دو منزل عمارت ہے اس کی دونوں منزلوں میں 16 کمرے ہیں عمارت کے سامنے کا روخ خوبصورت کھڑکیوں پتھر کی دیواروں ، منار اور محرابوں سے ترتیب دیا گیا ہے جن میں عمدہ اور نفیس ریلینگ ڈیزائن کی گئی ہیں گراؤنڈ فلور پر بڑے اور پرآسائش کمرے ہیں اوپر کی منزل پر مزید سہولیات دی گئی ہیں جہاں سے سمندر کا حسین منظر بھی نظر آتا ہے عمارت کے چاروں اطراف اور درمیان میں گنبد شدید دھوپ سے محفوظ رکھتا ہے اس کے علاوہ ایک خوبصورت ٹاور عمارت کے اطراف میں موجود ہے شام کے وقت اس عمارت کی چھت سے سمندر کا نظارہ بہت دلکش لگتا ہے سمندر کی تازہ ہوا پرسکون ماحول پیدا کرتی ہے۔
عمارت کی چھتوں کا کام بھی نہایت نفیس انداز میں کیا گیا ہے جس میں خوبصورت بیل بوٹوں کو منفرد انداز میں چھت پر بنایا گیا اور مختلف رنگوں سے نقوش بنائے گئے ہیںیہ عمارت پرانے دور کی فن تعمیر کی بھرپور عکاسی کرتی ہے یہاں پر غیر ملکی سیاح بھی آتے ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والوں کے لیے بھی کشش رکھتی ہے اسکول کے بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی یہاںآتی رہتی ہے
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment