Tuesday, August 18, 2015

باشاہی بنگلہ

بلال حسن رول نمبر 2  k13/MC/28  
فیچر باشاہی بنگلہ حیدرآباد

 Unedited
 fotos will be required
قد یم مقامات ہر شہر کے تاریخی ورثے ہوتے ہیں۔اور ان مقاما ت کے ساتھ بہت سی یادیں اور تہذیب وابستہ ہوتی ہیں ایسے ہی حیدرآباد کے چند قدیم مقاما ت جو کہ حیدرآباد کی تاریخی تعمیرات کا ایک دلکش نمونہ ہیں جس میں کچا قلعہ ،ٹالپور کے مقبرے،مکھی ہاوس او ر بھی بہت سی تعمیرات جس میں سے ایک بادشاہی بنگلہ بھی ہے جسکو میروں کی حویلی بھی کہا جاتا ہے او ر یہ بنگلہ لطیف آبا د نمبر 4ٹنڈر تالپور میں واقع ہے۔


اگر بادشاہی بنگلہ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بنگلہ 1863میں میر نصیر خان تالپور نے اپنے آخری حکمران فرزند میر حسن تالپور کے لیے کروایا تھااور 1970میں سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کی جانب سے چند سالوں کے لیے اس بنگلہ پرپابندی لگائی گئی پھر کچھ عرصے بعد ہٹا دگئی یہ شاندار محل نہ حکومت کی طرف سے بحا ل کیا اور نہ ہی اسکے مالکان کو اس کو برقراررکھنے کی اجازت دی گئی پھر بعد میں بعض وزرات کی ؂جانب سے ان کے مالکان کو واپس کیا گیا اور اس کے موجودہ مالک بہت سے ہیں جس میں میرفتح تالپور،میر حیدر تالپوروغیرہ شامل ہیں۔


اب اس بنگلے کی خوبصورتی اور نقش ونگار کی بات کی جائے تو کیا ہی دلکش منظر زہن میں آتا ہے کہ اس کے عتراف میں چاروں طرف ہریالی اور باغات اس کی اس کی شان و شوکت بڑھا دیتے ہیں اور جیسے ہی اس کے عتراف میں قدم رکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم بادشاہو ں کے دور میں آگئے ہوں اور اسکے نقش و نگار اور بناوٹ اس کے حسن کی گواہی دیتے ہیں ۔ یہ بنگلہ تین منزلوں پر مشتمل ہے اس کی بناوٹ اور سجاوٹ میں زیادہ تر استعمال لکڑی اور شیشے کا کیا گیا ہے۔محل میں لگی رنگ برنگی شیشے کی کھڑکیاں اس کو اور زیادہ خوبصورت بنا دیتی ہیں اور دیواروں پرہوا شیشے کا کام بنگلہ کی اندرونی خوبصورتی کو اورسنوار دیتا ہے۔ اور بہت سی قیمتی اور علیشان چیزیں ،جنھوں نے اس محل کی ذینت کو آج بھی قائم رکھا ہوا ہے۔

ایسی ہی بہت سی تاریخی تعمیرات اور مقاما ت جو حیدرآبادکا حصّہ ہیں اور حیدرآباد کو ایک الگ اور منفردپہچان دیتی ہیں جنہیں دیکھنے کے ساتھ ساتھ لوگ ان کی تاریخ سے بھی واقف ہوتے ہیں اور یہ سچ ہے کے یہی تاریخی نشانیاں ہمیں ماضی کو یاد رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔

Bilal Hassan    k13/MC/28  
Second semester BS-III 

August 2015 
Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi 

No comments:

Post a Comment