Thursday, August 20, 2015

حیدرآباد میں انٹری ٹیسٹ کا کاروبار

حیدرآباد میں انٹری ٹیسٹ کا کاروبار

تحریر اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
ہرسال جیسے ہی بارہویں جماعت کے طلبہ امتحانات سے فارغ ہوتے ہیں، ان کے سامنے ایک نیا چیلنج سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے،جسے انٹری ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے لیا جاتا ہے۔ داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے حوالے سے حیدرآباد میں بہت سے پرائیویٹ ادارے موجود ہیں جو اس ٹیسٹ کی تیاری کرا تے ہیں۔ 

حیدرآباد میں ان اداروں کی تعداد50 کے قریب ہے۔جس میں 25 حیدرآباد سٹی میں،10 قاسم آباد جبکہ15لطیف آباد میں موجود ہیں۔جہاں تقریباً7000 سے8000 طالبعلم اپنے روشن مستقبل کے لئے تیاری کرتے ہیں۔ہر ادارے میں طلبہ کی تعداد تقریباً 800 سے1000 ہوتی ہے۔ان اداروں میں طلباء کو اچھی شہرت کے اساتذہ کی خدمات حاصل ہوتی ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے والے طالبعلموں میں ہر سال 500طالبعلم اپنی خواہش کے مطابق
 انجینئرنگ یا میڈیکل میں داخلہ حاصل کر پاتے ہیں،جو مجموعی تعداد کاصرف 6.5% فیصد ہی ہے۔

ان اداروں کی فیس ہر سال بڑھادی جاتی ہے، جس کا جواز زائد اخراجات بتائے جا تے ہیں۔جن اداروں کی فیس 2013 میں 15000 روپے تھی، وہ 2014 میں بڑھاکر 20000 روپے کردی گئی جبکہ2015 میں 25000روپے تک وصول کی جارہی ہے۔ ان کی آمدن کاتخمینہ لگایا جائے یہ معاملہ وہ لاکھوں میں کروڑوں تک جاپہنچتا ہے، جس پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی انتظام سرے سے موجود نہیں۔ 

پرائیویٹ اسکولوں کی طرح یہ بڑا کاروبار ہے۔ ہزاروں طلبہ ایسے ہیں جن کے والدین انٹری ٹیسٹ اداروں کی فیس اور بچوں کی دوسرے شہر میں رہائش کا مالی بوجھ برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ ٹیسٹ کی تیاری کے لئے ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں اضافے سے لگتا ہے کہ تعلیم کو اب مکمل کاروبار کی شکل دے کر غریب عوام کی پہنچ سے دور کیا جارہا ہے۔

حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ،جس کی وجہ سے سندھ کے دیگر شہروں بدین، میرپورخاص، ڈگری، ٹنڈوالہیار، دادو،لاڑکانہ اور کشمور کے علاقوں سے طالبعلم اپنے آبائی گھروں سے دور اپنے روشن مستقبل کا خواب سجائے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

یہ طلبہ شہر کے مختلف علاقوں لطیف آباد، قاسم آباد،جی - او- آر کالونی میں 2 سے3 کمروں کے فلیٹس میں6 سے8 کی تعداد میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ان فلیٹس کا کرایہ5000 سے10000 تک ماہوار ہوتا ہے۔زائد فیس اور کرائے ان پر مزید گراں گزرتی ہے۔ اگر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت بہتر کردی جائے اور وہ اساتذہ جو پرائیویٹ اداروں میں تو اپنی ڈیوٹی اور فرائض ایمانداری سے نبھاتے ہیں، اگر ان کی حاضری سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بھی اسی طرح ممکن بنادی جائے تو ان بچوں کو کبھی پرائیویٹ اداروں کا سہارا نہ لینا پڑے۔
------------- Un edited --------------------------   
 اسد علی
رول نمبر 2k13/mc/17
حیدرآباد میں انٹری ٹیسٹ کا بازار سرگرم
جب طلباء و طالبات بارہویں جماعت کے امتحانات دے کر فارغ ہوتے ہیں،تو ایک نیا چیلنج ان کے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے،جسے انٹری ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔انٹری ٹیسٹ مختلف یونیورسٹیوں ک میں داخلے کے لئے لیا جاتا ہے۔ ٹیسٹ میں 100یا100سے زائد سوالات دیئے جاتے ہیں،ہر سوال کے جواب میں چار آپشن ہوتے ہیں،جن میں سے امیدوار کو ایک درست آپشن کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔جو اس کسوٹی پر پورے اتر تے ہیں اور اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں اور یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے حوالے سے شہر میں بہت سے پرائیویٹ ادارے ہیں، جو حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں کام کر رہے ہیں ہیں۔
حیدرآباد میں ان سینٹرز کی تعداد50 کے قریب ہے۔5 2 حیدرآباد سٹی میں،10 قاسم آباد جبکہ15لطیف آباد میں ہیں۔جہاں تقریباٌ7000 سے8000 طالبعلم اپنے روشن مستقبل کے لئے قسمت آزماتے نظر آتے ہیں۔ ایک سینٹر میں طالبعلموں کی تعداد تقریبا 800 سے1000 ہوتی ہے، جبکہ کلاسوں کی تعداد8 سے10 جن میں 40 طالبعلم باآسانی بیٹھ سکتے ہیں۔ان سینٹرز میں طلباء کو اچھی شہرت کے اساتذہ کی خدمات حاصل ہوتی ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے والے طالبعلموں میں 500طالبعلم اپنی خواہش کے مطابق انجینئرنگ یا میڈیکل میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،جو مجموعی تعداد کا صرف6.5% فیصد ہی ہے۔ ان اداروں کی فیس ہر سال بڑھادی جاتی ہے، جس کا جواز زائد اخراجات بتائے جا تے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں3000 سے5000 روپے بڑھادیئے جاتے ہیں،جس ادارے کی فیس 2013 میں 15000 روپے تھی،2014 میں بڑھاکر 20000 کردی گئی جبکہ2015 میں 25000روپے تک وصول کی جارہی ہے۔ اگر ان کی آمدن کاتخمینہ لگایا جائے تو وہ لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک جاپہنچی ہے، جس پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی خاص انتظام نظر نہیں آتا۔ والدین اس حوالے سے کافی پریشان دیکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر سال ان اداروں کی فیسوں میں اضافے سے یوں لگتا ہے کہ تعلیم اب محض تعلیم نہیں رہی بلکہ اسے کاروبار کی شکل دے کر غریب عوام کی پہنچ سے دور کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ،جس کی وجہ سے سندھ کے دیگر شہروں بدین، میرپورخاص، ڈگری، ٹنڈوالہیار، دادو،لاڑکانہ اور کشمور کے علاقوں سے متعدد طالبعلم انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔یہ طالبعلم شہر کے مختلف علاقوں لطیف آباد، قاسم آباد،جی - او- آر کالونی میں 2 سے3 کمروں کے فلیٹس میں6 سے8 طالبعلم رہائش پذیر ہوتے ہیں، ان فلیٹس کا کرایہ5000 سے10000 تک ماہوار ہوتا ہے۔یہ طالبعلم اپنے آبائی گھروں سے دور اپنے روشن مستقبل کا خواب سجائے خوب محنت کر تے دیکھائی دیتے ہیں۔زائد فیسوں اور کرایوں پر یہ پر دیسی بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہمارے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار بہتر کردی جائے اور وہ اساتذہ جو پرائیویٹ اداروں میں تو اپنی ڈیوٹی اور فرائض ایمانداری سے نبھاتے ہیں، اگر ان کی حاضری سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بھی اسی طرح ممکن بنادی جائے تو ان بچوں کو کبھی پرائیویٹ اداروں کا سہارا نہ لینا پڑے۔
 Asad Ali BS-III Second semester, August 2015
Practical work done under supervision of Sir Sohail Sangi 
Key words: Entry Test business

No comments:

Post a Comment